وطن کا سپاہی Part 5



عفت قریب ہوئی تو دانش نے اپنے ہونٹوں سے عفت کے نرم و نازک ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ عفت کو 440 وولٹ کا جھٹکا لگا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ جب کوئی مرد عورت کے ہونٹوں کو چومتا ہے تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔ آج پہلی بار اسکے ہونٹوں پر دانش کے ہونٹ لگے تو وہ اس احساس سے آشنا ہوئی۔ عفت نے بھی جواب میں دانش کے ہونٹوں کو چوما اور پھر دونوں ایکدوسرے کے ہونٹ چوسنا شروع ہوگئے۔ عفت کے ہونٹ کسی گلاب کی پنکھڑی کی طرح نرم و نازک اور رسیلے تھے۔ دانش یہ رس اپنے ہونٹوں سے مسلسل چوس رہا تھا۔ اسی دوران عفت میں اپنے دوپٹے میں لگی سیفٹی پنز کو کھولنا شروع کیا اور کچھ ہی دیر میں بھاری دوپٹہ اسکے سر سے اتر چکا تھا۔ دوپٹہ اترتے ہی عفت کو اپنا آپ بہت ہلکا پھلکا محسوس ہونے لگا اور وہ اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ دانش کی بانہوں میں اسکے ہونٹوں کو چوسنے لگی۔ دانش تھوڑی تھوڑی دیر بعد عفت کے اوپری ہونٹ کو اپنے منہ میں لیتا اور اسکو اچھی طرح چوستا اور پھر نیچے والے ہونٹ کو اپنے منہ میں لیکر چوستا۔ عفت کو یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اسکی زندگی میں یہ سب پہلی بار ہورہا تھا مگر وہ پوری طرح اسکی لزت سے لطف اندوز ہوری تھی۔


دانش نے اپنی زبان عفت کے ہونٹوں پر پھیرنا شروع کی تو وہ سمجھ گئی اور اپنے ہونٹوں کو کھول کر دانش کو اندر کا راستہ دکھایا۔ جیسے ہی عفت نے اپنے ہونٹوں کو کھول کر دانش کو راستہ دیا دانش کی زبان عفت کے منہ میں چلی گئی اور عفت کی زبان کے ساتھ کھیلنے لگی۔ عفت نے بھی دانش کا مکمل ساتھ دیا اور اپنے منہ میں اسکی زبان کو چوسنے لگی۔ عفت کے نرم و نازک ہونٹ جب اور گرم زبان جب دانش کی زبان کو چوس رہی تھی تو اسی دوران دانش کو اپنے انڈر وئیر میں ہلچل محسوس ہونے لگی۔ اور دانش کے ہاتھ خود بخود عفت کی کمر سے ہوتے ہوئے اسکو چوتڑوں تک جا پہنچے۔ گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑ ہاتھ میں پکڑتے ہی دانش نے انکو زور سے دبا دیا اور عفت نے کے منہ سے ایک سسکی نکلی آووچ ۔ ۔ ۔ اب دونوں ایک دوسرے کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرینچ کس کرنے لگے اور ساتھ ساتھ دانش کے ہاتھ عفت کے 32" کے چوتڑوں کا مساج کرنے لگے۔ عفت کو بھی اپنی پینٹی میں گیلا پن محسوس ہونے لگا۔


کچھ دیر عفت کے ہونٹوں کا رس چوسنے کے بعد اب دانش نے اپنے ہونٹوں کا رخ عفت کی گردن کی طرف کر دیا، جیسے ہی عفت کی گردن پر دانش کے ہونٹ لگے عفت تڑپ اٹھی۔ اسنے اپنا ہاتھ دانش کی گردن پر رکھ کر اسکو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا اور دانش عفت کے اوپر جھک کر اسکی گردن پر زبان پھیرنے لگ گیا۔ دانش کبھی عفت کی گردن پر زبان پھیرتا تو کبھی اپنے ہونٹوں سے چوستا۔ جب دانش اپنے دانتوں سے عفت کی گردن کو ہلکا سا دباتا تو شدتِ جذبات سے عفت کی سسکی نکلتی جسکو دانش بہت انجوائے کرتا۔ گردن سے ہوتے ہوئے اب دانش کی زبان عفت کی کلیویج لائن کو چوسنے لگی۔


