ڈاکٹر ہما قسط 90,91
بینا اسکے کانچ کے بلکل قریب کھڑی تھی .. اسکے ہاتھوں کی دسترس میں .. اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اسے بینا کی گانڈ پر رکھ دیا اور اسکی گانڈ کو آہستہ آہستہ سہلانے لگا۔۔ بینا کی گانڈ پر اسے اسکے شارٹس کی زپ بھی محسوس ہو رہی تھی ۔ جو کہ نیچے تک جا رہی تھی - بینا کی ابھری ہوئی گانڈ کو سہلانے اور اس پر ہاتھ پھیرنے سے جمشید کو بہت لطف آرہا تھا .... کبھی وہ اسکی گانڈ کو دبانے لگتا ... اسکا ہاتھ نیچے کو سرکنے لگا۔ بینا کی گانڈ سے نیچے اسکی ننگی رانوں پر ...
اور انکو سہلانے لگا۔ ملائم چکنی رانوں پر جمشید کا ہاتھ پھسلتا جا رہا تھا - پھر اس نے ہمت کر کے اپنا ہاتھ بینا کی گانڈ پر سے اُٹھایا ۔ اور اسے بینا کے مموں پر رکھ دیا۔ بینا نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔ اور خود اسکے لوڑے کو ہی سہلاتی ربی - بینا نے تھوڑا سا آئل سیدھا جمشید کے لوڑے پر گرایا اور دوسرے ہاتھ سے اسکے لوڑے پر تیل کی مالش کرنے لگی .. أدهر جمشید آہستہ آہستہ اسکے مموں کو دبا رہا تھا ۔
بینا جمشید کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی
مسکرائی - سر - کیسا لگ رہا ہے ..
جمشيد .. مم مم مم مم مم مم مم . کہتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرکے رہ گیا۔
تبهى بينا بهی کاوچ پر چڑھ گئی .. اور جمشید کی ٹانگوں کے اوپر بیٹھ گئی ... اور اپنا ہاتھ اسکے سینے پر آگے پیچھے لے جاتی ہوئی اسکے سینے کو سہلانے لگی ۔ اس حالت میں یہ حرکت کرتے ہوئے جمشید کو اپنا لوڑا اسکی چوت سے ٹکراتا ہوا محسوس ہو رہا تھا
کچھ دیر کے بعد بینا اپنے گھٹنوں کے
بل کھڑی ہوئی ۔ اور جمشید کے آنکھوں میں دیکھتی ہوئی اپنی شارتس کی زپ کھولنے لگی - زپ کو نیچے لے جاتے ہوئے پیچھے تک لے گئی ۔ زپ کھلنے سے بینا کے شارٹس کے نچلے حصے پر ایک خلا سا بن گیا تھا جس سے بینا کی چوت ننگی ہوگئی تهی - مگر وه جمشید دیکھ نہیں سکتا تها -
اپنی زپ کھولنے کے بعد بينا دوباره سے نیچے بیٹھ گئی - اور اس بار ا اس
طرح آگے ہو کر بیٹھی تھی کہ اسکی چوت جمشید کے لوڑے سے ٹکرا رہی تھی - بینا نے اپنا ہاتھ جمشید کے لوڑے پر رکھ کر اسے اسکے پیٹ پر سیدھا کیا ۔ اور خود اپنی چوت کو اسکے لوڑے پر رکھ دیا اور چوت کو اسکے لوڑے پر رگڑنے لگی ۔ آگے پیچھے کو ہوتی ہوئی - اسکی چوت سے پانی رستا ہوا جمشید کے لوڑے پر لگنے لگا۔۔ بینا کی ، گرم گرم چوت کے اپنے لوڑے پر لگنے کی وجہ سے جمشید کو اپنا لوڑا جلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔ اسے لگ رہا تھا کہ جیسے کچھ ہی دیر میں بینا اپنی چوت کی
گرمی سے اسکا پانی نکال دے گی ... مگر جمشید بڑی مشکل سے خود کر کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا ... وہ بینا کی چودے بنا فارغ نہیں ہونا چاہتا تھا ۔ آج اسے ایک یونیورسٹی کی نوجوان لڑکی کو چودنے کا موقع مل رہا تھا اور وہ اس موقعے کو اپنے باتھ سے جانے دینا نہیں چاہتا تھا .. جمشید نے اپنے ہاتھ بڑھا کر بینا کے مموں پر رکھ دیئے اور انکو دبانے لگا۔۔ بینا نے بھی آگے کو ہو کر اپنے ممے اسکے ہاتھوں میں دے دیئے - جمشید نے اسکی شرٹ کے بٹن کھولنے چاہے ۔ مگر بینا نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا اور
مسکرا کر بولی - نہ نہ ... دیکھنے کو کچھ نہیں ملے گا۔ باقی سب کچھ ملے گاسر
بینا سائیڈ پر پڑی ہوئی ٹیبل پر جهکی ... اسکا دراز کھولا اور اس میں سے ایک کنڈوم نکال کر سیدھی ہو کر جمشید کی رانوں پر بیٹھ گئی .. بینا نے کنڈوم کے پیکت کو اپنے دانتوں سے کھولا - اور اس میں سے کنڈوم نکال کر جمشید کے لوڑے پر چڑھا دیا پھر بینا اوپر کو اٹھی - جمشید کو لوڑا پکڑ کو سیدھا کیا ... اپنی چوت کے سوراخ کو اسکے لوڑے کی ٹوپی پر رکھ دیا۔
اور دھیرے دھیرے نیچے کو بیٹھنے لگی ... اسکی چوت جمشید کے لوڑے کو نگلنے لگی - جمشید کا پورا لوڑا اسکی چوت میں اتر گیا اور ساتھ ہی جمشید کے منہ سے ایک لمبی سسکاری نکل گئی.
