وطن کا سپاہی Part 7
آنکھوں میں اب وضح طور پر خوف نمایاں ہورہا تھا۔ اسکی نطریں دانش کے لن پ تھیں اور وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اتنا بڑا لن اسکی نازک سی باریک سے پھدی میں کیسے داخل ہوگا۔ عفت کے خوف اور ڈر کو دیکھتے ہوئے اور اسکی چوت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے دانش نے ڈریسنگ ٹیبل سے تیل کی شیشی اٹھائی اور اس سے عفت کی چوت کو چکنا کرنے لگا۔ پھر اس نے تھوڑا سا تیل اپنے لن پر انڈیلا اور اسکو بھی اچھی طرح مسل مسل کر چکنا کر دیا۔ اب دانش نے عفت کو اشارہ کیا کہ وہ تیار رہے، عفت سمجھ گئی کہ اب یہ موٹا لن اسکی چوت کی نازک دیواروں کو چیرتا ہوا اسکی گہرائیوں میں جا کر ٹکریں مارنے والا ہے۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور خود سپردگی کے عالم میں انتظار کرنے لگی کہ کب اسکا شوہر اسکا کنوارہ پن ختم کر کے اسکو ایک لڑکی سے عورت اور ایک کلی سے پھول بناتا ہے۔
اچانک ہی عفت کو اپنی چوت کے سوراخ پر ایک موٹی اور سخت چیز کا دباو محسوس ہوا، اس سے پہلے کہ وہ آنکھیں کھول کر اسکا نظارہ کرتی عفت کی ایک زور دار چیخ نکلی، اسکو ایسے لگا جیسے کوئی گرم لوہے کی سلاخ نے اسکے جسم کو چیر کر رکھ دیا ہے۔ دانش نے فورا اپنا ایک ہاتھ عفت کے ہونٹوں پر رکھ کر اسکی مزید چیخ و پکار کو ختم کیا۔ اس ایک دھکے سے ہی عفت کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ گو کہ ابھی اسکا کنوارہ پن ختم نہیں ہوا تھا اور دانش کے لن کی محض ٹوپی ہی اسکی چوت کے لبوں کو چیرتی ہوئی اندر تک گئی تھی مگر اسکے باوجود عفت کو لگا جیسے پورے کا پورا 8 انچ کا لن اسکی چوت میں اتر چکا ہے۔ عفت کی 2، 3 ہلکی چیخوں کے بعد دانش نے ایک بار پھر اپنے جسم کا دباو عفت پر بڑھایا اور اس دباوہ کا سارا مرکز اپنے لن کو رکھا، جس کی وجہ سے لن عفت کی چوت کی دیواروں سے رگڑ کھاتا ہوا کچھ مزید اندر چلا گیا اور عفت کی چیخیں ایک بار پھر بلند آواز کے ساتھ کمرے میں گونجنے لگیں۔
ان چیخوں کو پہلے تو دانش نے اپنے ہاتھ سے روکا مگر پھر اسکے بعد عفت کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹوں کو رکھ کر اسکی چیخوں کو اپنے منہ کے اندر ہی کہیں گمر کر دیا۔ اس دھکے دانش کو اپنے لن کے راستے میں رکاوٹ محسوس ہوئی تھی اور اس رکاوٹ نے دانش کے لن کو مزید اندر جانے سے روک دیا تھا۔ کچھ دیر دانش نے اپنا لن اسی رکاوٹ کے سامنے روک کر رکھا پھر جب عفت کی چیخوں میں کمی ہوئی تو دانش نے اپنا لن تھوڑا سا باہر نکالا اور طاقت کے ساتھ اس رکاوٹ پے دے مارا۔ اس بار میجر دانش کے فولادی لن نے اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو تہس نہس کر ڈالا تھا۔ کمرہ عفت کی چیخوں سے گونج رہا تھا، عفت کی کنواری چوت اب کنواری نہیں رہی تھی۔ اسکا پردہ پھٹ چکا تھا اور خون کی چھوٹی سی دھار اسکی چوت سے نکل کر نیچے بچھی ہوئی سفیر چادر پر جا گری تھی۔
