وطن کا سپاہی Part 9



اب وہ غصے میں دانش کی طرف دیکھنے لگا تو میجر دانش بولا تیرے ان کرائے کے کتوں سے میں تو کیا میرے ملک کا بچہ بھی نہیں ڈرے گا۔ ہمت ہے تو انکو کہ میرے پر گولی چلائیں۔ اصل میں دانش جو آئی ایس آئی کا قابل ایجینٹ تھا وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ کوئی بھی آرمی کبھی دوسری آرمی کے قیدی کو اتنی آسانی سے نہیں مارتے۔ کیونکہ انکا مقصد قیدی سے زیادہ سے زیادہ معلومات لینا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ کبھی گوارا نہیں کرتے کہ ہاتھ آئے قیدی کو کچھ معلومات لیے بغیر مار دیں۔ یہی وجہ تھی کہ میجر دانش بالکل نڈر کھڑا تھا۔


اب کی بار اندر آنے والے شخص نے پوچھا بتاو تم لیفٹینینٹ کرنل ہارون کا پیچھا کیوں کر رہے تھے؟ اور ہماری شپ پر کیا کرنے آئے تھے؟؟؟ اسکی یہ بات سن کر میجر دانش نے ایک قہقہ لگایا اور بولا یہ دھوکا کسی اور کو دینا، کرنل وشال جیسے کتے کو میں کسی بھی روپ میں پہچان سکتا ہوں۔ وہ لیفٹینینٹ کرنل ہارون نہیں بلکہ کرنل وشال تھا جسکا میں پیچھا کر رہا تھا۔ میجر کی یہ بات سن کر وہ شخص مسکرایا اور بولا اچھا تو تم جانتے ہو کہ وہ کرنل وشال تھا۔ چلو یہ تو اچھی بات ہے۔ اب یہ بھی بتا دو کہ تم انکا پیچھا کیوں کر رہے تھے؟؟؟ اسکی یہ بات سن کر دانش بولا کہ میں تب تک تمہارے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا جب تک تم میرے چند سوالوں کے جواب نہیں دے دیتے۔ دوسرے شخص نے پوچھا کونسے سوال؟؟ تو میجر دانش بولا کہ میں اس وقت کہاں ہوں؟؟ اور تم لوگ کون ہو؟ دانش کی بات سن کر وہ شخص بولا تم اس وقت جام نگر میں ہو اور ہم کون ہیں یہ جاننے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں۔


یہ جواب سن کر دانش نے اندازہ لگا لیا کہ یہ انڈیا کا ساحلی شہر ہے ، اب میجر دانش کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ ہندوستان کا قیدی بن چکا ہے۔ مگر اسنے بغیر پریشان ہوئے اگلا سوال کیا کہ میں کتنی دیر بےہوش رہا؟؟ اس پر وہ شخص بولا ہمیں 3 دن پہلے بتا دیا گیا تھا کہ ایک پاکستان کتا پکڑا گیا ہے اور کل تمہیں یہاں پہنچا دیا گیا تھا۔ تب سے تم ادھر ہی ہو۔ یہ سن کر میجر دانش حیران رہ گیا۔ 3 دن پہلے اس شخص کو پتا لگا تھا کہ میجر دانش کرنل وشال کے قبضے میں ہے، اسکا مطلب کہ میجر دانش کم سے کم 3 دن سے بے ہوش پڑا تھا۔ اب کی بار وہ شخص دھاڑا کہ اب بتاو تم کرنل وشال کا پیچھا کیوں کر رہے تھے؟؟؟ اسکی بات سن کر میجر دانش نے بلا توقف کہا جب وہ روڈ پر ٹریفک کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 90 کی بجائے 130 کلومیٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے گاڑی چلائے گا تو میں تو اسکا پیچھا کروں گا ہی نا۔ میری تو ڈیوٹی ہے یہ۔ میجر دانش کا یہ جواب سن کر دوسرا شخص دھاڑا کیا مطلب ہے تمہارا؟ میجر دانش مسکراتے ہوئے بولا ارے یار میں ٹریفک پولیس میں ہوں کراچی میں۔ رات 3 بجے ایک ہنڈا اکارڈ جس میں تمہارا کرنل وشال کہیں جا رہا تھا اس گاڑی کا پیچھا کیا کیونکہ وہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پورے 130 کلومیٹر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ میجر دانش کی بات مکمل ہوتی ایک زناٹے دار تھپڑ میجر کے منہ پر پڑا جس نے میجر دانش کے چاروں طبق روشن کر دیے تھے۔


میجر دانش کو دوبارہ سے اسی شخص کی غراتی ہوئی آواز آئی ابے خبیث انسان ایک ٹریفک پولیس کو کیسے پتا ہوسکتا ہے کہ لیفٹینینٹ کرنل ہارون کے بھیس میں کرنل وشال جا رہا ہے۔۔۔ تو یقینا آئی ایس آئی کا کتا ہے۔ سچ سچ بول نہیں تو تیری زبان کھینچ کر سچ اگلوا لوں گا میں۔۔۔۔ اس شخص کی یہ بات سن کر میجر دانش نے اپنی زبان باہر نکال دی۔۔۔۔ وہ شخص حیران ہوکر میجر کو دیکھنے لگا تو میجر بولا لو پکڑ لو زبان اگلوا لو جو سچ تم نے اگلوانا ہے۔ یہ کہ کر میجر دانش ہنسنے لگا اور پھر بولا یار گاڑی کے شیشے کالے تھے مجھے تو نہیں پتا تھا اندر کون ہے۔ میں نے تو پیچھا کرنا شروع کر دیا تھا۔ پھر بندر گاہ کے قریب میں نے کرنل وشال کو کچھ اسلحہ برادر لوگوں کے ساتھ باتیں کرتے سنا، وہ لوگ اسکو کرنل وشال کہ کر ہی مخاطب کر رہے تھے تو میں سمجھ گیا کہ یہ آدمی جو قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے یہ کرنل وشال ہے۔


