انشورنس ایجنٹ
·
ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں انجینئر ھونے کی وجہ سے مجھے پنجاب کے تقریباً ھر شھر میں ڈیوٹی کرنی پڑتی ھے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ لہور کے نزدیکی شہر پرماننٹ میری زمہ داری میں ھیں جن میں مریدکے بھی شامل ھے۔
میرے فون کی گھنٹی بجی دیکھا تو میرے دوست صادق کی کال تھی ۔ صادق ایک سکیورٹی کمپنی میں جاب کرتا ھے اور مختلف کمپنیوں کو سکیورٹی گارڈ فراہم کرتا ھے۔ صادق میرا ھمنوالہ اور ھم پیالہ بھی ھے۔ اس کی کال اٹینڈ کی تو کہنے لگا یار ساحر ایک چھوٹا سا کام کر دے۔ میں نے کہا کام برا اگر ھونے والا ھو گا تو ضرور کر، دوں گا۔ وہ کہنے لگا یار ایک لڑکی ھے شبنم نام ھے۔ میرے ایک جاننے والی فیملی سے ھے یار اس سے انشورنس کروا لے اس کا منتھلی ٹارگٹ پورا ھو جائے گا۔ میں نے کہا نھی یا انشورنس مجھے پسند نھی اور میں ایسے چکروں میں بھی نھی پڑتا سوری یار۔ لیکن تم بتاو کہ تم بلاوجہ اتنی ھمدری کیوں کر رھے ھو، اس لڑکی سے تو بولا یار اس کی ماں بھت زبردست چیز ھے۔ اسے پھنسانے کے چکر میں ھوں۔ میں نے کہا کیا نات ھے لڑکی چھوڑ کر اسکی ماں کے پیچھے پڑے ھو۔ بولا یا تمیں تو پتہ ھے مجھے آنٹیاں زیادہ پسند ھے اور لڑکیوں کے نخرے مجھ سے برداشت نھی ھوتے۔ پھر بولا چل اتنا کر دے کہ دو چار دن اسے وعدے پر رکھ کہ تم انشورنس کرواو گے بعد میں بے شک نہ کروانا صرف ایک ھفتہ اس کو ھینڈل کر لے۔ میں بولا ٹھیک ھے تم اسے میرا نمبر دے دو میں ڈیل کر لوں گا۔ اس کی کال بند ھوئی تو کوئی تین گھنٹے بعد ھی ایک پی ٹی سی ایل نمبر سے کال آآ گئی۔ فون اٹینڈ کیا تو لڑکی کی اواز تھی ۔ میں نے کیا جی فرمائیں کیا خدمت کر سکتا ھوں آپ کی۔ وہ بولی مجھے صادق نے آپ کا نمبر دیا ھے اور بتایا ھے کہ آپ نے آنشورنس کروانی ھے۔ میں نے کہا میڈم مجھے انشورنس کرونی تو، نھی لیکن صادق نے پرسنل ریکوئسٹ کی ھے کی انشورنس کروا لوں۔ آپ مجھے ڈیٹیل بتا دیں اگر مجھے آپ کی آفر اچھی لگی تو ضرور کروا لوں گا۔ لیکن آپ مجھے کال کل کر لیں ابھی ڈرائیو کر رھا ھوں۔ اس نے کہا ٹھیک ھے سر میں کل کس وقت کال کروں۔۔ میں نے کہا، آپ مجھے اپنے نمبر دے دیں یا ایک میسج کر دیں کل میں جیسے ھی فری ھوں گا کال کر لوں گا۔ اور مجھے لاھور میں اپنے آفس کی لوکیشن بتا دیں میں چکر بھی لگا لوں گا۔ وہ بولی سر نمبر میں آپ کو میسج کر دیتی ھوں لیکن میرا، آفس لاھور میں نھی مریدکے میں ھے۔ میں نے کہا کوئی بات نھی میرا مریدکے چکر لگتا، رھتا ھے۔ آپ مجھے افسوس کی لوکیشن میسج کر دیں میں گزرتے ھوئے آپ سے مل لوں گا۔ ۔ یہ کہ کر میں نے اسے خدا حافظ کہا اور فون بند کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے موبائل نمبر سے مجھے افسوس کا، ایڈریس میسج کر دیا۔ اگلے دو دن میں نے جان بوجھ کر اسے کال نھی کی اور چوتھے دن اس کی کال آآ گئی۔ میں نے اس، سے معزرت کیا اور کہا کہ میں بھت مصروف تھا اس لیے بھول گیا۔ اس نے کہا، سر پلیز آپ انشورنس کروا لیں تو میں نے کہا کہ میری انشورنس پہلے ھی کمپنی کی طرف سے ھوئی ھے لیکن پھر بھی میں آپ کے آفس چکر لگا لوں گا اور اگر اچھا پیکج ھو تو ضرور کروؤں گا۔ مجھے اس کی آواز اچھی لگی تھی اور آواز سے اندازہ ھوتا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ بیس بائیس سال کی ھو گی اس لیے میری دلچسپی بڑھ رہی تھی۔ اب میں سوچ رھا تھا کہ اسے کسی طرح اس کے افس سے باھر ملوں یا تب ملوں جب اس کے آفس میں کوئی نا ھو۔ کیوں کہ افس میں تو اور لوگ بھی ھوں گے اور میں کھل کر بات نھی کر سکوں گا۔ اگلے دن جمعرات تھی اور اور مجھے کچھ ضروری کام سے صادق سے ملنا پڑ گیا۔ میں نے صادق کو کہا کہ یار میں لڑکی کو ٹرائی کرنے لگا ھوں اگر تمہیں اعتراز نہ ھو تو۔ وہ بولا مجھے بھلا کیا، اعتراز ھو گا آپ بیشک اس سے دوستی کر لو۔
اگلے دن میں پروگرام بنا چکا تھا کہ مجھے شبنم کو کیسے ڈیل کرنا ھے۔ چناچہ میں نے اسے کال کی اور کہا کہ اتوار کو میں مریدکے آآرھا ھوں ایک کام کے لیے مجھے معلوم ھے کہ آپ کو چھٹی ھو گی لیکن پھر بھی اگر آپ مجھے کسی کیفے یا ریسٹورنٹ میں مل کر تفصیل بتا دیں تو میں کچھ سوچوں ورنہ میں اتنا بزی ھوں کہ ھو سکتا ھے اس کے بعد کافی دن میں مریدکے نا آآ سکوں۔ اس نے کہا سر اسطرح شائد میں نہ مل سکوں کیوں کہ اتوار کو گھر کے کافی کام ھوتے ھیں اور شائد امی بھی نا جانے دیں۔ میں نے کہا کوئی بات نھی آپ سوچ لیں اگر ارادہ بن جائے تو مجھے کال کر دیجئیے گا اس نے اوکے کہ کر فون بند کر دیا۔ مجھے کافی امید تھی کہ وہ اتوار کو ملنے آجائے گی۔ جمعہ اس کی کال نھی آئی لیکن ھفتے کو آ گئی اس نے مجھے بتایا کہ اس نے امی سے کوئی بھانا کر کے آنا ھے تو آپ پلیز آجائیے گا۔ میں نے کہا ٹھیک ھے آپ مجھے جگہ اور ٹائم بتا دیں کہا ملیں گی میں پہنچ جاوں گا۔ اس نے مجھے ایک سٹاپ کا نام بتایا اور کہا کہ میں وھاں سے اسے پک کر لوں اور گاری میں ھی آپ کو سمجھا دوں گی کیونکہ مریدکے میں کوئی بھی ایسا اچھا ھوٹل نھی جہاں ھم بیٹھ کر بات کر سکیں۔ میں نے اسے کہا کہ شاھدرہ سے مریدکے جاتے ھوئے مریدکے سے پہلے ایک ھوٹل ھے وھاں ھم بیٹھ کر بات کر لیں گے۔ اس نے اوکے کر دیا تو میں نے کال بند کی۔ اتوار کو دو بجے دوپہر میں نے شبنم کو مقررہ سٹاپ سے پک کیا، میری توقع کے برعکس وہ قبول صورت لڑکی تھی، قد چار ساڑھ چار فٹ اور بلکل ہتلی فیگر 30-27-32 ھوگا لیکن آواز بھت کمال کی تھی۔ اسے پک کر کے اسی ھوٹل میں آگئےجس کے بارےیں ادے بتایا تھا۔ ھوٹل میں اسے میں نے اپنی فیملی اور بچوں کی تفصیل بتائی تو اس مے مجھے کچھ پیکج بتائے اس دوران میں نے اسکے منع کرنے کے باوجود کھانے کا آرڈر کر دیا۔ کھانا کھانے کے بعد میں اپنے مطلب کی بات پر آ گیا۔ میں نے اسے کہا کہ مس شبنم سچی بات ھے کہ مجھے ان میں سے کوئی پیکج پسند نھی آیا اور نہ ھی میں انشورنس لینے کے موڈ میں ھوں۔ آپ کی آواز مجھے بھت اچھی لگی تھی تو دل میں خواہش تھی کہ آپ کے ساتھ کھانا کھاوں اور تھوڑی گپ شپ کر لوں ۔ میں معزرت چاھوں گا کہ میں نے آپ سے جھوٹ بولا۔ میرا آج مریدکے میں کوئی کام نھی تھا صرف آپ کے لیے آیا ھوں۔ مجھے پتہ ھے آپ ایک اچھی لڑکی ھو اور شائد اگر میں ڈائریکٹ آپ کو لنچ کی افر کرتا تو آپ نا مانتیں اس لیے جھوٹ بولا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور بولی سر آپ کو جھوٹ نھی بولنا چاھیے تھا۔ میں نے اس سے ایک دفعہ پھر معافی مانگی اور اس سے کہا کہ میں ایک شادی شدہ آدمی ھوں لیکن آپ کی آواز نے پتہ نھی کیا جادو کیا ھے کہ میں آپ سے دوستی کرنا چاھتا ھوں ۔ اس نے کہا سر آپ شادی شدہ ھیں اور میں آپ سے دوستی نھی کر سکتی۔ میں نے اسے کہا کہ میں اسے کبھی دھوکہ نھی دوں گا اور اپنی دوستی نبھاوں گا پلیز وہ مان جائے۔ اس نے مجھے منع کر دیا۔ میں نے اسے کہا کہ وہ آرام سے سوچ لے پھر مجھے بتا دے ۔ میں اب اسے کال نھی کروں گا اگر اس کا دل مان جائے تو وہ مجھے کال کر سکتی ھے۔ اس نے کہا سر یہ نھی ھو سکتا تب میں نے اسے واپس ڈراپ کیا اور گھر آگیا۔ شبنم ایک عام سی لڑکی تھی بھت زیادہ خوبصورت تو نھی بس دو خوبیاں تھیں اس میں ایک آواز بھت اچھی تھی۔ دوئم21 سال کی جوان لڑکی تھی اور میرے لیے اتنا ھی کافی تھا۔ اس کے بعد میں نے اسے کال نھی کی اور ناھی چارپانچ دن اس کی کال آئی۔ پھر ایک دن اسکےنمبر سے مجھے مس کال آئی۔ میں نے کال بیک کی تو بولی غلطی سے ڈائل ھو گیا ھے ۔ میں نے بھی اٹس اوکے کہ کر کال کاٹ دی۔ رات کو، اس کی پھر مس کال آ گئی لیکن اپنی بیگم کے پاس ھونے کی وجہ سے اسے کال نا کر سکا۔ مجھے اندازہ ھو گیا تھا کہ وہ مان گئی ھے لیکن کہنے کی ھمت نھی ھو رھی۔ اس لیے صبح اسے کال کی تو پھر بولی سر وہ غلطی سے ڈائل ھو گیا تھا۔ میں نے اسے کہا شبنم مجھے پتہ ھے کہ تمہارا، دل مان گیا ھے پر تم اپنی زبان سے کہنا نھی چاھتی لیکن پلز اقرار کر لو تا کہ مجھے بھی قرار آجائے۔ اس نے کہا سر آپ مجھے دھوکا تو نھی دیں گے ۔
میں نے کہا شبنم اگر تمہیں دھوکا دینا ھوتا تو اپنی فیملی کے بارے میں کبھی نہ بتاتا۔ تم مجھے اچھی لگی ھو اور ایک بات پہلے بتا، دینا چھتا ھوں کہ میں تم سے شادی نھی کر سکتا اس لیے کبھی ایسا سوچنا بھی نا۔ البتہ ایک اچھے دوست کی حثییت سے کبھی دھوکا نھی دوں گا تو وہ بولی کیا ھم صرف دوست ھوں گے۔ میں نے کہا اگر تم صرف دوست بننا چاھتی ھو تو بھی مجھے کوئی مسئلہ نھی لیکن میں دوست سے زیادہ چھتا ھوں لیکن جب تک تم دلی طور پر خود سے نھی مسنو گی میں دوستی کی حد سے آگے نھی جاؤں گا۔ وہ ٹھیک ھے ھم صرف بات کیا کریں گے ۔آپ کو کیا حثیت دینی ھے یہ میں بود میں سوچوں گی۔ اسطرح ھماری موبائل پر بات شروع ھوئی اور کافی دنوں تک چلتی رھی۔ پھر ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ کل چار جنوری کو اس کی برتھ ڈے ھے۔ میں نے اسے کیا کہ کل ھم لنچ ساتھ میں کریں گے اور تمھاری برتھ ڈے منائیں گے۔ وہ بولیکل میں ڈیوٹی ہر ھوں گی اس لیے دوپیر کو مشکل ھے اور شام کو امی نے گھر میں میرے لیے سپیشل کھانا بنانا ھے۔ اس وجہ سے بھت مشکل ھے۔ میں نے اسے کہا کہ تم افس سے چھٹی کر لو اور امی سے کہنا کہ آفس میٹنگ کے لیے باس کے ساتھ لاھور جانا ھے۔ اسطرح دونوں اطراف مطمئین ھو جائیں گے۔ وہ ہنس کر بولی آپ کا دماغ بھت چلتا ھے۔ اگلے دن میں نے اسے مریدکے سے پک کیا میرے ساتھ میرا ڈرائیورشکیل بھی تھا جس کا ذکر میں نے اپنی پھلی کہانی رومانہ کی گرم جوانی میں بھی کیا تھا۔ شبنم کو لے کر میً لاھور گورمے ریسٹورنٹ آگیا جہاں میں نے پہلے ھی کھانے کے لیے سیٹ ریزرور کروائی ھوئی تھ اور کیک کا آڈر بھی کیا ھوا تھا۔ ھم نے کیک کاٹا اور ۔ کھانا کھایا۔ بچاھوا کھانا اور کیک میں نے شکیل کے لیے پیک کروا لیا اس کے بعد ھم ایک مال میں گیئے جہاں سے میں نے شبنم کے لیے گفٹ خریدا۔ اس دوران میں نے شبنم کے ساتھ کوئی ایسی بات یا حرکت نھی کی جس سے اس لگے کہ میں اس کے جسم میں دلچسپی لے رھا ھوں بلکہ میں نے اسےچھوا تک نھی۔ اس کے بعد شام کو اسے گھر ڈراپ کیا اور میں واپس لاھور کے لیے نکل پڑا راستے میں ھی اس کی کال آ گئی وہبھت خوش تھی کہنے لگی ساحر میں صبح بھت کنفییوز تھی کہ پتہ نھی آپ کے ساتھ جوں تو، آپ کیسا روایہ رکھو۔ مجھے کہیں ایسے ھوٹل میں نہ لے جاو کہ جہاں کے اکثر قصے خبروں میں آتے ھیں۔ لیکن آپ نے میرا اعتماد بڑھا دیا۔ آپ نے مجھے چھونے تک کی کوشش نھی کی حالانکہ میں نے جب کبھی کسی کے ساتھ فری ھو کر بات کی اس نے مجھے چھونے اور پتہ نھی کیا کچھ کرنے کی کوشش کی۔ آپ مے آج میرا دل جیت لیا آپ نے مجھے جیت لیا۔ میں نے کہا شبنم میں نے تمہیں پہلے دن کہا تھا کہ میں تمہاری مرضی ک بغیر تمہیں ھاتھ تک نھی لگاوں گا پھر یہ کیسے ھو سکتا ھے کہ میں اپنا وعدہ توڑ دیتا ۔ایسا ھو ھی نھی سکتا۔ وہ بولی ساحر آپ بھت اچھے ھو آج آپ نے مجھے جیت لیا ھے۔ پھر اسطرح بات کرتے ھوئے میں گھر کے نزدیک پہنچ گیا تو، اسے خدا حافظ کہ کر فون بند کر دیا۔ شکیل میری طرف دیکھ کر مسکرا رھا تھا پھر بولا باس لگتا ھے کہ آپ کی محنت رنگ لانے ولی ھے ۔ میں اسے دیکھ کر مسکرا دیا۔ اب مجھے دوسرے راوںڈ میں کھیلنا تھا، اور وہ تھا کہ شبنم کو رآض کیسے کیا جائے۔ کافی سوچنے کے بعد میرا دماغ ایک منصوبہ بنا چکا تھا اب اس پر عمل کرنا تھا لیکن بھت پلاننگ کے ساتھ۔ شننم سے روزانہ بات ھوتی رہتی تھی اب وہ کاگی فرینک ھو چکی تھی اور میں مزاق مزاق میں اسے اپنے ازدواجی قصے سنا دیتا تاکہ اس کا، مائینڈ بن جائے اور میرا پلان کام۔بھی کر رھا تھا۔ دس دن بعد ایک دن شبنم نے مجھے کافی کالز کیں لیکن میں نے نہ تو اس کی کال اٹینڈ کی اور نہ ھیی اس کے میسجز کا جواب دیا۔ اگلے دن میں نے اسے کال کی تو وہ مجھ سے لڑنا شروع ہوگئی کہ میں کال بیچک اٹینڈ نہ کرتا کم از کم میسج ھی کر دیتا تو میں نے اسے کہا کہ یار مجھے بلکل یاد نھی تھا کہ کل میری برتھ ڈے تھی اور میں نے بچوں سے وعدہ کیا تھا کہ اپنی برتھ ڈے پر انھیں دادی کے گھر لے کر جاوں گا چناچہ صبح جب اٹھا تو وہ میرے لیے سرپرائز لیے کھڑے تھے اور مجبوراً مجھے ان کے ساتھ چکوال اپنی امی کے گھر جانا پڑا اور ایک تو وھاں سگنل نھی آتے دوسرا بیگم سارا، دن ساتھ تھی اس لیے ریپلائی نھی کر سکا۔ وہ چونک کر بولی کءا آپ کی برتھ ڈے تھی اور آپ نے مجھے بتایا تک نھی۔ میں نے کہا یار مجھے خود یاد نھی تھا تو تمھیں کیا بتاتام وہ بولی اب آپ کو اسکی سزا ملے۔ میں نے کہا وہ کیا تو بولی آپ کل لنچ میرے ساتھ میری طرف سے کریں گے۔ میں نے کہا اچھا جی تو پھر مجھے گفٹ کیا ملےگا۔ وہ بولی کیا گفٹ چاھیے ۔ آپ میرے ساتھ چلیں جو کہیں گے خرید لیں گے۔ میں نے کہا نھی شبنم اگر گفٹ دینا ھے تو مجھے وہ دو جو چءز میں نے جیتی ھے۔ بازار سے تو میں خود بھی خرید سکتا ھوں ۔ وہ پریشان ھو کر بولی جناب وہ کیا چیز ھے تو میں نے کہا تم نے خود ھی کیا تھا کہ میں نے تمھین جیت لیا ھے تو اب تم میری ھوئی نا۔ وہ ہنس کر بولی اچھا جی بڑی یاداشت تیز ھے ۔ میں نے کہا جی جناب ۔ وہ بولی تو جناب میں تو، تیار ھوں لیکن آپ نے خود ھی کیا تھا کہ آپ دوسری شادی نھی کر سکتے۔ میں نے کہا جناب شادی نھی کر سکتا لیکن پیار تو کر، سکتا ھوں نا اگر کوئی ھم پر اعتبار کرے تو۔ وہ بولی اعتبار تو اتنا ھے کہ آپ حکم کریں تو ابھی سب کچھ چھوڑ کر، آجاوں۔ میں مے کیا کہ نھی مجھے ایسا کوئی شوق نھی کہ تم میری خاطر اپ ے ماں باپ کو چھوڑ کر میرے لیے آجاو۔ میرے لیے اتنا ھی کافی ھے کے تم مجھے مجھے خود کو پیار کرنے دو۔ کوئی ڈیڑھ دو سو کس دے دو بس یہی گفٹ کاگی ھے میرے لیے۔ وہ ھنس کر بولی اچھا جی تو یہ لیں اتنا کہ کر اس مے مجھے فون ہر ھی چار پانچ کس کر دیں۔
میں نے کہا جی نھی ایسے نھی مجھے فیس ٹو فیس کسنگ کرنی ھے اگر تمہارا دل مانے تو یہ میری برتھ ڈے کا گفٹ ھوگا ورنہ مجھے کوئی گفٹ نھی چاھئیے۔ وہ بولی یار یہ کیسے ھو، سکتا ھے آپ میرے گھر نھی آ، سکتے میں آپ کے گھر نھی جا سکتی گاڑی میں آپ کا، ڈرائیور ھوتا ھے۔ پھر کیسے کسنگ ھو گی۔ میں نے کہا ھم کسی ھوٹل یں روم لے لیتے ھیں تو وہ بولی مھی ھوٹل نھی مجھے ھوٹلوں سے بھت ڈر لگتا ھے۔ میں مے کہا، ۔ اوکے تم میرا گفٹ تیار رکھو اور کل ریڈی رھنا میں تمھیں پک کر لوں گا۔ یہ کہ کر فون بند ھو گیا۔ اب میں سوچ رھا تھا کہ اب کیا کروں ھوٹل میں وہ راضی نھی اور گھر اس کو لا نھی سکتا۔ تب میں نے صادق کو کال کی اور ساری صورتحال بتا کر مشورہ مانگا تو وہ بولا ساحر یار یہ تو کوئی مسئلہ ھی نھی۔ ایک بندی ھے شاھدرہ میں میرے پاس اسے کہ دیتا ھوں وہ گھر خالی کروا دے گا۔ اسے پانچ سو دے دینا، وہ بچوں کو لے کر کہیں پارک میں چلا جائے گا۔ کیا بات ھے صادق تو نے تو سارا مسئلہ ھی حل کر دیا۔ اس، رات میں نے بیگم کو کام کا بھانا بنا کر صادق کے گھر رک گیا۔ میں چاھتا تھا کہ رات کو شبنم سے بات کر کے اسے ذہنی طور پر سیکس کے لیے تیار کر لوں۔ اور گھر میں اس، سے بات نھی ھو، سکتی تھی۔ رات کو میری بات ھوئی تو میں جان بوجھ کر باتوں میں سیکس کا ٹاپک لے آیا اور اسے کہا کہ میرا بس چلے تو، تمھارے جسم کا، ایک ایک حصہ چوموں وہ شوخی میں بولی جسم میں تو کوئی اور حصہ بھی ھوتا ھے میں بولا اگر تمھرا دل مانتا ھے تو میں وہ حصہ بھی چوم لوں گا اس نے شرما کرفون بند کر دیا تو ھناری میسج ہر بات شروع ہوگئی۔ میں نے اسے باتو باتوں میں ممے چوسنے تک منا لیا اور ساتھ یہ بھی کہ دیا کہ اگر تمھارا دل نھی مانتا تو مجھے بے شک منع کر دو میں ناراض نھی ھوں گا ۔ وی بولی نھی آپ بس، اتنا، وعدہ کریں کہ صرف پیار کریں گے میں نے کہا، وعدہ کہ اگر تمھاری مرضی کے بغیر تمھیں ٹچ تک نھی کروں گا۔ پھع میں نے اسے کہا کہ اوکے اب میں میسج نھی کروں گا ۔ تو وہ بولی اتنی جلدی ؟ میں نے کہا ھاں یار تیاری کرنی ھے صبح مجھے گفٹ ملنا ھے۔ وہ بولی کیا تیاری کرنی ھے تو میں نے کہا یار مجھے انڈر شیو کرنی ھے کیونکہ کہ جتنی تمھاری صحت ھے ھو سکتا ھے صبح تم سے گرمی برداشت نہ ھو اور تم مجھے مزید پیار کرنے کی اجازت دے دو۔ اس نے مجھے شٹاپ کا میسج کیا اور پھر بائے کا۔
اگلے دن میں نے شکیل کو ڈیوٹی سے چھٹی دی اور گاڑی خود ھی ڈرائیو کر کے مریدکے گیا۔ شبنم سٹپ پر کھڑی تھی اور اس کے ساتھ اس کی ماں بھی تھی۔ اس کی ماں اسیے چھوڑنے آئی تھی اس نے اپنی ماں سے مجھے اپنا، باس کہن کر، تعارف کروایا اور ماں کو بتایا کہ اسے میٹنگ کے لیے باس کے ساتھ لاھور ھیڈ، آفس جانا ھے۔
شبنم کو پک کرکے میں شاھدرہ آگیا اور ایک جگہ رک کر کچھ سنیکس لیے اور ایک میڈیکل سٹور پر رک کر کنڈوم لیے ۔ گاڑی میں بیٹتھے ھوئے شبنم نے پوچھا میڈیکل سٹور سے کیا لیا ھے ۔ میں نے کہا کنڈوم تو وہ خاموش ھو،گئی۔ صادق مجھے شاھدرہ موڑ ہر مل گیا، اس نے مجھے گھر کی چابیاں دیں اور ایڈریس سمجھایا۔ صادق کو دیکھ کر شبنم نے پوچھا اسے پتہ ھے یہ سب میں نے کہا ھاں وہ میرا دوست ھے اور اس سے میں کچھ نھی چھپاتا اور نا وہ کچھ چھپاتا ھے۔ وہ میری بات سن کر مطمئین ھو گئی۔ صادق نے گھر کا ایڈریس بڑی اچھی طرح سمجھا دیا تھا چناچہ میں نے گاڑی سیدھی گھر ک آگے کھڑی کی۔ گھر کیا تھا ایک چھوٹا سا کوارٹر تھا جس میں فرنٹ پر صحن پھر برامدہ اور پیچھے ایک کمرہ تھا۔ برامدے میں ھی ایک طرف باتھ بنا ھوا تھا اور برامدہ کے آگے پرانے سے پردے لٹک رھے تھے۔ کمرے میں ایک پرانا سا صوفہ تھا اور ایک پرانا سا ڈبل بیڈ تھا بیڈ کے ساتھ ایک جستی پیٹی پڑی ھوئی۔ شبنم اندر آکر صوفے پر بیٹھ گئی ۔یں اس کے سامنے کھڑ اہوا اور بولا جناب پہلے مجھے برتھ ڈے تو وش کر دیں پھر بیٹھ جانا وہ بولی کیسے وش کروں وش ۔۔ سینے لگ کر ۔۔
وہ شرما رھی تھی میں نے اپنا ھاتھ آگے بڑھایا تو اس نے مجھے سلام دینے والے سٹائل میں ھاتھ ملایا میں نے اس کا ھاتھ مضبوطی سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو وہ بلکل میرے سامنے کھڑی ہوگئی میں نے ایک اور دفعہ کھینچا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ وہ شرماتے ھوئے میرے گلے سے لگ گئی۔ میں نے اس بانھوں میں بھینچا اور اس کی پیٹھ پر ھاتھ پھیرنے لگا۔ وہ مجھ سے لپٹی ھوئی شرما رھی تھی۔ میں نے اس کے بالوں کو گردن سے ھٹایا اور اسپر کس کر دی وہ ایک دم سے تڑپی۔
چلیں جنابتھوڑا انتظار کا بھی مزہ لے لیتے ہیںپھر انشورنس والی کی جوانی کچی کلی کے ہھول بننے کا منظر چشم تصور اور آپکے قلم کی رعنائیوں سے۔۔۔۔منتظر۔
