Laiba Episode 13
میں نے ماہم سے بات کی- اس نے بھی یہ بات کنفرم کر لی – ہمیں کرنا یہ تھا کہ جنید کو کسی طرح یہ فلیٹ لے کر دینا تھا کسی سہیلی کا غریب بھائی بتا کر اور نارمل سے کرایہ ہر مہینے ماہم کی ایک پؑھس ان پڑھ پھپھی کو گاؤں بھیجنے تھے-
اس سے اچھی خبر اور ہو نہیں سکتئ تھی- یہ لگزری فلیٹ ٹاپ فلور پر اکلوتا فلیٹ تھا- اور چھت بھی اس کی تھی- نیچہے ہر فلور پہ دو فلیٹز تھے مگر سب پوش بڑے آدمی کسی کو کسی سے کوئی کنسرن نہیں ویسے ہی ان کی آنکہیں ہر وقت سیل فون پر رھتی تہیں اور کچھ دیکھتے ہی نہیں تھے- میں سوچ ہی رہی تھی کہ عون لینے آگیا-
،،،،،،،،،،
یاسر بھاؤ مر گیا سی تے اے کڑے کل میوزک لا کے پنگڑہ پا ری سی- ایک بڈھی ابو کو میری شکایت کر رہی تھی-
آپ کو تو بہت دکھ ہے ناں ، اتنے بڑے منہ پہ میک اپ کرنے میں مہینہ تو لگ گیا ہو گا- میں نے غصے سے بڈھی کو دیکھا-
لائیبہ--- ابو چلاۓ- معافی ماانگو-
ابو میں تو دکھ میں ناچ رہی تھی- میں نے اتنی معصومیت سے کہا کہ ابو نے منہ پہ ھاتھ رکھ کے زبردستی ہنسی دبا دی-
آ بھائی تسی وی انس رے او- وہ موٹی بولی-
آئندہ نہیں کروں گی وعدہ – تو مر کے دیکھ اگر ناچوں تو زندہ ہوجانا- میں نے بڈھی سے کہا- ابو اٹہے اور میں بھاگ گئی-
ابو بہت دیر تک میرے پیچھےچلتے آۓ وہ صاف دکھ رہا تھا ہنس بھی رہے ہیں-
عون نے مجھے پکر لیا-
مجھے بچاؤ- میں نے عون سے کہا-
کیا ہوا-
ابو آج پہلی بار میری پٹائی کریں گے-
ہیں کیوں؟
ابو –پکڑے رکھ اس شیطان کو- ابو آ گۓ- ھانپتے ہوۓ-
یار اسے کراچی چہوڑ آ- ورنہ یہ میری ایسی کی تیسی کر دے گی-
میں عون کے پیچھےچھپ گئی-
ابع پرسوں ویسے ہی چل رہے ہیں- عون نے کہا-
نہیں میان اور تمہاری امی آجائیں گے اس افت کو لے جاؤ- ابع نے یہ کہتے ہوۓ پیرے سر پہ کس کیا-
اور واپس چلے گۓ-
ویسے ہے مال ہی مال دو تین بری عیدیں نکل جائیں گی- عون بولا اور میں ہنس پڑی-
چل تیار ہو جا- عون نے کہا- اور مجھے ریست ھاؤس لے آیا-
میں نے جلدی جلدی پیکنگ کی- اور عون کے ساتھ باہر آگئی-
ڈھائی گھنٹے میں ہم گاتے بجاتے مذاق کرتےگھر آگۓ-
"""""""""""""
ہم جب پہنچے تو شام کے پانچ بج رہے تھے-میں نے نہا دہو کر جینز اور سلیو لیس بلو شرٹ پہن لی-
میں ابھی ڈرائنگ روم میں بیٹھی ہی تھی کہ ایک اٹھارہ بیس سال کا لڑکا پرانی شلوار قمیض پہنے اہر ادہر دیکھتا ہوا نظر آیا-
اےےےے ادہر- میں نے سیٹی بھی بجائی-
مجھے دیک کر وہ واپس بھاگنے لگا-
رکو- میں نے اتنی تیز کہا کہ بےچارے کو بریک لگ گئی-
کون ہو تم" میں نے پوچھا-
وہ جی وہ جی- وہ ہڑبڑا گیا
وہ جی وہ جی کیا- میں نے پوچھا-
آپ کپرے پہن لو ہم پھر آتا ہے- اس نے سندھی میں اردو بولی-
میں نے اپنا جائزہ لیا- کہیں واقعی ننگی تو نہیں-
ابے گانڈو، میں نے کپڑۓ پہن رکہے ہیں- میں نے غسے سے سے کہا-
