ڈاکٹر ہما قسط 94,95
بما - کیوں - کیا ہوا۔
رشید یہ دیکھیں کتنے بال بڑھے ہوئے ہیں ۔ ایسے ہی آپ کی ویکسنگ بھی ہونے والی ہوئی ہے ۔
ہما - ہاں - کروں گی بس ٹائم ہی نہیں مل ربا ...
رشید ہما کی گال پر ہلکے سے کاٹ کر بولا کیوں کیا آج کل زمان صاحب اور فرخ صاحب زیاده بی چود رہیں ہیں کیا
ہما نے رشید کے سینے پر مگا مارا بے شرم - ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔
رشید نے اپنی جیب سے ایک کارڈ نکالا اور ہما کو دیا۔ یہ رکھ لیں ۔۔
ہما نے اسے پڑھا ۔
v.i.p beauty parlor and massage centre
ہما ۔. یہ کیا ہے ۔
رشید ہنسا رنڈیوں کا اده - بابابابابابابا....
بما - کیا مطلب ہے تمھارا...
رشید ہنسا۔ ارے میڈم جی - یہ بیوٹی پارلر بے بس اور کیا ۔ اور بہت زبردست ہے ۔ آپ یہاں سے میک اپ اور ویکسنگ و غیرہ کروائیے گا۔۔ بہت اچھا لگے گا آپ کو یقین کریں ۔ یہ کہتے ہوئے رشید نے ہما سے کارڈ لیا۔ اور ہاتھ ہما کے گریبان میں ڈال کر اسکی برا کے اندر رکھ دیا ہما اسکی اس حرکت پر مسکرا دی ...
رشید بھی مسکرایا اور اپنی جگہ سے
اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے اپنے
اپنا لوڑا
باہر نکال لیا - جو کہ اکڑا ہوا تھا ...
پاجامے کی زپ کھولی.
اور
بما .. یہ کیا کر رہے ہو ۔۔
رشید بنسا.. آپ ہی کہہ رہی ہو نا نیچے
چلنے کو ۔ تو مجھے لوڑے سے پکڑ
کر نیچے لے چلو کھینچتی ہوئی -
بما - لیکن باہر کیسے -رشید دیکھ لو تمهاری . مرضی ہے . ہے۔ تمهاری خاطر میں نے تمہارے کپڑے نہیں اترواے - ورنہ میں نے تم کو ننگی کر کے نیچے لے کر جانا تھا ۔
بما اسکی بات پر حیران ہوئی .. پھر اس نے رشید کا لوڑا اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اسے باہر کو لے جانے لگی - بابر اوپر کی منزل پر تو کوئی نہیں تھا - مگر نچلے فلور پر 4 کمروں میں مریض تھے ۔ لیکن اس وقت انکو بھی باہر نہیں ہونا چاہیے تھا - مگر خطرہ تو تھا بی نا - بهر حال رشید کی فرمائش کے مطابق ہما نے اسکو لوڑے کو پکڑ کر
آگے آگے چلنا شروع کر دیا اور رشید اسکے پیچھے پیچھے تھا ... نچلے فلور سے گزرتے ہوئے ہما کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا .. کہ کہیں کوئی دیکھ ہی نہ لے ۔ مگر اسکی بچت ہوگئی . اور وہ بنا کسی کی نظروں میں آئے ہوئے آفس میں آگئی - اندر داخل ہوئی تو زیب اسکے ہاتھ میں رشید کو لوڑا دیکھ کر ہنسنے لگی ...
