وطن کا سپاہی Part 4
اپنی گردن کو ادھر ادھر گھما کر دیکھا تو وہ ایک خالی کمر تھا جس میں میجر دانش کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں تھا ۔ میجر دانش نے ایک جست میں اٹھنے کی کوشش کی مگر اسے بری طرح ناکامی ہوئی۔ اسکے ہاتھ اور ٹانگیں کسی بہت ہی مضبوط شے سے بندھے ہوئے تھے۔ یہ شاید نائلون کی رسی تھی۔
میجر دانش کو فوری طور پر احساس ہوگیا کہ وہ کرنل وشال کے سامنے بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ اور اس وقت یقینا اسی کی قید میں ہوگا۔ اگلا خیال جو اسکے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ کرنل وشال اسے بے ہوشی کی حالت میں دشمن ملک ہندوستان ہی لے آیا ہوگا۔ اور اب میجر دانش دشمن ملک کی قید میں ہے۔ یہ احساس ہوتے ہی میجر دانش کے اوسان خطا ہونے لگے اور اسکی سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں ختم ہونے لگیں۔ میجر دانش نے ہمیشہ یہ دعا مانگی تھی کہ دشمن کی قید میں جانے سے بہتر شہید ہونا ہے۔ مگر اسکے برعکس میجر دانش اس وقت دشمن کی قید میں تھا۔
اوسان بحال ہونے پر میجر دانش نے پھر سے اٹھنے کی کوشش کی اور تھوڑی سی کوشش کے بعد وہ اب اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔ گوکہ اسکی ٹانگیں اور ہاتھ اب بھی بندھے ہوئے تھے جنکو کسی بھی طور پر کھولنا ممکن نہ تھا۔ نائلون کی رسی اسکے ہاتھوں پر بہت مضبوطی سے بندھی ہوئی تھی جس پر اگر وہ زور آزمائی کی کوشش کرتا تو وہ رسیاں اسکی جلد کے اندر دھنس جاتیں۔ وہ جانتا تھا کہ زور آزمائی کے زریعے اس رسی سے اپنے آپ کو آزاد کرنا ممکن نہیں۔
اب وہ کمرے میں ساکت بیٹھا آس پاس کا جائزہ لے رہا تھا۔ یہ کمرہ مکمل طور پر خالی تھا۔ کمرے میں کوئی لائٹ نہیں تھی صرف ایک سائیڈ پر دیوار میں موجود روشندان سے ہلکی ہلکی روشنی اندر آرہی تھی۔ سامنے ایک بڑا سا لوہے کا مضبوط دروازہ تھا جو یقینا کسی محفوظ ترین کمرے میں ہی ہوسکتا ہے۔ عام گھروں میں یا دفاتر میں اس طرح کے دروازے موجود نہیں ہوتے۔ محض 2 منٹ کے جائزے میں ہی میجر دانش کو احساس ہوگیا کہ یہاں سے اسکا بچ کر نکلنا ممکن نہیں۔
وہ اب سر جھکائے بیتے ہوئے لمحوں کہ یاد کر رہا تھا۔ اسکا گھر سے نکل کر گاڑی میں ہنڈا اکارڈ کا پیچھا کرنا وہاں سے پھر بھاگتے ہوئے بندرگاہ تک پہنچ کر گندے پانی میں پائپ کے ذریعے سانس لینا پھر جہاز چینج کرنا اور وہاں سے کرن وشال سے آمنا سامنا ہونا۔ یہ سب چیزیں اسکے ذہن میں ایک فلم کی طرح چل رہی تھیں۔ اسی فلم میں اچانک ہی میجر دانش کو ایک اور چہرہ یاد آیا۔ یہ چہرہ کسی اور کا نہیں بلکہ اسکی اپنی نئی نویلی دلہن عفت کا چہرہ تھا۔ عفت کا خیال ذہن میں آتے ہی ایک جھماکا ہوا اور میجر دانش کو یاد آیا کہ ابھی ایک دن پہلے ہی تو اسکی شادی ہوئی تھی۔