پھر میں نے اس کے گالوں اور انکھوں کو چوما۔ اس کے بعد میں نے اپنے ھونٹ اس کے ھونٹوں ہر رکھے تو اسنے ایک دم پیچھے ھٹنے کی کوشش کی لیکن چونکہ میری گرفت مضبوط تھی اور وہ بھی صحت کے لحاظ سے کافی کمزور تھی اس لیے میری گرفت سے نکل نہ سکی۔ میں نے اسے گردن سے بالوں سے پکڑا اور اس کا منہ اپنے قریب کرکے دوبارہ اپنے ھونٹ اس کے ھونٹوں ہر رکھے تو، اس نے اپنا منہ مضبوطی سے بند کر لیا ۔ میں نے اپنی گرفت ڈھیلی کی اور کہا یار کس تو کرنے دو ۔ وہ بولی مجھے شرم آتی ھے اور آپ اتنے ھاٹ ھو مجھ سے برداشت نھی ھوتا۔ میں نے کہا تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ تم مجھے کسنگ کرو گی تو اب شرما کیوں رھی ھو۔ وہ بولی بات کسنگ کی ھوئی تھی اور آپ کنڈوم بھی لے آئے ھو۔ میں نے کہا یار تمھاری مرضی کے بغیر کچھ نھی ھو گا لیکن پلیز ابھی نھی روکو مجھے ان ھونٹوں کو چومنے دو۔ اس نے میری طرف غور سے دیکھا اور اور آگے بڑھ کر ایک بر پھر میرے گلے لگ گئی، میں نے بھی اپنے ھونٹ ایک بار پھر اس کے ھونٹوں پر رکھ دئیے۔ اب اس نے مجھے روکا نھی بلکہ پورا رہسپونس دے رھی تھی۔ میں کبھی اس کے اوپر والے ھونٹ جو چوستا تو کبھی نیچے والے ھونٹ کو۔ اب میں نے اپنی زبان اس کے منہ میں ڈالی تو اس نے چوسنا شروع کر، دی میں نے ھلکا سا اسے پیچھے کیا اور اپنا داہنا ھاتھ اس کے داھنے ممے پر رکھ دیا۔ آپ یقین کریں اس کے ممے بھت ھی چھوٹے تھے جیسے آپ نے ھاتھ میں کوئی مالٹا یا کنو پکڑ لیا ھو۔ اس کی زبان اب میرے منہ میں تھی اور میرا ھاتھ اس کے ممے کو دبا رھا تھا۔ پھر میں نے سائیڈ چینج کی اور اب اس کا بائیاں مما میرے بائیں ھاتھ میں تھا۔ اور میں پورے جوش سے اسے دبا، رھا تھا۔ چند مینٹ مزید کسنگ کی تو وہ ایک دم۔پیچھے ھٹ گئی بس یار اب مجھ سے نھی برداشت ھوتا۔ میں نے بھی اس چھوڑ دیا تو وہ صوفے پر بیٹھ گئی ۔ میں نے کیا یہ تو تم نے مجھے برتھ ڈے وش کی جے ابھی تو میرا گفٹ باقی ھے۔ وہ بولی نھی ساحر مجھ سے برداشت نھی ھو رھا۔ پلیز بس کریں۔ میں نے مالمو کا شاپر آٹھایا اس میں سے جوس اور بسکٹ نکالے اور اسے کہا کہ تم پہلے یہ جوس پیو اور بسکٹ کھاو پھر دیکھتے ھیں ۔ میں چاہ رھا تھا کہ وہ مکمل ریلکس ھو جائے تو میں اگلے سٹیپ کی طرف جاوں ۔ میں نھی چاھتا تھا کہ وہ پریشان ھو یا ڈرے۔ جوس پینے کے بعد میں اس کے پاس صوفے پر بیٹھ گیا اور اس کے ھاتھ کو اپنے ھاتھ یں لے لیا۔ اس کے ھاتھ بھی بالکل چھوٹ چھوٹے تھے۔ صحت کے معاملے میں وہ بےچاری حد سے زیادہ کمزور لگ رھی تھی یا شائید اس کے حالات کا اثر تھا جو وہ اتنی کمزور تھی۔ اس کی باتوں سے مجھے معلوم ھوا تھا کہ اس کے حالات کچھ زیادہ اچجے نھی تھے ۔باپ نے ماں کو طلاق دے دی اور یہ گھر کا خرچ چلانے کے لیے جاب کر رھی تھی ایک چھوٹا بھائی سکول جاتا تھا۔ میں نے اس کا ھاتھ ہکڑ کر اپنے دونوں ھاتھوں میں دبایا اور اس سے کہا کہ شبنم چاھے کچھ بھی ھو جائے میں تمیں دھوکا نھی دوں گا اور جہاں تک ھو سکا تمھاری مدد کروں گا۔ وہ بولی ساحر مجھے آپ کی مدد نھی چاھیے بس، آپ مجھے دھوکا نا دینا اور ایک اچھا دوست بن کر رھنا میرے لیے اتنا ھے کافی ھے۔ میں نے صوفے پر بیٹھے بیٹھے اسے اپنے سینے سے لگا کر ایک بار پھر اسے کسنگ شروع کر دیا میں نے اس تھوڑا، اٹھا کر اپنی گود میں گھٹنے پر بیٹھا لیا اوراسے پیار کرنے لگا اور ساتھ ساتھ اس کے مموں کے ساتھ باری باری کھیل رھا تھا۔ پھر میں نے اس کے گریبان سے ھی ایک ھاتھ اندر کر کے ممے کو مسلنا شروع کر دیا تو کبھی اس کے نپل کو دو انگلیوں میں پکڑ کر مسلتا۔ ۔ میرے اس طرح کرنے سے اس کو جیسے نشہ سا ھو رھا تھا۔ اب میں نے اس کی قمیض کو اوپر اٹھایا اور برا کے نیچے سے اس کے کو دبا رھا تھا تو کبھی مسل رھا تھا۔ وہ چونکہ میری گود میں تھی تو میر لن بھی نیچے سے ٹائیٹ ھو کر اس کی ٹانگ کو ٹچ کر رھا تھا۔ میں نے اسے تھوڑا سا گھومایا اور اس کا سینہ اپنے سامنے کیا۔ اب اس کا ممہ مجھے نظر آ رھا تھا جو پھلے ھو چھوٹا تھا اور برا کے نیچے پھنس کر مزید چھوٹا لگ رھا تھا۔ میں نے برا کو، اوپر کر ک ممے کو، آزاد کیا، اور اپنا منہ اس کے نپل پر رکھ دیا ۔ وہ ایسے تڑپی جیسے اسے کرنٹ لگا ھو۔ میں نے دونوں ھاتھوں سے اسے کور کیا، اور ممے کو چوسنے کی سپیڈ بڑھا دی۔ اس کا پورا ممہ میرے منہ میں آ، رھا تھا۔ میں کھبی اس کے نپل کو چوستے ھوئے کھینچتا اور ایک دم چھوڑ دیتا تو وہ اور مست ھو جاتی ۔ میں نے اس کی قمیض کو دونوں ھاتھوں سے پکڑ کر اٹھا اور اتارنا شروع کر دی ۔ اس نے بغیر مزاحمت کے یض اتر دی ۔یں نے اس کی برا کو بھی اوپر کر کے بغیر ھک کھولے اوپر کھینچ ہع اتار دیا اب اس کی چھاتھی بلکل ننگی یرے سامنے تھی۔
میں نے اپنا اسے پورا گھوما کر اس کو اپنے گھٹنوں پر بیٹھایا اب اس کی چھاتھی مکلم طور پر میرے منہ کے پاس تھی۔یں نے ایک بر پھر اپنا منہ اس کے ممے ہر رکھا، اور چوسنا شروع کر دیا اب وہ فل مستی میں تھی اور میرے سر کو پیچھے سے دبا کر اپنے ممے کو پورا یرے نہ میں گھسیڑنے کی کوشش کرتی تھی۔ کیونکہ وہ کینچی بنا کر میرے گھٹنوں ہر بیٹھی ھوئی تھی یعنی ایک ٹانگ ایک طرف اور ایک دوسری طرف تو اس کی چوت بلکل میرے لن کے اور آ گئی تھی اور نیچے سے میرا شیر اس کی شکوار پھاڑ کر اندر جانے کے لیے ٹکریں مار رھا تھا۔میں نے ایسے بیٹھے بیٹھے دونوں ھاتھ اس کی ہپ کے نیچے رکھ کر اس آٹھایا اور کھڑا ھو گیا۔ لیکن اس کے دائیاں ممہ اب بھی میرے منہ میں تھا، اور وہ ہورے جوش میں میری ساتھ چمٹی ھوئی تھی۔ میں اسے آٹھائے اٹھائے بیڈ کے ہاس آیا، اور اسے بیڈ ہر لیٹا دیا۔ اب میں بھی اس کے اور آ کر لیٹ گیا اور اسے گردن پر پیار کرنے لگا ۔ پھر گردن سے زابان پھیرتے ھوئے میں اس کے مموں کے ہاس، آتا، اور چوسنے لگ جاتا پھر کبھی مین اس کے مموں کے اس پاس زبان پھیرتا ۔ زطان پھیرتء پھیرت میں زبان سے ایک لائین لگاتے ھوئے اس کی ناف کے پاس آ گیا ۔ میری زبان اس کی شلوار کے نالے تک جاتی تو میں پھر سے اوپر مموں ہر آجاتا اور انھیں چوست اور زبان سے لائین بناتے نیچے شلوار تک جاتا۔ لیکن میں نے شلوار اتارنے یا چھیڑنے کی کوشش نھی کی۔ میں چاہ رھا تھا
Comments
Post a Comment