زیب ارے ہما جی - آپ تو بہت چدکر ہو - رشید کے لوڑے کو باہر سے نکال کے چلی آرہی ہو ۔
ہما نے اسکا لوڑا ہاتھ سے چھوڑا اور میری کوئی نہیں - لو اب آگیا - ہو چدوا لو اپنی پھدی اس سے ۔۔ - omega * t ^ j * w ^ j * w ^ j * w ;w^ j w^ j w^ j approx- overline w^ j x
زیب ہنسنے لگی ... بابابابابابها - ٹھیک بے ٹھیک ہے - مگر میں اکیلی نہیں چدواؤں گی اس سے ۔ آپکو بھی میرے ساتھ اس سے چدوانا ہو گا۔ دونوں خوب مزے لیں گے ۔ جیسے ڈاکٹر زمان کے ساتھ لیتے ہیں دونوں ۔۔
اسکی بات سن کر ہما نے . زیب کو گھورا - 1 اور رشید جلدی سے کی طرف
دیکھنے لگی ۔ اسے یہ تو پتہ ہی تھا کہ وہ بھی پہلے سے ہی جانتا ہے اسکے اور زمان کے بارے میں - رشید صرف مسکرادیا.... وہ اب زیب کے کے قریب ہی کھڑا تها - اسکا صوفی لند ابهى بھی اسکے پاجامے سے باہر لہرا رہاتھا زیب نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اسکے کالے لوڑے کو پکڑ لیا۔ اور اس پر ہاتھ پھیرنے لگی ۔۔
زيب بما جي - لوڑا تو آپ نے تگڑا پسند کیا ہے اپنے لیے ۔
بما - شٹ اپ - زیادہ بکواس نہیں کرو
زیب ہنسنے لگی ۔ ہاں بھئی - آپ کو مریل لوڑے کہاں پسند آتے ہیں ۔ یہ کہتے ہوئے زیب نے ہما کو آنکھ ماردی - اور ہما بھی اسکا اشارہ سمجه گئی کہ وہ وکرم کی بات کر رہی ہے. بما اس بات پر مسکرا دی - زیب نے رشید کے لوڑے کو چومنا شروع کر دیا۔ اسکے موٹے ٹوپے کو چومنے لگی ۔ اس پر اپنی زبان پھیرنی شروع کردی - دھیرے دھیرے نیچے سے اوپر تک چاٹنے لگی ۔۔ زیب کو بہت اچھا لگ رہا تھا ۔ رشید کے موٹے
لوڑے کو اپنے ہاتھ میں آگے پیچھے کرتی ہوئی وہ اسکو چاٹ رہی تھی - پھر اس نے اپنا منہ کھول کر رشید کا لوڑا اپنے منہ کے اندر لے لیا ۔ اور اسے آہستہ آہستہ چوسنے لگی ۔۔ اپنے سر کے آگے پیچھے کرتی ہوئی ۔ رشید کا لوڑا اسکے منہ میں اندر باہر ہو رہا تھا .. منہ میں اندر باہر کرتی ہوئی وہ اسکے لوڑے کے نچلے حصے پر اپنی زبان بھی پھیر رہی تھی جس سے رشید کو اور بھی لطف آرہا تھا اپنا لوڑا چسوانے میں ۔
رشید نے اپنے دونوں ہاتھوں میں زیب
کا سر پکڑا اور اپنا لوڑا اسکے منہ میں پورا داخل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ اپنے لوڑے کو اندر کو پش کر رباتها .. اور زیب کے چہرے کو اپنے سامنے رکھا ہوا تھا - اسکا لوڑا زیب کے حلق سے ٹکرانے لگا۔ زیب کے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے ۔ اسکی انکھوں سے پانی کے قطرے نکلنے لگے - مگر رشید رُکا نہیں - اور اپنا لوڑا پورے کا پورا زیب کے حلق میں ڈال دیا ہما کو تو خود کو گھبراہٹ ہونے لگی یہ سب دیکھ کر - جیسے وہ موٹا لوڑا اسکے اپنے حلق میں جا رہا بو - زیب کی آنکھوں سے آنسو نکل
-
کچھ دیر تک ایسے ہی اپنا لوڑا اس سے چسوانے کے بعد رشید نے لوڑا اسکے منہ سے نکالا ۔
زیب ہانپتے ہوئے بولی ۔ تم نے تو مجھے مار ہی دینا تھا آج ۔ ایسے لوڑا منہ میں ڈالتے ہیں کیا۔ ۔
رشيد بنسا بابابابابابابا .. بس آپکے حلق میں لوڑا گیا تو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے چوت میں ہی ڈال دیا ہے ۔ اس لیے ایسے ہی چودنا شروع کر دیابس
زیب بہت ظالم بو تم ...