میجر دانش میرون کلر کی شیروانی میں قیامت ڈھا رہا تھا۔ آج میجر دانش کی شادی کی پہلی رات تھی۔ اسکی بیوی عفت اپنے کمرے میں موجود دلہن بنی بیٹھی اپنے دلہا کا انتظار کر رہی تھی جبکہ باہر کمرے کے سامنے میجر دانش کی بہنیں اسکا راستہ روک کر کھڑی تھیں۔ فوزیہ جسکی عمر25 سال تھی اور پنکی جو ابھی 21 سال کی تھی دونوں ہی اپنے بھائی کا راستہ روک کر کھڑی تھیں۔ ساتھ میں کچھ کزنز اور بھی تھیں جو دولہے میں کو اپنی نئی نویلی دلہن کے پاس جانے سے روک رہی تھیں۔ میجر دانش نے جیب سے ہزار ہزار کے 10 نوٹ نکالے اور پنکی کی طرف بڑھائے وہ جانتا تھا کہ فوزیہ 10 ہزار میں نہیں مانے گی مگر پنکی چھوٹی ہے شاید وہ مان جائے گی۔ مگر اس سے پہلے کہ پنکی وہ پیسے پکڑتی اور دانش کو اندر جانے کا راستہ دیتی فوزیہ نے فورا ہی دانش کا ہاتھ جھٹک دیا اور بولی ہم تو اپنے پیارے بھائی سے سونے کا سیٹ لیں گی پھر اندر جانے کی اجازت ملے گی۔ یہ سن کر میجر دانش نے اپنی امی کی طرف دیکھا مگر وہ بھی آج اپنی بیٹیوں کا ساتھ دینے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ انہوں نے بھی کہ دیا کہ تم بہن بھائیوں کا آپس کا معاملہ ہے میں اس معاملے میں کچھ نہیں بول سکتی۔
میجر دانش نے بہت کہا کہ سونے کا سیٹ تم عمیر سے لے لو میرے پاس یہی پیسے ہیں مگر نا تو فوزیہ مانی اور نہ ہی پنکی۔ بال آخر میجر دانش کو ہار ماننی پڑی اور اسنے بری میں بنائی گئی سونے کی چین جو اسکی بیوی عفت کے لیے بنائی گئی تھی وہ فوزیہ کو دی اور پنکی سے وعدہ کیا کہ اسکو بھی ایک اچھی سونے کی چین دلوائی جائے گی۔ اس وعدے کے بعد دونوں بہنوں نے دانش کی جان چھوڑی اور عمیر کی طرف بھاگیں۔ عمیر میجر دانش کا چھوٹا بھائی تھا جسکی عمر 27 سال تھی اور اسکی بھی آج ہی شادی ہوئی تھی۔ اب راستہ روکنے کی باری اسکی تھی اور دونوں بہنیں فوزیہ اور پنکی عمیر کرا راستہ روکے کھڑی تھیں۔ جسکا کمرہ میجر دانش کے کمرے کے ساتھ ہی تھا۔ لیکن دانش کے پاس اب اتنا صبر نہیں تھا کہ وہ دیکھتا عمیر سے بہنوں نے کیا لیا اسنے دروازہ کھولا اور اندر جا کر سکھ کا سانس لیا۔
سامنے بیڈ پر گلاب کے سرخ اور سفید پھولوں کی سیج بنی ہوئی تھی۔ بیڈ کے ایک طرف سرک پتیاں بکھری پڑی تھیں۔ پورا کمرہ گلاب کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ اور سامنے ہی سرخ عروسی جوڑے میں ملبوس 20 سالہ عفت سمٹی بیٹھی تھی۔ یوں تو میجر دانش اور عفت کی عمر میں 12 سال کا فرق تھا مگر دونوں ہی اس شادی سے بہت خوش تھے۔ عفت نے جب سے دانش کو دیکھا تھا وہ تو اسکی دیوانی ہوگئی تھی، اس دیوانگی نے عمر کا یہ بڑا فرق بھی مٹا دیا تھا اور وہ صرف دانش کی ہی ہوکر رہ گئی تھی۔ عفت نے اپنے نام کی لاج بھی رکھی تھی۔ وہ ہر طرح کی غیر اخلاقی چیزوں سے دور رہی اور اس نے اپنی عزت کی حفاظت بھی کی۔ اپنی جوانی پر اسنے کسی غیر مرد کا سایہ تک نہیں پڑنے دیا تھا۔ عفت ایک آزاد خیال اور ماڈرن لڑکی ضرور تھی مگر اسکے ساتھ ساتھ شرم و حیا اور پاکدامنی میں بھی اپنی مثال آپ تھی۔ اگرچہ وہ غیر مردوں سے پردہ نہیں کرتی تھی مگر کبھی کسی غیر مرد کو اسنے اپنے قریب بھی نہیں آنے دیا تھا۔ گوری رنگت اور بھرپور جوانی کے باوجود عفت نے اپنی عفت کو قائم رکھا تھا اور میجر دانش کو بھی عفت کی پاکدامنی اور حسنِ اخلاق نے متاثر کیا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ میجر دانش عفت کو اپنی شریکِ حیات بنانے کے لیے خوشی خوشی راضی ہوگیا تھا۔ کمرے میں داخل ہوکر سب سے پہلے دانش نے اپنی شیروانی اتاری۔ مسلسل 4 گھنٹے سے دانش اس ہیوی شیروانی میں بڑی مشکل سے گزارہ کر رہا تھا۔ وہ اپنی شادی کے لیے پینٹ کوٹ سلوانا چاہتا تھا مگر عفت کی فرمائش پر اس نے شیروانی سلوائی۔ دانش اس طرح کے لباس کا بالکل عادی نہ تھا۔ مجض اپنی ہونے والی بیوی کے کہنے پر اس نے 4 گھنٹے سے شیروانی زیب تن کر رکھی تھی۔ شیروانی اتار کر ایک سائیڈ پر رکھنے کے بعد وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا سیج کے قریب پہنچا ، جہاں سمٹی ہوئی عفت شرم کے مارے اور بھی سمٹ گئی تھی۔ میجر دانش کرتے اور پاجامے میں ملبوس اپنی بیوی کے سامنے بیٹھ گیا تو عفت نے گھونگٹ میں سے ہی آنکھیں اٹھا کر دانش کا دیدار کیا۔ سرخ دوپٹے میں سے دانش کامدھم مگر مسکراتا ہوا چہرہ نظر آیا۔ دانش کے چہرے پر نظر پڑتے ہی عفت کے چہرے سرخی آگئی اور اسنے دوبارہ اپنی نظریں جھکا لیں۔ دانش نے بھی اپنی دلہن کا یہ انداز دیکھا تو بے اختیار اس پر پیار آگیا، دانش نے آہستگی کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھوں سے عفت کا گھونگٹ اوپر اٹھایا۔ ۔ ۔ گھونگٹ اٹھاتے ہی بے اختیار دانش کے منہ سے اپنی بیوی کے حسن میں تعریفی کلمات نکلنا شروع ہوئے جنہیں سن کر عفت کے چہرے کا رنگ انار کے رس کی طرح سرخ ہونے لگا۔ شرم کے مارے وہ نا تو اپنی آنکھیں اوپر اٹھارہی تھی اور نہ ہی کچھ بول پا رہی تھی۔
دانش نے اپنی ایک انگلی سے عفت کا چہرہ اوپر اٹھایا تو بھی عفت کی آنکھیں جھکی رہیں۔ اس پر دانش نے بے اختیار کہا اب ہم اتنے بھی برے نہیں جو آپ ہماری طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کریں۔ یہ سنتے ہی بے اختیار عفت نے اپنی آنکھیں اٹھائیں اور دانش کو دیکھنے لگی۔ بڑی بڑی آنکھوں میں موجود خوشی واضح نظر آرہی تھی۔ اور انمیں چھپا دانش کے لیے پیار بھی اب واضح ہوگیا تھا۔ دانش بے اختیار آگے بڑھا اور ان حسین آنکھوں پر ایک بوسہ دے دیا۔ عفت نے دانش کو بالکل منع نہیں کیا محض اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ دانش نے اپنے ہونٹ کچھ دیر آنکھوں پر رکھنے کے بعد اٹھائے دوبارہ سے حسن کے اس پیکر کو دیکھنے لگا۔ عفت کا چہرہ اب بھی خوشی اور پیار کے ملے جلے تاثرات کی وجہ سے سرخ ہورہا تھا۔ اور اسکی تیز تیز سانسیں اسکے جزبات کی عکاسی کر رہی تھیں۔