عفت کے بلاوز کی فٹنگ بہت زبردست تھی جو اسنے سپیشل تیار کروایا تھا۔ وہ اپنے شوہر کو اپنے حسن سے مکمل طور پر مزہ دینا چاہتی تھی۔ فٹنگ والے بلاوز میں عفت کے سینے کے ابھار بہت ہی خوبصورت کلیویج لائن بنا رہے تھے جو کسی بھی مرد کو پاگل کردینے کے لیے کافی تھی۔ ۔ دانش نے اب عفت کو بیڈ پر لٹا دیا تھا اور خود اسکے ساتھ لیٹ کر عفت کے اوپر جھک کر اسکے سینے پر پیار کر رہا تھا۔ دانش کا ایک ہاتھ عفت کی گردن کے نیچے سے نکلتا ہوا اسکے کندھے پر پیار کر رہا تھا اور دوسرا ہاتھ عفت کی بائیں ٹانگ کی تھائی پر مساج کر رہا تھا۔ اور عفت اپنا سر پیچھے کی طرف کھینچ کر ہلکی ہلکی سسکیاں لے رہی تھی۔


دانش کا ہاتھ اب عفت کی تھائی سے ہوتا ہوا اسکے بائیں ممے کے اوپر آگیا تھا۔ عفت کی سانسیں تیز تیز چلنے کی وجہ سے اسکے سینے کے ابھار یعنی کے اسکے ممے بھی اوپر نیچے ہورہے تھے۔ دانش نے بہت پیار سے عفت کا بایاں مما اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اسکو دبانے لگا۔ دانش کی زبان اب بھی عفت کی کلیویج لائن کو چوسنے میں مصروف تھی۔ کچھ دیر اسی حالت میں عفت کو پیار کرنے کے بعد دانش نے عفت اپنی جانب کروٹ دلوائی اور اسکی کمر پر موجود بلاوز کی زپ مکمل کھول دی۔ اب میجر دانش اپنے مضبوط ہاتھ کے ساتھ عفت کی نرم و نازک کمر کا مساج کر رہا تھا۔ سنگ مرمر کی طرح ملائم کمر کا مساج کرتے ہوئے دانش اپنے آپکو دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان تصور کر رہا تھا۔ 32 سال کی عمر میں 20 سالہ خوبصورت گرم جوانی کا مل جانا یقینی طور پر خوش قسمتی ہی ہو سکتی ہے۔ اور جوانی بھی ایسی جسکو آج تک کسی نے چھوا تک نہ ہو۔


کچھ دیر بعد میجر دانش نے عفت کا بلاوز اتارا تو نیچے گورے جسم پر سرخ رنگ کا برا عفت کے مموں کو چھپانے کا اہم کردار ادا کر رہا تھا۔ عفت کا لہنگا اسکے ناف سے کافی نیچے تھا لہنگے سے اوپر عفت کا گورا جسم شروع ہوتا نظر آرہا تھا جو بہت ہی صاف شفاف اور ہر قسم کے داغ سے پاک تھا۔ دانش نے اپنے ہونٹ عفت کی ناف پر رکھ دیے اور اسے چومنے لگا۔ اس عمل سے عفت کو ایک عجیب سرور مل رہا تھا جو اس نے پہلے کبھی نہ محسوس کیا اور نہ ہی اسکے بارے میں کبھی سوچا تھا۔ دانش نے اپنے دونوں ہاتھوں سے عفت کے ممے پکڑ رکھے تھے جو سرخ رنگ کے برا میں قید تھے اور وہ اپنی زبان اور ہونٹ عفت کی ناف میں گھما رہا تھا۔ عفت نے اپنے نازک مہندی والے ہاتھوں سے دانش کو سر سے پکڑ رکھا تھا اور مزے کی شدت سے اف، آوچ اوئی کی آوازیں نکال رہی تھی۔ اب دانش نے عفت کی ناف کو چھوڑ کو اپنی زبان کو اپر کی طرف پھیرنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ عفت کے مموں سے ہوتا ہوا دوبارہ اسکی کلیویج لائن میں اپنی زبان پھرینے لگا۔ عفت کے ہاتھ اب دانش کی کمر پر تھے اور وہ اپنے ہاتھوں سے دانش کی کمر کو جکڑے ہوئے تھی کچھ دیر کلیویج لائن کے ساتھ کھیلنے کے بعد دانش ایک بار پھر سے اپنی زبان کو نیچے کی طرف لایا اور ناف سے ہوتا ہوا اس سے بھی نیچے تک آگیا جہاں سے عفت کا لہنگا شروع ہوتا تھا۔