ام گانڈو نئی ہے اس نے مڑ کے ھلکے غصے اور ھلکے دکھ سے کہا-
ہو کون تم- ؟
ام غفور کا بیٹا ہے- وہ بولا-
غفور چاچا ہمارے باورچی تھے، بائیس سال سے ، دو ھفتے پہلے بیمار ہوکر تہرپارکر گۓ تھے-
اچھا اچھا- پہلے بولنا تھا ناں- بیٹھ جاؤ-
وہ بابا مر گیا- اس نے دہماکہ کیا- میں واقعی ھل گئی- غفور چاچا سے محبت ہی اتنی ہو گئی تھی انہوں نے مجھے ابو سے زیادہ گود میں اٹھایا تھا-
میری آنکہوں میں آنسو آ گۓ-
کیا کیا ہو ان کو- میں نے پوچھا-
بس رات کو بخار تھا، آذان کے وقت ایک دو الٹی کیا- مٹھی اسپتال لے کر جا رے تھے رستے میں دم دیا-
میرا پہوٹ پہوٹ کر رونے کو دل کر رہا تھا-
تمہارا نام کیا ہے- میں نے پوچھا-
عبدالوحید میڈم- اس نے پھر اردو میں سندھی بولی-
تم کیسے آۓ- میں نے پوچھا-
اس نے کچھ پیسے جیب سے نکالے اور میری طرف بڑھاۓ-
یہ کیا-
ہم جب چھکرے میں ابا کو اسپتال لے کر جا رے تھے اس نے کہا ام انور ساب کو یہ پیسے دیویں ابا نے دو مہینے کا ایڈوانس لیا تھا-
میری آنکہیں اور بہر آئیں- اس زمانے میں بھی ایسے لوگ ہیں-
میں نے پیسے لے لۓ مجھے پتہ تھا ، جتنا بھی واپس دینے کی کوشش کروں نہیں لے گا-
وہ اٹھا – اب ام چلتا اے-گھر اکیلا اے- وہ آنکہیں نیچی کر کے بولا-
تم یہاں کام کیوں نہیں کرتے- میں نے پوچھا-
اماں کے پاس کوئی نئیں میڈم مجھے اس کے پاس جانا ہے-وہ بولا
میں نے بہت سمجھایا کی چھٹیاں ملیں گی، اماں کو لے آؤ یہاں وغیرہ مگر وہ ناں مانا اور چلا گیا-
میں کافی دیر سکتے میں رہی-
آج ایک بات سمجھ آگئی، رشتے مت بناؤ-لوگ مر جاتے ہیں اور تب تک مرتے رھتے ہیں جب تک آپ خود نہیں مرتے-
رہ جاتا ہے دکھ –
مگر اگر چیز فنا ہے ، سب کو مرنا ہے-
یہی ہونا ہے تو دکھ کیسا- میں اگناسٹ ہوں – مجھے یقین ہے مرگۓ قصہ ختم – تو دکھ کیسا-
مزہ کیوں نہ لیں جب تک ہیں-
میرے ہونٹوں کی ہنسی واپس آگئی-
مگر دنیا؟ میرے اندر سے آواز آئی- اور میں گیٹ کے باہر گزرتی ہوئی گاڑیوں، رکشوں، گدھا گاڑیوں، ؐمعٹر سائیکلوں، سائیکلوں اور پیدل انسانوں کو دیکھنے لگی-
دنیا- میں زیرلب مسکرائی- اور ان سب کو بیچ والی انگلی دکھائی-
میں نے نہال اور عمار کو فون کردیا کہ میں واپس آگئی ہوں اگلی صبح اتوار تھا، اور ہم سب نے بنگلو وزٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا-
صبح میں ناشتہ کرنے کے بعد گھر سے نکل پڑی، عون ابھی تک سویا ہوا تھا- میں رکشا لے کر حسن سکوائر پہنچی جہاں باقی سب بھی میرا انتظار کر رہے تھے، منیب اپنی کرولا لایا تھا ، میں پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی- اور منیب نے گاڑی سٹارٹ کر لی-
کیسا رہا حیدرآباد کا ٹؤر- ماہم نے پوچھا-
مت پوچھو یار- بہت بور ہوئی، رونا، دھونا- میں نے جواب دیا-
تم کو رونا آتا ہے- عماد نے ٹوکا-
تم سے اچھا- میں نے چڑ کر جواب دیا-
