میں امی ابو اور بہن حصہ دوئم
صائمہ نے وارڈ کا چکر مکمل کیا اور نرسنگ کاوئنٹر پر یہ کہتے ہوئے عاصمہ کو نرسنگ چینجنگ روم میں لے گئی کہ یہ میری کلاس فیلو ہے ہم ذرا گپ شپ کر لیں
کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے دروازہ لاک کیا اور عاصمہ کی قمیض اتار دی
عاصمہ کے دودھ سے بھرے تنے ہوئے ممے جو اب چھتیس سائز کے ہو چکے تھے کو دیکھ کر صائمہ کی لسیبین چوت نے پانی کی پھوار ماری اور وہ بے اختیار بایاں نپل چوسنا شروع ہو گئی
عاصمہ تو جیسے درد کو بھول ہی گئی اور اگلے ہی لمحے میں اس کی لہولہان چوت میں کرنٹ لگنا شروع ہوا تو اس کے منہ سے اس کی روایتی سیییییییییییی نکلی جو ہارون کے لن کو مزید وحشی کر دیتی تھی لیکن صائمہ نے اس کو
خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور تیزی سے بایاں مما دودھ سے خالی کرنا شروع ہو گئی
بایاں ممے سے فارغ ہوتے ہوتے صائمہ کی شلوار مکمل بھر چکی تھی
یہاں میں قارئین کو یہ بتاتا چلوں کہ مجھے زندگی میں تقریبا 936 عورتوں کی پھدی لینے کا موقع ملا جس میں ہر عمر اور مزاج کی عورت تھی لیکن میری شہرت کی وجہ سے ایک لیسبین کوئی 2 سال پہلے میری دوست بنی اور وہ اپنے پارٹنر کے ساتھ میرے فلیٹ پر آتی تھی پہلے وہ دونوں سیکس کرتی تھیں پھر ہم دونوں لہذا میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ لیسبین پھدیاں بہت گرم،بہت پانی چھوڑتی ہیں عام پھدی کے مقابلے میں اور ان پھدیوں کو چودنے اور مطمئن کرنے کے لئیے خصوصی سٹیمنا چاہئیے ہوتا ہےخیر صائمہ کی زبان نے عاصمہ کو ہارون کے
ساتھ سیکس بھلا دیا تھا 10 منٹ سے کم وقت میں صائمہ نے اس کی مشکل حل کر دی تھی
اس سے پہلے کہ وہ اس کا شکریہ ادا کرتی صائمہ نے شلوار اتاری اور عاصمہ کا ہاتھ اپنی چوت پر رکھ دیا
عاصمہ پہلی بار کسی لڑکی کی چوت کو یوں دیکھ رہی تھی سیاہ رنگ کی موٹے چھولے کے ساتھ چدائی اور چاٹے کی منتظر چوت
اس کو یوں دیکھتا دیکھ کر صائمہ نے سر گوشی کی میں نے تمہیں سکون دیا اب تم مجھے سکون دو۔۔میں کیسے سکون دوں؟ عاصمہ
صائمہ ہنستے ہوئے۔۔اس کو چاٹو اور انگلی ڈالو۔۔اخ تھو۔میں نہیں چاٹوں گی ۔۔عاصمہ نے غصے سے کہا۔۔
نہیں چاٹو گی تو اس کمرے سے باہر نہیں جا سکو گی اور نہ ہی قمیض ملے گی۔۔صائمہ نے
دھمکانے والے انداز میں کہا تو عاصمہ ڈر گئی اور بولی یہ گندی ہے میں کیسے کروں
نہیں ہے گندی۔۔تم ایسا کرو پہلے میرے ممے چوسو یہ کہہ کر صائمہ نے قمیض اور برا اوپر کی تو اس کے چونتیس سائز کے بروان ممے جن پر سیاہ نپل اندھیرے میں سیکس کرنے والوں کے پنک نپل بن جاتے ہیں اس وقت لوڑے کے ٹوپے کی طرح سخت ہو چکے تھے
عاصمہ نے اپنی زندگی کا پہلا مما منہ میں بھرا اور چوسنا شرور کیا تو اسے محسوس ہوا کہ لہولہان چوت اور ایک دن قبل بچہ پیدا کرنے کے باوجود
بھی وہ فارغ ہونے والی ہے
اس نے صائمہ کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈال کر ایک
ہاتھ سے مما دبانا شروع کر دیا اور دوسرا ہاتھ اس کی سیاہ چوت پر پھیرنا شروع کر دیا
لذت کا یہ کھیل شاید مزید چلتا لیکن دروازے پر ہونے والی دستک نے دونوں کو جلدی سے سیٹ ہونے پر مجبور کر دیا