رشيد بنسا اور ہما کی طرف آگیا۔ اسے اپنی بانہوں میں بھر کر چومنے لگا۔ ہما بھی اسکا ساتھ دے رہی تھی دوسری طرف زیب نے اپنے کپڑے اتارنے شروع کردیئے - اور جلدی سے ننگی ہو گئی - اور خود بھی ہما کے پیچھے آگئی ۔ اپنے ہاتھ ہما کی چھاتیوں پر لے جاکر انکو دباتی ہوئی پیچھے سے اسکی گردن کو چومنے لگی ۔ آگے سے رشید ہما کے ہونٹوں
کو چوم رہا تھا - اور اسکی زبان بھی ہما کے منہ میں داخل ہو رہی تھی جسے وہ بار بار چوس رہی تهی پیچھے کھڑے ہوئے ہی زیب نے ہما کا پاجامہ نیچے کھینچ دیا۔ ہما نے کوئی مزاحمت نہیں کی - اسکا نچلا جسم ننگا ہو گیا۔۔
زیب نے ہما کو پیچے لے جا کر کاؤچ پر لٹا دیا.... اور اسکی ٹانگیں کھول دیں رشید اپنا لوڑا اپنی مٹھی میں لے کر اسے آگے پیچھے کرتا ہوا ہما کی ٹانگوں کے بیچ میں آگیا اور اپنا لنڈ ہما کی چوت پر رگڑنے لگا۔ ہما کی چوت
تو پہلے ہی گیلی ہو رہی تھی - اسکی آنکھیں بند ہونے لگیں ۔۔ زیب نے اپنے ہاتھ سے رشید کا لوڑا پکڑ کر ہما کی چوت کے سوراخ پر رکھا - رشید نے آگے کو پش کرنا شروع کر دیا۔ رشید کا لوڑا ہما کی چوت کے اندر اترنے لگا۔ ہما نے تڑپ کر زیب کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ کر اسے چومنے لگی ... پیچھے سے رشید نے اپنا لوڑا ہما کی چوت میں پورا ڈال دیا ہوا تھا - اور اب اسے آہستہ آہستہ اندر باہر کرنے لگا۔ اپنے لوڑے سے ہما کی چوت چودنے لگا۔ ہما بھی اسکا ساتھ دے رہی تھی ۔
رشید نے ہما کی دونوں ٹانگوں کو اپنے کاندھوں پر رکھا اور دھنا دھن اپنا لوڑا ہما کی چوت میں اندر باہر کرنے لگا۔
زیب ہما کو ہونٹوں کو چومتی ہوئی بولى - أف كتنا مزہ آرہا ہے نا ڈاکٹر بما آپ کو رشید سے چدتے ہوئے دیکھ کر
کچھ ہی دیر میں ہما کی چوت نے پائی چهوڑ دیا مگر رشید کا لوڑا ویسے ہی اکڑا ہوا تھا - رشید نے اب ہما کی چوت سے اپنا لنڈ باہر نکالا اور زیب
کو کاؤچ پر جھکا دیا۔ خود پیچھے آکر
اپنا لوڑا پیچھے سے زیب کی چوت کے اندر ڈال دیا اور اسکی کمر کو پکڑ کر اسے چودنے لگا۔ زیب بھی اپنی گانڈ کو آگے پیچھے کو بلاتی ہوئی رشید سے اپنی چوت مروا رہی تھی . بما هي أنه أنه ك كر انکے قریب آئی اور زیب کی ننگی کمر پر اپنا ہاتھ پھیرنے لگی - اسکا ہاتھ نیچے تک جاتا اور کبھی کبھی وہ رشید کے لوڑے کو چھو بھی لیتی .. کبھی اپنی انگلی سے زیب کی گانڈ کے سوراخ کو سہلانے لگتی
پوری رات .. صبح 6 بجے تک رشید
نے ہما اور زیب کو چودا - تینوں خوب مزے لیتے رہے رشید نے ہما اور زیب کی چوت کے ساتھ ساتھ انکی گانڈ کے بھی مزے لیے - اور صبح ہوئی تو ہما اپنے شوہر کے ساتھ واپس اپنے گھر آگئی - انور کے دفتر جانے کے بعد اس نے اپنے پرس میں سے رشید کا دیا ہوا کارڈ نکالا - اور اسے غور سے پڑھنے اور اسکے بارے میں سوچنے لگی
نیلوفر بما کی اچھی دوست بن چکی تھی - دونوں ہی ایک دوسری کی رازدار تھیں - ایکدوسری سے اپنی پرائیویٹ باتیں بھی شیئر کرنے لگیں
تھیں - فون پر بھی ایکدوسری کے ساتھ کافی دیر تک باتیں کرتی رہتیں -
ایک روز بما گھر پر تھی جب نیلوفر کا اسے فون آیا۔ وہ بہت پریشان لگ رہی تهى .
نيلوفر - بما - تم کہاں پر ہو ۔ مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے ۔
بما - خيريت تو ہے نا .. تم بہت گهبرائی ہوئی سی لگ رہی ہو .. کیا
ہوا۔
نیلوفر میں تم کو فون پر نہیں بتا سکتی
مجھے تم سے فوری ملنا ہے ۔
بما - ٹھیک ہے تم میرے گھر پر آجاؤ انور گھر پے نہیں ہے ۔
نیلوفر - اوکے میں ابھی آتی ہوں ۔
تھوڑی دیر میں نیلوفر ہما کے گھر اگئی - نیلوفر تهوڑی پریشان لگ رہی تهی -
بما اسے اپنے بیڈروم میں لے آئی ۔ اب
بتاؤ کیا بات ہے ۔
Comments
Post a Comment