عفت اپنی چوت سے نکلنے والے خون سے بے خبر اپنی چوت میں ہونے والے بے تحاشہ درد کو برداشت کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی جبکہ میجر دانش اپنی پھول جیسی نازک بیوی کا درد کم ہونے کا انتظار کر رہا تھا تاکہ وہ مزید دھکے مار کر اپنی بیوی کو سہاگ رات کے اصل مزے سے آشنا کر سکے۔ اسکے لیے دانش کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا، عفت کے اندرموجود گرمی اور سیکس کو انجوائے کرنے کی خواہش نے جلد ہی اسکو درد بھلا دی تھی۔ اور اب وہ قدرے اطمینان کے ساتھ اپنے شوہر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اشارہ کر رہی تھی کہ اپنا کام جاری رکھو۔ عفت کی طرف سے اشارہ ملتے ہی دانش اوپر اٹھا اور ایک زور دار دھکا عفت کی چوت میں مارا جس سے دانش کا 8 انچ کا لن مکمل طور پر عفت کی چوت کی گہرائیوں میں اتر گیا تھا۔
ایک بار پھر عفت کی چیخوں سے کمرہ گونجا مگر اس بار عفت نے خود ہی اپنی چیخ پر قابو پا لیا تھا۔ ایک چیخ کے بعد دوسری چیخ اسنے خود ہی روک لی تھی۔ اور دانش نے بھی نیچے بچھی ہوئی چادر پر سرخ نشان دیکھ لیا تھا جس سے وہ مکمل مطمئن ہوگیا تھا کہ عفت کا کنوارہ پن دانش کے مضبوط لن نے ہی ختم کیا ہے۔ اب اسکو اپنی پیاری سی بیوی پر اور بھی زیادہ پیار آنے لگا تھا۔ وہ اپنے لن کو عفت کی چوت میں روک کر اسکا درد کم ہونے کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک ہی عفت نے اپنی گانڈ ہلا کر خود ہی دانش کا لن اپنی چوت کے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ اتنا مظبوط سگنل ملنے پر دانش نے اب خود سے عفت کی چوت کے اندر جھٹکے مارنے شروع کیا۔ عفت کی چوت نے بہت مضبوطی کے ساتھ دانش کےلن کو جکڑ رکھا تھا جس کی وجہ سے دانش کا لن بہت مشکل سے اندر باہر ہو رہا تھا۔ دانش کے لن نے بہت عرصے بعد اتنی ٹائٹ چوت میں اپنا لن اتارا تھا۔ اور آج اسکو صحیح مزہ آرہا تھا چودائی کا۔ جبکہ عفت بھی اپنے شوہر کا پورا ساتھ دے رہی تھی۔ دانش جو ابھی تک آرام آرام سے چت میں لن داخل کر رہا تھا عفت کی طرف سے گانڈ کو تیز تیز ہلانے سے اسکو سگنل ملا کہ اپنی سپیڈ بڑھا دو۔
یہ سگنل ملتے ہی دانش نے اپنی سپیڈ بڑھا دی، کچھ ہی جھٹکوں کے بعد عفت کو اپنے جسم میں پہلے کی طرح سوئیاں چبھتی محسوس ہونے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اسکی چوت نے اپنے پانی سے دانش کے لن کو مکمل بھگو دیا تھا۔ دانش کا لن اب بہت آسانی سے عفت کی چوت میں کھدائی کر رہا تھا۔ عفت کی چوت کے پانی نے اسکی چوت کو اور دانش کے لن کو مزید چکنا کر دیا تھا۔ دانش بغیر رکے دھکے لگانے میں مصروف تھا۔ اور اب دانش کے ان دھکوں سے عفت کی چیخیں سسکیوں میں بدل چکی تھیں۔ چکنی چوت نے لن کو آزادانہ اندر باہر جانے کی اجازت دے دی تھی اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دانش نان سٹاپ مشین چلا رہا تھا اپنی بیوی کی چوت میں۔