چلو ٹھیک ہے آئیندہ ہر فوتگی میں تم کو بھیجیں گے- عماد ڈانٹ کھانے کے موڈ میں تھا-
ردالی، ردالی کہتے ہیں، پروفیشنل رونے دھونے والی عورتوں کو- میں نے ڈمپل کپاڈیہ کی مووی دیکھی تھی- نہال بولا-
ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے، بنگلو کے باہر پہنچ گئے، نئے بنگلو تھے، اس والے بنگلو کے ساتھ باقی سب بنگلوز انڈر کنسٹرکشن تھے-
ماہم میرے پاس آئی اور کان میں کہا- بنگلو دیکھ لیتے ہیں ، مگر وہ فلیٹ والی بات ذہن میں رکھنا-
میں نے سر ہلا دیا-
شاہو پہلے سے بنگلے کے اندر موجود تھا- ہمیں دیکھ کر کھڑا ہوگیا اور حسب معمول دانت نکالنے لگا-
ہم نے بنگلو دیکھا، خاص کرکے اوپر والا پورشن، جس میں تین کمرے تھے دو اٹیچ باتھ، ساتھ ہی میں چھوٹا سا کچن، اونچی باؤنڈری وال اور چھوٹا سا صحن جو بہت ہودار تھا-
تمہیں نیچے والا پورشن پسند ھے؟ میں نے شاہو سے پوچھا-
میڈم اپنے لۓ تو جنت ھے-وہ بولا-
ھممم ، سامان وہ لیاری والا نہیں لانا ، کم سے کم لانا، فریج، ٹیوی وغیرہ، بیڈ اور کرسیوں وغیرہ کے لئے ، میں تمہیں پیسے دے دون گی- میں نے شاہو کو ہدایات دیں-
مہں نے ماہم کو راجی کرلیا کہ اکے رشتے داروں کے فلیٹ سے یہ جگہ زیادہ سیف تھی- وہ تھوڑے سے اعتراض کرنے کے بعد مان گئی-
شاہو نے بتایا کہ ایڈانس ایک لاکھ روپے اور کرایہ پچیس ھزار تھا-
ہم لوگوں نے وہیں کچھ مشورے کۓ اور کل تک پیسے شاہو کو دینے کا فیصلہ کیا-
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اگلے روز ہم نے شاہو کو دو لاکھ روپے دۓ، جس میں اڈوانس، اڈوانس کرایہ، اور شاہو کے نیچے والے پورشن کے ڈیکور کے لۓ پیسے-
اس کے علاوہ ہم نے فرج ، ٹی وی- کمپیوٹر، انٹرنیٹ کنیکشن فون کے ساتھ، فلور ٹائلڈ تھا اس لۓ کارپیٹ کی ضرورت نہیں تھی- اور چھوٹی موٹی چیزیں جیسے واش روم ایکسیسریز وغیرہ کے لۓ بھی پیسے جمع کرلۓ-ایک ہفتے تک شاہو نے سب کچھ سیٹل کرلیا اور اپنی فیملی کو بھی لیاری سے لے آیا- اسکی نیوی کے علاوہ چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں- ان میں سے صرف بڑا لڑکا شوکت عرف شوکؑو سکول جاتا تھا، مگر اب سکول لیاری میں ہونے کی وجہ سے اسے بھی جوہر میں کوئی سستا سا سکول ارینج کر دینا تھا-
سکول میں پرانے سٹور میں کچھ دن ہم سیکس کرتے رہے، لیکن جب ہمارا پورشن تیار ہوگیا تو ہم نے یہ سلسلہ بند کرنے کا فیصلہ کرلیا-
اب ایگزامز میں بھی تیس دن رہ گۓ تھے، ھسب معمعول سکول ایڈمن نے ایگزامز پریپریشن کے لۓ سب سٹوڈنٹس کو آپشن دیا کہ وہ گھر پہ تیاری کرنا چھاہیں تو ٹھیک ھے ورنہ ریفریشر کورس سکول میں بھی ہو سکتا ہے-
عماد ہم سب میں ذہین تھا، بہت سے ٹیچرز بھی اس کے سامنے پانی بھرتے تھے، باقی ھم سب بہیت اچھے نہیں تو برے سٹوڈنٹس بھی نہی تھے- عماد نے ذمیداری لے لی- اور ہم سب نے سکول سے چھٹی کرلی-