میجر کی یہ بات ختم ہوئی تو وہ شخص مسکرانے لگا اور بولا چوتیا سمجھ رکھا ہے کیا تو نے ہمیں؟؟ کچھ بھی بولے گا اور ہم مان لیں گے؟؟؟ میجر دانش برا سا منہ بناتے ہوئے بولا اچھا یار نہ مانو۔ جو سچ ہے میں نے تمہیں بتا دیا۔ وہ شخص پھر بولا سچ سچ بتا آئی ایس آئی نے کس مقصد سے تجھے بھیجا تھا کرنل کے پیچھے؟؟؟ میجر دانش نے انجان بنتے ہوئے کہا کون آئی ایس آئی؟؟؟ پھر خود ہی بول پڑا اچھا اچھا پاکستان کی خفیہ ایجینسی۔۔۔ ارے یار وہ اتنے پاگل تھوڑی ہیں ایک ٹریفک کانسٹیبل کو کرنل کا پیچھا کرنے بھیج دیں، میں نے بتایا نا کہ وہ اوور سپیڈینگ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک اور زناٹے دار تھپڑ میجر دانش کے چہرے پر لگا اور اسکی بات بیچ میں ہی رہ گئی۔ اب کی بار میجر دانش نے غصے سے اس شخص کی طرف دیکھا اور اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولا کہ اس تھپڑ کا بدلہ تو میں تجھ سے ضرور لوں گا۔ ایک بار میرے ہاتھ تو کھول پھر دیکھ تجھے تیرے ان بھائیوں کے سامنے کتے کی موت ماروں گا۔


میجر دانش کی یہ بات سن کر وہ شخص زور زور سے ہنسنے لگا۔ اور بولا اچھا چل یہ بتا کہ ایک ٹریفک پولیس والے نے ہمارے آرمی کیپٹن کو ایک ہی وار میں کیسے جان سے مار دیا؟؟؟ اس پر میجر دانش نے کہا اس میں کونسا بڑی بات ہے، میرے ہاتھ کھول ابھی بتا دیتا ہوں کہ اسے کیسے مارا تھا۔ یہ کہ کر میجر دانش ہنسنے لگا اور بولا اچھا تو وہ جو میرا ایک ہاتھ لگنے سے مر گیا وہ تمہارا آرمی کیپٹن تھا؟؟؟ حیرت ہے یار کیا زنخے بھرتی کرتے ہو تم لوگ آرمی میں۔۔ ابھی شکر کرو انکے سامنے پاکستان کا ٹریفک کانسٹیبل تھا کہیں واقعی میں آئی ایس آئی کا ایجینٹ آجاتا تو تمہارا کرنل وشال بھی اسی کیپٹن کی طرح اگلے جہاں پہنچ جاتا۔


ایک اور تھپڑ میجر دانش کے چہرے پر لگا مگر اس بار میجر دانش نے تھپڑ کھاتے ہی جوابی حملہ کیا اور ایک بار پھر اپنا سر اس شخص کی ناک پر دے مارا۔ وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور زمین پر جا گرا۔ پیچھے کھڑے گن مین ایک بار پھر اپنی گنوں کا رخ میجر دانش کی طرف کر کے کھڑے ہوگئے مگر اس بار وہ ڈرے ہوئے تھے اور 2، 2 قدم پیچھے ہٹ گئے تھے۔ انکو دیکھ کر میجر دانش نے قہقہ لگایا اور بولا چلاو گولی چلاو۔۔۔ مگر انہوں نے گولی نہیں چلائی اور وہ شخص بھی اب اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا تھا۔ اسکے ناک سے اب خون نکل رہا تھا۔ اسکا ایک ہاتھ اپنی ناک پر تھا۔ وہ شخص اب غصے میں بولا گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلے گا تو انگلی ٹیڑھی بھی کرنی آتی ہے ہمیں۔ راء کے پاس تم جیسے آئی ایس آئی کے پِلوں کو سیدھا کرنے کے ایک سو ایک طریقے ہیں۔ اب وہی تم سے نمٹیں گے۔ یہ کہ کر وہ شخص واپس چلا گیا اور کمرے میں ایک عجیب سی بدبو پھیل گئی۔ میجر دانش سمجھ گیا تھا کہ یہ سپیشل گیس چھوڑی گئی ہے میجر کو بے ہوش کرنے کے لیے۔ اس نے اپنی سانس روکنے کی بالکل کوشش نہیں کی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ اتنی دیر سانس نہیں روک سکتا کہ اس گیس کا اثر زائل ہوسکے لہذا فضول میں سانس روکنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کچھ ہی سیکنڈ میں میجر دانش زمین پر بے ہوش پڑا تھا۔

Comments

Popular posts from this blog

سچی کہانی۔۔ قسط نمبر 1

"*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 3

*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 4