وطن کا سپاہی Part 10
میجر دانش کے گھر سے نکلنے کا عفت کے سوا اور کسی کو معلوم نہ ہوا۔۔ البتہ عفت دانش کے کمرے سے نکلتے ہی فورا اپنے کپڑے پہن کر دانش کو روکنے کے لیے باہر نکلی مگر جیسے ہی وہ گھر کے گیٹ پر پہنچی چوکیدار دروازہ بند کر رہا تھا اور دور میجر دانش کی گاڑی کی بیک لائٹس نظر آرہی تھیں۔ عفت کو دیکھ کر چوکیدار بولا سلام بی بی جی۔--- میں شرفو۔۔۔ آپکا چوکیدار۔۔۔ میجر صاحب اکثر رات کو اسی طرح اچانک چلے جاتے ہیں اور اگلی صبح تک واپس آجاتے ہیں۔ آپ بے فکر ہوکر اندر جائیں۔ عفت چوکیدار کی بات سنے بغیر اندر آگئی تھی۔ ابھی وہ اپنے کمرے میں جانے ہی لگی تھی کہ پیچھے سے آواز آئی بیٹا کیا ہوا؟؟ یہ دانش کی امی کی آواز تھی یعنی عفت کی ساس۔ عفت نے ساس کو سامنے دیکھ کر انکو سلام کیا اور بتایا کہ اچانک دانش کو کوئی فون کال آئی اور وہ بنا کچھ بتائے گاڑی لیکر کہیں چلے گئے ہیں۔
میجر دانش کی والدہ نے آگے بڑھ کر اپنی بہو کو پیار کیا اور کہنے لگیں بیٹا تمہیں تو پتا ہی ہے وہ ایک سپاہی ہے اور وطن کے لیے اپنی جان بھی دے سکتا ہے۔ اکثر اسکو ایمرجینسی میں جب بھی بلایا جاتا ہے وہ سب کچھ چھوڑ کر اپنا فرض ادا کرنے چلا جاتا ہے۔ بس تم دعا کرو کہ وہ خیریت سے واپس آجائے۔ اسکے بعد دانش کی والدہ نے ایک بار پھر اپنی نئی نویلی دلہن کا ماتھا چوما اور واپس اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ عفت بھی اپنے کمرے میں جانے ہی لگی تھی کہ اسکو کچھ آوازیں سنائی دیں۔ یہ آوازیں عفت کے ساتھ والے کمرے سے آرہی تھیں۔ عفت نے کان لگا کر سنا تو یہ عمیر کی بیوی نادیہ کی آوازیں تھیں۔ اوئی میں مر گئی، پلیز عمیر آہستہ کریں۔ آہ۔۔۔۔ اف اف اف آہ آہ آہ۔۔۔۔۔ آوچ۔ ۔ ۔ ہائے میں مر گئی۔۔۔ آوازیں سیکس سے بھرپور تھیں اور نادیہ کی ان آوازوں کے ساتھ ساتھ دھپ دھپ کی مخصوص آوازیں بھی آرہی تھیں جن سے عفت سمجھ گئی کہ جس طرح ابھی دانش عفت کی چودائی کر رہا تھا اسی طرح اسکا بھائی عمیر بھی اپنی نئی نویلی دلہن کو چودنے میں مصروف ہے۔
نادیہ کی یہ آوازیں سن کر عفت کو ایک عجیب سا سرور ملا تھا۔ وہ مسکراتی ہوئی اندر کمرے میں آگئی اور دروازہ بند کر کے اپنے کان پھر سے دیوار کے ساتھ لگا دیے۔ اب کی بار اسکو یہ آوازیں اور بھی واضح آرہی تھیں۔ دھپ دھپ کی آوازوں میں کافی تیزی آگئی تھی اور نادیہ اب اف آہ۔۔۔ مزہ آگیا جانو، اور زور سے چودو مجھے، مزہ آرہا ہے، زور زور سے دھکے مارو۔۔۔۔ آہ جانو بہت مزہ آرہا ہے۔۔۔۔۔۔ جیسی آوازیں نکال رہی تھی۔ عفت سمجھ گئی کہ اب نادیہ سیکس کو انجوائے کر رہی ہے جس طرح کچھ دیر پہلے عفت کر رہی تھی۔ پھر اچانک ہی آوازیں آنا بند ہوگئیں۔ عفت نے کچھ دیر مزید انتظار کیا مگر اب دوسری طرف سے کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔
پھر عفت واپس اپنے بستر پر جا کر لیٹنے لگی تو اسکی نظر اس سفید چادر پر پڑی جو اس نے چودائی سے پہلے اپنے نیچے بچھائی تھی۔ اس پر سرخ رنگ کے نشان تھے۔ عفت ان سرخ نشانوں کو دیکھتے ہی اپنی شلوار اتار کر اپنی چوت کو دیکھنے لگی۔ وہاں اب خون کا کوئی نشان نہیں تھا۔ پھر عفت نے وہ چادر اٹھائی اور اٹیچ باتھ روم میں لیجا کر ایک خانے میں رکھ دی اور خود بستر پر آکر لیٹ گئی اور دانش کی سلامتی کی دعائیں مانگنے لگی۔ دعا مانگتے مانگتے نجانے اسکی کب آنکھ لگ گئی۔
صبح 12 بجے کے قریب اسکی آنکھ کھلی تو اسکو گھر میں تھوڑی چہل پہل محسوس ہوئی۔ ابھی وہ بستر سے اٹھ کر بیٹھی ہی تھی کہ اسکے کمرے کا دروازہ ناک ہوا۔ عفت نے فورا اٹھ کر اپنا دوپٹہ لیا اور کمرے کا دروازہ کھولا تو سامنے اسکی ساس کھڑی تھیں۔ انہوں نے عفت کو پیار کیا اور بولیں بیٹا گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں تم تیار ہوکر تھوڑی دیر تک باہر آجاو۔ یہ کہ کر وہ باہر چلی گئیں اور عفت تیار ہونے لگی۔ ایک گھنٹے کے بعد عفت جب اپنے کمرے سے نکلی تو اس نے بلیک کلر کی ساڑھی زیب تن کر رکھی تھی۔ بلاوز کی لمبائی کچھ زیادہ نہ تھی، عفت کی ساڑھی کا بلیک بلاوز ناف یعنی بیلی بٹن سے کچھ اوپر ختم ہو رہا تھا۔ نیچے اسکا پیٹ اور کمر کا کچھ حصہ نظر آرہا تھا اور اسکے نیچے ساڑھی کا نیچے والا حصہ تھا۔ باریک پلو اسکے پیٹ سے ہوتا ہوا سینے کے ابھاروں کو چھوتا ہوا بائیں کندھے کے اوپر سے گھوم کر دائیں بازو پر آرہا تھا۔ اسکے ساتھ ہلکے رنگ کا میک اپ عفت کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہا تھا۔
عفت باہر آئی تو باری باری تمام مہمانوں سے ملی۔ عمیر کی دلہن نادیہ بھی وہیں موجود تھی وہ بھی خاصی تیار ہو کر نکلی تھی۔ عفت نادیہ سے گلے ملنے کے بعد عمیر سے ہاتھ ملا کر ایک صوفے پر بیٹھ گئی جہاں باقی مہمان بھی بیٹھے تھے۔ کچھ نے دانش کے بارے میں معلوم کرنا چاہا تو عفت نے انہیں بتایا کہ وہ کچھ نہیں جانتی انسے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا۔ وہ اپنا موبائل بھی گھر چھوڑ گئے ہیں۔ جبکہ کچھ مہمانوں نے عفت کو تسلی دی کہ بیٹا فکر نہیں کرو وہ جلد ہی آجائے گا۔ سب مہمان باتوں میں مشغول ہوگئے تو عفت وہاں سے اٹھی اور عمیر کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔
بڑی بھابھی کا اشارہ پا کر عمیر عفت کے پیچھے چل پڑا۔ عفت اپنے کمرے میں جا کر بیڈ پر بیٹھ چکی تھی۔ عمیر بھی کمرے میں آیا اور بولا جی بھابھی بتائیں کیا بات ہے؟ عفت روہانسی سی شکل بنا کر بولی عمیر بھائی پلیز کسی طرح دانش کا پتا لگاو وہ کہاں ہیں مجھے بہت فکر ہو رہی ہے انکی۔ عمیر نے بھابھی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا دبایا اور تسلی دیتے ہوئے بولا عفت بھابھی آپ فکر نہ کریں دانش بھائی بالکل خیریت سے ہونگے۔ میں نے صبح ہی انکے آفس سے پتا کیا ہے تو وہاں سے مجھے بتایا گیا کہ انکو ایک سپیشل مشن پر بھیجا گیا ہے جو بہت ضروری تھا۔ انہیں بس ایک شخص کی مخبری کرنی ہے اسکے بعد وہ واپس آجائیں گے۔ یہ سن کر عفت بولی کہ آج آجائیں گے نا وہ واپس؟ رات کو ولیمے کی دعوت بھی ہے۔ ؟؟؟ عمیر بولا کہ بھابھی آج کا تو میں کچھ نہیں کہ سکتا بس انکے آفس سے اتنا ہی پتا لگا ہے کہ وہ جلد آجائیں گے۔ آپ فکر نہ کریں باہر باقی مہمانوں کے ساتھ آکر بیٹھ جائیں آپکا دل لگا رہے گا۔
یہ کہ کر عمیر کمرے سے نکل گیا۔ کچھ ہی دیر بعد عفت نے بھی اپنی بھیگی آنکھوں کو صاف کیا میک اپ کا ایک ٹچ دیکر باہر مہمانوں کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ دانش کی بہنیں فوزیہ اور پنکی بھی وہیں موجود تھیں جبکہ شام تک عفت کی کچھ کالج کی فرینڈز بھی آچکی تھیں۔ کالج کی فرینڈز کو لیکر عفت اپنے کمرے میں آگئی۔ کمرے میں آتے ہی عفت کی دوستوں نے عفت کو گھیر لیا اور اس سے پوچھنے لگی کہ دانش بھائی کے ساتھ رات کیسی گزری؟ جس پر عفت نے تھوڑا شرماتے ہوئے اور تھوڑا اٹھلاتے ہوئے انہیں اپنا منہ دکھائی کا تحفہ بھی دکھایا اور دبے الفاظ میں اپنا کنوارہ پن ختم ہونے کا بھی بتایا۔ عفت کی ایک دوست جو زیادہ ہی منہ پھٹ تھی وہ بولی تجھے بھی فارغ کروایا دانش بھائی نے یا خود ہی 2 منٹ میں فارغ ہوکر سائیڈ پر ہوگئے؟؟ اس پر عفت نے بڑے غرور سے کہا انہیں واپس تو آنے دے تجھے بھی وہ ۵ بار فارغ کروا دیں گے۔ اس پر تمام دوستیں کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔
یونہی وقت گزرتا گیا، دعوتِ ولیمہ کا فنکشن بھی ہوگیا، عفت نے دلہن کی بجائے گھر کی بہو کی حیثیت سے دعوت میں شرکت کی کیونکہ شوہر کے بنا دلہن بن کر ولیمہ کی دعوت میں بیٹھنا کسی طور بھی مناسب نہیں تھا جبکہ عمیر اور اسکی دلہن نادیہ نے دلہا دلن کی حیثیت سے ولیمہ اٹینڈ کیا۔
3 دن گزر چکے تھے مگر دانش کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں چلا تھا۔ فوزیہ اپنے شوہر کے ساتھ واپس اپنے گھر جا چکی تھی جبکہ دانش کی چھوٹی بہن پنکی دانش کی غیر موجودگی میں عفت کے ساتھ ہی اسکے کمرے میں سوتی تھی۔ عفت اور پنکی دونوں رات کو نماز پڑھ کر دانش کی سلامتی کی خصوصی دعائیں مانگتی اور اسکے بعد بستر پر لیٹ کر لمبی لمبی باتیں کرتیں۔ پنکی اپنی عفت بھابھی کو حوصلہ دیتی اور اسے اپنے بھائی کی بہادری کے قصے بھی سناتی۔
Comments
Post a Comment