اس سے پہلے کے میجر دانش دوبارہ حسن کے اس مجسمے کا بوسہ لیتا، عفت نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اپنی خوبصورت اور نازک ہتھیلی دانش کے سامنے پھیلا دی۔ دانش نے حیران ہوکر عفت کے ہاتھ کو دیکھا اور پھر عفت کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد عفت نے پہلی بار اپنے ہونٹ کھولے۔ عفت نے بہت ہی پیار بھری آواز میں دانش کو مخاطب کیا اور بولی ہر شوہر اپنی بیوی کا چہرہ پہلی بار دیکھنے کے بعد اسے منہ دکھائی میں کچھ دیتا ہے۔ آپ تو میرا بوسہ بھی لے چکے مگر منہ دکھائی میں کچھ نہیں دیا۔ یہ سن کر دانش کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ شرمندہ ہو کر بولا کہ بس تمہاری خوبصورتی نے مجھے مدہوش کر دیا اور مجھے کچھ یاد ہی نہیں رہا۔ اپنے حسن کی تعریف میں یہ چند معمولی جملے عفت کے لیے بہت بڑا تحفہ تھے۔ انکو سن کر عفت کو لگا جیسے اسکی زندگی مکمل ہوگئی ہو اور اسے زندگی میں دانش کے ساتھ کے سوا اور کچھ نہیں چاہیے۔
اس سے پہلے کے عفت کچھ بولتی، دانش آگے جھکا ، اور بیڈ کے سائیڈ پر پڑے ٹیبل کا دراز کھول کر اس میں سے ایک چھوٹی سی ڈبیا نکالی جسمیں ایک سونے کی چین موجود تھی۔ اس چین میں ایک چھوٹا سا مگر بہت ہی خوبصورت لاکٹ بھی موجود تھا جو دل کی شکل کا تھا۔ میجر دانش نے وہ چین عفت کی طرف بڑھائی تو عفت نے اٹھلاتے ہوئے کہا خود پہنائیں گے تو تحفے کی قدر کا پتا چلے گا۔ یہ سن کر دانش مسکرایا اور اپنے چین کی ہک کھول کر ہاتھ عفت کی گردن کی طرف لیکر گیا۔ عفت نے دانش کو رکنے کا اشارہ کیا اور اپنا بڑا سا دوپٹہ کندھوں سے ہٹا کر اپنا بھاری بھر کم سونے کا سیٹ اپنے گلے سے اتارنے لگی۔ سیٹ اتارتے ہوئے دانش بڑے ہی غور کے ساتھ اپنی شریکِ حیات کو دیکھ رہا تھا، دانش کی نظر جب عفت کے سینے پر پڑی تو وہ اپنی آنکھیں جھپکانا ہی بھول گیا۔ عفت کی صراحی دار لمبی گردن اورگورا سینہ، نیچے سینے کے ابھار اور بیچ میں کلیویج لائن۔ عفت کے چہرے کے نین نقش تو پیارے تھے ہی مگر آج دانش اسکے سینے کے نشیب و فراز دیکھ کر سانس لینا ہی بھول گیا تھا۔
عفت جب اپنے گلے سے زیور اتار چکی تو اس نے دوپٹہ مزید پیچھے ہٹایا اور دانش کی طرف دیکھا جسکی نظریں عفت کے سینے پر گڑھی ہوئی تھیں۔ عفت نے بھی اس بات کو محسوس کر لیا اور اسکا سینا فخر سے اور پھولنے لگا۔ پھر اسنے دانش کے سامنے ایک چٹکی بجائی اور ایک ادا سے بولی کیا دیکھ رہے ہیں جناب؟؟ دانش کو ہوش آیا اور وہ اپنی چوری پکڑی جانے پر تھوڑا شرمندہ بھی ہوا مگر پھر بولا اپنی قسمت کو داد دے رہا ہوں، ایسی خوبصورت اور جوانی سے بھرپور بیوی کا ساتھ خوش نصیب لوگوں کو ہی ملتا ہے۔ یہ کہ کر وہ آگے بڑھا اور اپنے ہاتھ عفت کی گردن کے پیچھے لے گیا۔ اس نے پیچھے سے چین کی ہُک بند کی۔ اور پھر پیچھے ہٹ کر عفت کے گلے میں موجود منہ دکھائی میں دی گئی چین کو دیکھنے لگا۔ چین میں لٹکتا ہوا لاکٹ عفت کی کلیویج لائن سے کچھ اوپر تھا، دانش نے لاکٹ کو دیکھا اور آگے بڑھ کر اپنے ہونٹ لاکٹ والی جگہ پر رکھ کر ایک پیار بھرا بوسہ دیا۔ عفت کو دانش کے ہونٹ اپنے سینے پر محسوس ہوئے تو اسکی بھی ایک سسکی نکل گئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مرد کے ہونٹوں نے عفت کے سینے پر پیار بھرا بوسہ دیا تھا۔
دانش نے یہیں بس نہی کی بلکہ آگے بڑھ کر عفت کی کمر کے گرد اپنے بازو ڈال لیے، عفت بھی ادائے دلربا سے اٹھی اور اپنے شوہر کے قریب ہوگئی۔ عفت نے کبھی کسی مرد کو اپنے قریب نہیں آنے دیا تھا مگر وہ اپنے جیون ساتھی اپنے شوہر سے کسی بھی قسم کی شرم محسوس نہیں کر رہی تھی۔ صنفِ نازک کی ادا اور فطری شرم تو اسمیں موجود تھی ہی مگر بناوٹی شرم اور اپنے شوہر سے ہچکچانا یہ عفت کی فطرت میں شامل نہیں تھا۔ وہ جانتی تھی کہ جنسی تسکین نہ صرف اسکا حق ہے بلکہ اسکے شوہر کا بھی حق ہے۔ اور دونوں ایکدوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے تو مکمل تسکین حاصل کی جاسکتی ہے۔
عفت قریب ہوئی تو دانش نے اپنے ہونٹوں سے عفت کے نرم و نازک ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ عفت کو 440 وولٹ کا جھٹکا لگا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ جب کوئی مرد عورت کے ہونٹوں کو چومتا ہے تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔ آج پہلی بار اسکے ہونٹوں پر دانش کے ہونٹ لگے تو وہ اس احساس سے آشنا ہوئی۔ عفت نے بھی جواب میں دانش کے ہونٹوں کو چوما اور پھر دونوں ایکدوسرے کے ہونٹ چوسنا شروع ہوگئے۔ عفت کے ہونٹ کسی گلاب کی پنکھڑی کی طرح نرم و نازک اور رسیلے تھے۔ دانش یہ رس اپنے ہونٹوں سے مسلسل چوس رہا تھا۔ اسی دوران عفت میں اپنے دوپٹے میں لگی سیفٹی پنز کو کھولنا شروع کیا اور کچھ ہی دیر میں بھاری دوپٹہ اسکے سر سے اتر چکا تھا۔ دوپٹہ اترتے ہی عفت کو اپنا آپ بہت ہلکا پھلکا محسوس ہونے لگا اور وہ اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ دانش کی بانہوں میں اسکے ہونٹوں کو چوسنے لگی۔ دانش تھوڑی تھوڑی دیر بعد عفت کے اوپری ہونٹ کو اپنے منہ میں لیتا اور اسکو اچھی طرح چوستا اور پھر نیچے والے ہونٹ کو اپنے منہ میں لیکر چوستا۔ عفت کو یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اسکی زندگی میں یہ سب پہلی بار ہورہا تھا مگر وہ پوری طرح اسکی لزت سے لطف اندوز ہوری تھی۔
Comments
Post a Comment