کچھ دیر کے بعد دانش نے پوزیشن چینج کرنے کے لیے عفت کی چوت سے اپنے لن کو نکالا تو عفت کو ایسا لگا جیسے اسکی چوت میں پھنسا ہوا کوئی موٹا ڈنڈا ایک دم سے باہر نکل گیا ہو اور اب اسکو اپنی چوت پہلے کی طرح ہلکی پھلکی محسوس ہو رہی تھی۔ مگر دانش نے بغیر ٹائم ضائی کیے خود نیچے لیٹ کر عفت کو اپنے اوپر بٹھا لیا اور اسکی چوت کو اپنے لن کے اوپر سیٹ کر کے نیچے سے ایک زور دار دھکا عفت کی چوت میں مارا۔ اس دھکے نے عفت کے چوتڑوں کو دانش کے زیرِ ناف حصے سے ملا دیا تھا اور دھپ کی ایک آواز پیدا ہوئی۔ ایک بار پھر عفت کو لوہے کی گرم سلاخ اپنی نازک چوت میں جاتی ہوئی محسوس ہوئی اور اسکی ایک چیخ بھی نکلی مگر اب کی بار اس چیخ میں درد کے ساتھ ساتھ مزہ بھی تھا۔
دانش کے ایک ہی دھکے سے پورا لن عفت کی چوت میں گھس گیا تھا اور اب دانش کا ہر دھکا عفت کے چوتڑوں اور دانش کے زیر ناف حصے کے ملاب کا باعث بن رہا تھا جس کی وجہ سے پورا کمرہ دھپ دھپ کی آوازوں سے گونج رہا تھا۔ دانش نے عفت کو اپنے اوپر لٹا کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ عفت کے ممے دانش کے سینے میں چھپ گئے تھے اور دانش عفت کو چوتڑوں سے پکڑ کر اپنا لن تیزی کے ساتھ اسکی چوت میں اندر باہر کر رہا تھا۔ عفت نے اپنا سر اٹھا کر اپنے گرم ہونٹ دانش کے ہونٹوں سے ملا دیے اور چدائی کے ساتھ ساتھ کسنگ کرنے کا مزہ بھی لینے لگی۔ اب لن کافی روانی کے ساتھ عفت کی چوت میں پمپ چلا رہا تھا۔ اور اس پمپ کے چلنے سے جلد ہی دوبارہ پانی نکلنے والا تھا۔ عفت اب اپنی سہاگ رات کو فل مزے سے انجوئے کر رہی تھی۔
اگرچہ ابھی بھی عفت کو اپنی چوت کی دیواروں کے ساتھ دانش کا لن رگڑتا ہوا ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اسکے جسم کے ساتھ کوئی ریگ مال سے رگڑائی کر رہا ہو، مگر اس چبھن اور رگڑائی کا بھی اپنا ہی انوکھا مزہ تھا۔ کچھ دیر دانش کے ہونٹ چوسنے کے بعد اب عفت اٹھ کر بیٹھ گئی تھی، اب کی بار وہ خود بھی دانش کے لن کے اوپر اچھل رہی تھی جس کی وجہ سے لن کی چوٹ پہلے سے زیادہ لگ رہی تھی۔ پہلے صرف دانش نیچے سے دھکے مار رہا تھا مگر اب عفت خود بھی اچھل رہی تھی، عفت کی چوت سے جب لن باہر نکلتا تو دانش نیچے کی طرف ہوتا اور عفت اوپر کی طرف اٹھتی، جب لن نے اندر جانا ہوتا تو دانش ایک زور دار دھکا اوپر کی طرف مارتا اور عفت بھی اپنے پورے وزن کے ساتھ دانش کے لن کے اوپر آتی۔ دانش اور عفت اب اپنی سہاگ رات کی پہلی چودائی کو فل انجوائے کر رہے تھے۔ اتنے میں عفت کو اپنے جسم میں وہی سوئیاں چبھتی محسوس ہونے لگیں۔ مگر اپ کی بار وہ جانتی تھی کہ اسکے نتیجے میں ملنے والا مزہ کیا اہمیت رکھتا ہے۔
دانش نے بھی اب کی بار پوری رفتار کے ساتھ دھکے لگانا شروع کر دیا تھے اور اس نے عفت کے چوتڑوں کو زور سے پکڑ رکھا تھا۔ کچھ دیر مزید دھکے لگانے کے بعد دانش نے مزید کچھ زور دار دھکے لگائے اور اسکے ساتھ ہی اپنی ساری منی اپنی بیوی عفت کی چوت کے اندر نکال دی۔ جیسے جیسے دانش کے لن سے منی نکل رہی تھی ویسے ہی عفت کی چوت بھی اپنا پانی چھوڑ رہی تھی۔ چوت اور لن نے جب اکٹھے پانی چھوڑا تو عفت کی چوت میں جیسے سیلاب آگیا۔ اور یہ سیلاب بہت ہی زیادہ گرم پانی کا تھا جس سے عفت کی چوت اور گرم جوانی کو ایک سکون مل گیا۔