کھیل تو ادھورا رہا لیکن اب دونوں لیسبین پارٹنر بن چکی تھیں
عاصمہ اگلے دن ہسپتال سے ڈسچارج ہو کر گھر آ گئی اور صائمہ سے گھر آنے کا وعدہ لے کر آئی
دن گزرتے رہے عمران بڑا ہونا شروع ہوا۔۔
حیرت انگیز طور پر عاصمہ کے ممے ڈھیلے نہیں ہوئے تھے اور اس کی جنسی طلب کو دیکھتے ہوئے ہارون نے اپنا مکمل علاج اس کے چھلے کے دوران کروا لیا تھا اور جیسے ہی ڈاکٹر نے چدائی کی اجازت دی ہارون نے عاصمہ کو اتنی بری طرح چودا کہ اس کی چوت پھوڑا بن گئی
لیکن اس چدائی اور عاصمہ کی لذت بھری
سسکیاں سن کر اس کا دیور قاسم دروازہ کے باہر کھڑا ہو کر
تین بار مٹھ لگا چکا تھا
قاسم اٹھارہ سال کا ایک خوبصورت نوجوان تھا اور اس کا لن قریبا سات انچ کا تھا اور وہ اسی کوشش میں لگا رہتا تھا کہ کسی طرح اپنی بھابھی کو چود سکے لیکن عاصمہ اسے ممے دکھانے اور گرم کرنے تک ہی رکھتی تھی مذہب کا ڈر ابھی جنسی طلب پر غالب تھا اور ویسے بھی ہارون کا لن اس کی ٹھکائی فی الحال صحیح طریقے سے کر رہا تھا لہذا اسے کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ وہ مفت میں کسی اور لوڑے سے چداتی پھرے
عاصمہ کا جسم اب پہلے کی نسبت بھرنے سے اس کی جنسی کشش میں اضافہ ہو گیا تھا
وقت گزرتا گیا عمران 3 سال کا ہونے والا تھا کہ وہ ایک بار پھر پریگنٹ ہو گئی اور اب کی بار پھر بیٹا ہوا
قارئین میں کہانی کو دس سال کا جمپ لگا کر
سیدھا عمران پر لا رہا ہو کیوں کہ اصل کہانی یہیں سے شروع ہوتی ہے
عمران اب آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا،اچھی خوراک نے اس کا قد بھی خوب نکالا تھا اور اس کا لوڑا بھی کافی موٹا اور قریبا ساڑھے چھ انچ لمبا تھا
عاصمہ اس عرصے میں 7 بچوں کی ماں بننے کے باوجود خالی خوبصورت نہیں سیکسی خوبصورت چداکڑ گشتی ٹائپ عورت بن چکی تھی
ہارون اپنی جنسی وقت کھو چکا تھا اور عاصمہ کے پاس اگر مہینے میں ایک آدھ بار آتا بھی تو اندر ڈالتے ہی فارغ ہو جاتا جس کے بعد پورا مہینہ
عاصمہ اسے کوسنے دیتی
ہمارے ذہنی بیمار معاشرے میں عورت کی طلب پورا نہ کرنے والے مرد اسے بار بار پریگنٹ کرتے رہتے ہیں تا کہ وہ بچوں اور حمل میں الجھی رہے اور لن کا تقاضا نہ کرے
جب تک یہ سوچ نہیں بدلے گی طلاق کی شرح اور گھریلو ناچاقیوں میں کمی نہیں آئی گی
عمران کی جوانی کا اندازہ دو سال قبل اس کے کھڑے لن سے عاصمہ کو اس وقت ہوا جب وہ ہارون سے ناممکل چدائی کے بعد لڑ رہی تھی اور اسے یوں لگا کہ ہارون جاگ رہا ہے اور جب وہ اس کے پاس گئی تو اس کے ٹروائزر سے باہر نکلے ہوئے للے نے اس کی بات کی تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ اسے شرمانے پر مجبور کر دیا کہ وہ اپنے فرزند کا لوڑا دیکھ رہی ہے
مڈل کلاس گھروں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے رہائشی مذہب پرست،جنس پرست ہوتے ہیں اور یہ دونوں چیزیں مل۔کر انسانی کو جنونی یا سائیکو بنا دیتی ہیں اور شک وہی مرد کرتا ہے جو جنسی
طور پر کمزور ہو
یہی صورتحال اس وقت ہارون کی بھی تھی لیکن عمران جوان ہو چکا تھا باقی بچے بھی بچپنے سے نکل رہے تھے اس لئیے وہ ایسے باتوں کو دماغ میں ہی رکھتا تھا