میں نے ابو ک بتایا کے میں نے سنٹر جوائن کرلیا ھے ، میں نے اور ماہم نے کلفٹن مال سے بہت سے جینز شارٹس، ٹہ شرٹس سلیو لیس اور وتھ سلیوز خرید لیں-
،،،،،،،،،،،،،،،،،
اس دن پورشن پر ہمارا پہلا دن تھا، میں، منیب اور عماد ایک گاڑی میں آۓ اور نہال،جواد اور ماہم دوسری گاڑی میں-
اوپر پہنچ کر پتہ چلا کہ نہال نے اور بھی اچھا دیکوریٹ کر دیا تھا پورشن کو- آٹالین صوفوں کے دو نۓ سیٹس، میٹل کی کرسیاں- 52 انچ ایل ای ڈی اور آف وائٹ کرٹینز بہت خوبصورت لگ رھے تھے-
دو کمروں میں ڈبل بیڈز سیٹ کۓ گۓ تھے ایک کمرے کو ڈرائینگ روم بنا لیا تھا-
واؤ یار- اٹز لائیک ہیون- میں صوفے پہ ڈھیر ہوگئی-
باقی سب بھی بیٹھ گۓ سواۓ ماہم کے جو ابھی تک سب کچھ دیکھ رہی تھی-
گی میں اور جواد تین دن تک رات دن ایک کرکے یہ کر پا ئے ہیں- نہال نے سگریٹ سلگاتے ہوۓ کہا- ہم سب سواۓ جواد کے اسے حیرت سے دیکھنے لگے-
یہ کب سے- ماہم نے پوچھا-
ایک سال ہوگیا- نہال بولا-
ہم نے تو نہیں دیکھا کبھی- عماد نے کہا-
ضروری نہیں کہ ہر بات تم سے شیئت کروں- نہال ہنس کر بولا-
مجھے بھی دو ناں- میں نے منت کے سے انداز میں کہا-
اس نے ہنس کے ایک اور سگریٹ سلگا کے مجھے دی- میں نے کش لیا اور لیتے ہی کھانسی کا دورہ شروع ہوگیا-
سب ہنسنے لگے- عماد میری پیٹھ سہلانے لگا-
آرام سے پیؤ ناں یار- نہال نے مجھے سمجھایا-
اس نے تین سگیٹ ضائؑ کۓ- مگر آخرکا میں نہ صرف پینے لگی بلکہ انہیل بھی کرنے لگی-
سب نے تالیا ں بجائیں تو میں نے جھک کر چائینیز انداز میں شکریہ ادا کیا-
اچھا یارو-ٹائیم ٹیبل سیٹ کرتے ہیں پڑھائی کا سب سے پہلے- جواد نے کہا-
عماد نے ٹیبل پر بیٹھ کر ٹائیم ٹیبل سیٹ کیا جس کے مطابق صبح دس بجے سے دوپھر ایک بجے تک مختلف سبجیکٹس کو پڑھنا تھا- اور ایک سے چھ بجے تک مستی اور سات بجے تک واپس گھر پہنچنا تھا-
اس دن ہم نے صرف پلان کیا اور کچھ پورشن کی سیٹنگ کی اور سب واپس گھر آ گۓ-
شام کو کھانے کی ٹیبل پہ ابو نے پوچھا"
تو بھائی، کیسی چل ریہ ہے پڑھائی"
مت پوچھیں ابو سارا سال مستی کی اب تو دن رات ایک کرنا پڑے گا" میں نے برا سا منہ بنایا-
میں نے جب بھی پڑھائی کی بات کی تم ڈانٹ پلا دیتی تھیں اس لۓ تمہاری ڈانٹ کے خوف سے میں نے یاد ہی نہیں دلایا، اب بھگتو- ابو نے نوالا لیتے ہوۓ کہا-
جی، نہیں میں آپ کو تب ڈانٹتی ہوں جب آپ ہر وقت پڑھنے کا کہتے ہو" میں نے کہا-
ابھی اگر ہر وقت پڑھو گی تو ہی بل گیٹس کی جگہ لی سکو گی- عون نے لقمہ دیا-
تم تو نہاتے ہوۓ بھی پڑھتے ہو ناں- میں نے مصنوعی غصے سے کہا-
اس بار نمبر لے گی میری بچی- امی نے پہلی بار میری سائیڈ لی-
عون مجھے چڑاتا رھا، میں بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتی رہی-
کھانے کے بعد کچھ دیر میں نے ٹی وی دیکھا اور گیارہ بجے سو گئی-
Comments
Post a Comment