دانش نے عفت کے لہنگے سے اسکی ہُک کو کھولا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسکا لہنگا بھی اتار دیا۔ اب عفت محض سرخ رنگ کے برا اور سرخ رنگ کی ہی پینٹی میں دانش کے سامنے لیٹی تھی۔ عفت کی آنکھوں میں اب لال ڈورے واضح نظر آرہے تھے جو اسکی سیکس کی خواہش کو واضح کر رہے تھے۔ دانش اب عفت کی گوری چٹی ٹانگوں پر پیار کرنے لگا۔ عفت کی ٹانگیں بالوں سے بالکل پاک تھیں۔ عفت نے اپنے شوہر کے ساتھ سہاگ رات منانے کی سپیشل تیاری کر رکھی تھی اسی لیے اس نے آج ہی اپنی ٹانگوں کی ویکس کی تھی اور سارے فالتو بال صاف کر دیے تھے۔ نرم و ملائم ریشمی ٹانگوں پر دانش کبھی اپنے ہاتھ پھیرتا تو کبھی اپنی زبان سے یہ گوری گوری ٹانگیں چاٹنے لگتا۔ دانش نے ابھی تک اپنا ہاتھ عفت کی پینٹی کو نہیں لگایا تھا۔ بلکہ اس نے اپنے ہاتھوں کو اور زبان کو عفت کی پینٹی سے دور ہی رکھا تھا۔ مگر پھر بھی دانش کو عفت کی سرخ پینٹی میں درمیان کے حصے میں گیلا پن نظر آرہا تھا ۔


کچھ دیر عفت کی ٹانگوں پر اپنی زبان پھیرنے کے بعد جب دانش کا لن اسکو زیادہ ہی تنگ کرنے لگا تو اس نے عفت کو چھوڑ کر پہلے اپنا کرتا اتارا اور اسکے بعد شیروانی کے ساتھ والا پاجامہ بھی اتار دیا۔ عفت اس بار بالکل بھی نہیں شرمائی اور بجائے شرم سے آنکھیں بند کرنے کو وہ اپنے شوہر کے جسم کو بہت پیار اور جنسی طلب کی شدت کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔ دانش عفت کے سامنے محض سفید رنگ کے انڈر وئیر اور سفید ہی رنگ کی بنیان میں تھا۔ اسکا جسم بھی بہت خوبصورت اور ورزشی تھا۔ آخر ایک آرمی کا جوان تھا وہ جسکی آدھی زندگی مختلف قسم کی ٹرینینگ اور ورزش وغیرہ میں ہی گزری تھی۔ دانش بیڈ پر بیٹھا تھا ، عفت جو لیٹی ہوئی تھی دانش کے جسم کو دیکھ کر اٹھی اور خود ہی دانش کے قریب ہوتی ہوئی۔ سرخ برا اور پینٹی میں عفت کسی قیامت سے کم نہیں لگ رہی تھی۔

Comments

Popular posts from this blog

سچی کہانی۔۔ قسط نمبر 1

"*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 3

*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 4