عمران ماں کے جسمانی نشیب و فراز کئی بار دیکھ چکا تھا اور پچھلے ہفتے عاصمہ نے بدن ٹوٹنے پر عمران سے جب مالش کروانا شروع کی تو عمران کا لن اسے اپنی گانڈ پر حرکت کرتا محسوس ہوا ایک بار تو اسے شدید گناہ کا احساس ہوا لیکن دوسری
عورت جب گناہ و ثواب کے چکر سے نکل جاتی ہے تو وہ بہت خطرناک ہو جاتی ہے اس وقت اس کے سامنے صرف اس کی ذات ہوتی ہے اور اس سے جڑی سکون آمیز چیزیں اور یہی حال عاصمہ کا تھا جسے
چوت کے چٹخارے نے سب کچھ بھلا دیا اور وہ آہ ہائے اوہ کرتے ہوئے عمران سے مالش
کروانے لگ گئی کمر کی مالش اب چوتڑوں تک آ رہی تھی اور نرم گانڈ پر تیل لگا کر مالش کرتے عمران کا للا مسلسل قطرے گرا رہا تھا اس نے ماں کو سیدھا کیا اور مموں پر تیل ڈال کر مالش کرنا شروع کر دی
بیالیس سائز کے انتہائی ٹائٹ ممے عمران کا ہوش اڑانے کو کافی تھے لیکن ماں کا غصہ اسے کچھ بھی کرنے سے باز رکھ رہا تھا اس لئیے اس نے خاموشی سے تیل میں چپڑے ہوئے ممے مسلنے اور دبابے میں عافیت جانی
دوسری جانب عاصمہ چھوٹنے کے قریب پہنچ گئی تھی اور عجب بے بسی تھی کہ نہ وہ پھدی میں انگلی کر سکتی تھی اور نہ ہی عمران کا للا لے سکتی تھی
عورت تیس سال سے لے کر پینتالیس سال کی عمر تک اگر اچھا کھائے پہنے تو یہ زمانہ اس کی چدائی کے عروج کا زمانہ ہوتا ہے کیوں کہ چدوا چدوا کر وہ لذت حاصل کرنے اور مزا دینے کے تمام طریقوں سے واقف ہو چکی ہوتی ہے اسی طرح مرد اگر اپنی صحت کا خیال رکھے زیتون ،یخنی اور گوشت کا برابر استعمال رکھے روزانہ واک کرے تو اسے کسی ویاگرا کی ضرورت نہیں پڑتی یہ میرا ذاتی تجربہ ہے
خیر۔۔عمران بڑا ہونے کے ناطے عاصمہ کا لاڈلا بلکہ یوں کہئیے عاصمہ کی سہیلی بھی تھی پچھلی دو بار تو یوں ہوا کہ پریگنٹ ہونے کے بعد عاصمہ نے پہلے عمران کو ہی بتایا کہ میں
پریگنٹ ہو گئی ہوں اب عمران کا چھوٹا سا ذہن اس بات کو کیسے قبول کرتا اس وقت اسے ان معاملات کی سمجھ نہ تھی۔۔ستم بالائے ستم ایک دن عاصمہ نے غصہ میں ناشتہ کے وقت بچوں کے سامنے کہہ دیا کہ تمہارا باپ ختم ہو چکا ہے اب یہ کچھ نہیں کر سکتا۔
باقی بچوں کی تو سمجھ میں نہ آیا لیکن عمران کی سوئی اڑ گئی کہ یہ کیا معاملہ ہے
ماں کی مالش کے دوران اس نے یکدم پوچھ لیا کہ امی یہ اس دن آپ نے ابو کے ختم ہونے کی کیا بات کی تھی؟
عاصمہ! بیٹا جو مرد اپنی جوانی میں غلط کام
کرتے ہیں وہ بڑے ہو کر اپنی بیوی کو خوش نہیں رکھ سکتے
عمران!بیوی کو کیسے خوش رکھتے ہیں
یہ وہ سوال تھا جس نے عاصمہ کی چوت میں وہ
کرنٹ گھسا دیا جو جوانی کی چدائیوں میں اسے آتا تھا اور وہ سوچ میں پڑ گئی
اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی عمران نے اس کے نپلز رگڑنا شروع کئیے تو رکا ہوا طوفان بہہ نکلا اور اس نے ٹانگیں جوڑ لییں
ابھی عاصمہ سوال کا جواب ڈھونڈ ہی رہی تھی کہ دروازے پر بچوں کے سکول سے واپس آنے کا شور ہوا تو اس نے جلدی سے عمران کو پیچھے ہٹایا اور کمبل اپنے اوپر کر کے بیٹے کو کہا جاو
بہن بھائیوں کو دیکھو میں آتی ہوں تھوڑی دیر میں ہم کل اس موضوع پر بات کریں گے
Comments
Post a Comment