دونوں اپنا اپنا پانی چھوڑنے کے بعد کافی دیر تک ایک دوسرے کے گلے سے لگ کر گہرے گہرے سانس لیتے رہے۔ دانش کا 8 انچ کا لن اب چھوٹا ہوکر 2 انچ کا ہوگیا تھا جسکو عفت بہت ہی اشتیاق کے ساتھ دیکھ رہی تھی اور حیران ہورہی تھی کہ یہ ننھا منا سا 2 انچ کا لن کچھ ہی دیر پہلے کیسے لوہے کے راڈ کے طرح اسکی چوت میں گھسا ہوا تھا۔ میجر دانش نے آج اپنی بیوی کو ان کھلی کلی سے کھلا ہوا گلاب بنا دیا تھا اور عفت بھی لن کے مزے سے پہلی بار آشنا ہوئی تھی۔ دونوں ابھی تک ایکدوسرے کے جسم کی گرم حاصل کر رہے تھے اور وقفے وقفے سے ایک دوسرے کو چوم بھی رہے تھے۔
اسی چوما چاٹی کے دوران دانش کے لن نے ایک بار پھر اپنا سر اٹھانا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے 2 انچ کی للی سے وہ 8 انچ کا لمبا اور موٹا تازہ لن بن گیا۔ عفت لن کو اس طرح لمبا ہوتے ہوئے بہت حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ عفت سمجھ گئی تھی کہ اسکے شوہر کا ابھی دل نہیں بھرا اور وہ ایک اور چدائی کا راونڈ لگا کر اپنی پیاس بجھانا چاہتا ہے۔ گوکہ عفت بہت بری طرح تھک چکی تھی اور اسکی چوت آج کی پہلی چدائی کے بعد مزید لن لینے کی متحمل نہیں تھی مگر پھر بھی اسنے شوہر کو انکار کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اچھی بیوی وہی ہوتی ہے جو مرد کے لن کے لیے اپنی پھدی کو ہر وقت تیار رکھے۔ یہی عفت نے بھی کیا اور بغیر کوئی نخرہ دکھائے دوبارہ سے چدنے کے لیے تیار ہوگئی۔
دانش ایک بار پھر اپنی بیوی کی ٹانگیں کھولیں اپنا لن ہاتھ میں پکڑے عفت کی پھدی مارنے کے لیے تیار بیٹھا تھا کہ اتنے میں ساتھ پڑے دراز میں موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔ میجر دانش نے سب کچھ بھلا کر آگے بڑھ کر موبائل اٹھانا چاہا تو عفت نے منع کر دیا اور کہا کم سے کم آج کی رات تو موبائل کو چھوڑ دو۔ مگر میجر دانش نے کہا کہ اسکا اپنا پرسنل موبائل آف ہے، یہ خاص موبائل ہے جس پر اسکی خفیہ ایجنسی کی طرف سے انتہائی ضروری کام کے لیے ہی کال آتی ہے وہ اس کال کو ریجیکٹ نہیں کر سکتا۔ یہ کہ کر اسنے کال اٹینڈ کی تو آگے سے فون پر اسکو فوران ڈیوٹی پر آنے کا کہا گیا۔ دشمن ملک کا ایک ایجینٹ پاکستان کے کچھ خفیہ راز چرا کر واپس اپنے ملک بھاگنے کی تیاری کر رہا تھا اور کراچی میں اس وقت میجر دانش سے زیادہ ہونہار خفیہ ایجینٹ موجود نہیں تھا۔ اس لیے آئی ایس آئی نے میجر دانش کی سہاگ رات کا خیال کیے بنا ہی اسکو کال کر کے واپس ڈیوٹی پر بلایا۔
میجر دانش جس میں وطن کی محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اس نے بھی بغیر کچھ اور کہے اپنی گرم اور جوان بیوی کی چکنی چوت کو چھوڑا اور فورا ہی اپنی الماری سے عام کپڑے نکال کر بیوی کے سر پر بوسہ دیکر کمرے سے نکل گیا۔ عفت حیران اور پھٹی ہوئی نظروں سے میجر دانش کو دیکھ رہی تھی کہ کیسے اچانک ہی سہاگ رات پر جب وہ اپنا لن عفت کی چوت میں ڈالنے ہی والا تھا، دانش سب کچھ بھول کر اپنا فرض ادا کرنے نکلنے گیا تھا۔ میجر دانش نے اپنی کالے رنگ کی کرولا گاڑی سٹارٹ کی اور گھر سے نکل کھڑا ہوا۔
جاری ہے۔
Comments
Post a Comment