جمشید نے بینا کے مموں پر اپنا ہاتھ رکھا - اور نیچے سے اوپر کی طرف
دھکے لگانے لگا۔ اسکی چوت کو چودنے کے لیے -- بینا نے بھی آہستہ آہستہ اوپر سے نیچے کی طرف حرکت کرنی شروع کر دی . وہ بہت بی آرام
آرام سے اوپر نیچے کو ہو رہی تھی ...جمشید کا لوڑا اپنی چوت میں اندر باہر لیتی ہوئی اپنی چوت خود بی جمشید کے لوڑے سے چدوا رہی تھی - بینا کی چوت بھی پانی چھوڑ رہی تهی ... دوسرا جمشید کے لوڑے پر چڑھا ہوا کنڈوم بھی کافی چکنا تها - - جسکی وجہ سے لوڑا بہت ہی آرام کے ساتھ بینا کی چوت میں اندر باہر ہو رہا تھا ... بینا نے اپنے دونوں ہاتھوں کو جمشید کے سینے پر رکھا ۔ اور پیچھے سے اپنی گانڈ کو اوپر نیچے کو کرتی ہوئی جمشید کے لوڑے کو اپنی چوت میں اندر باہر لینے لگی ۔
تھوڑی دیر تک جمشید ایسے ہی نیچے لیٹ کر اپنا لوڑا بینا کی چوت میں ڈالے ہوئے اسکی چوت کی چدائی کا مزہ لیتا رہا ۔ پھر اس نے بینا کو نیچے آنے کا اشاره کیا بینا مسکرا کر جمشید کے اوپر سے اٹھ گئی - تو جمشید بھی کاوچ پر اٹھ کر بیٹھ گیا اور اپنی جگہ بینا کے لیے خالی کر دی - بینا کاؤچ پر لیٹ گئی - اور جمشید نے بینا کی ٹانگوں کے درمیان آگیا اور جھک کر اپنا لوڑا بینا کی چوت پر رکھا ... اور اسے بینا کی چوت میں اتارنے لگا۔۔ اپنے دونوں ہاتھ بینا کی سائیڈوں پر کاؤچ پر رکھے - اور جھک کر بینا کو
چودنے لگا۔ اپنے لوڑے کو اسکی چوت میں اندر باہر کرتے ہوئے ... نیچے کو جھکتے ہوئے ہے اسے اسے اپنے ہونٹ بینا کے پتلے پتلے گلابی ہونٹوں پر رکھے اور انکو چومنے لگا۔ بینا بھی اسکا ساتھ دینے لگی ... بینا نے بھی اپنے دونوں بازو جمشید کے گلے میں ڈالے اور اسکے ہونٹوں کو اپنے منہ پر دبا لیا۔ دونوں ایکدوسرے کو کسنگ کرتے ہوئے چدائی کر رہے تھے
جمشید کو آج پتہ چل رہا تھا کہ ایک ٹائٹ چوت کیسی ہوتی ہے ۔ بینا کی
ثانٹ چوت اسکے لوڑے کو دبا رہی تهی - نچوڑ رہی تھی - جیسے ہی
جمشید اپنے لوڑے کو پیچھے کو لائے لگتا تو بینا اپنی چوت کو دبا لیتی -- پھر سانس لینے کے بعد جب دوبارہ لوڑا وہ اندر لانے لگتا تو ایک بار پھر سے اپنی چوت کو دباتی -- جس سے جمشید کو محسوس ہوتا کہ وہ واقعی ہی کسی ثانت چوت کو چود رہا ہے ...
جمشید اس عمر میں ایک کم عمر کی لڑکی کو چود رہا تھا - اسکی ٹانٹ چوت کی گرمی کو زیادہ دیر تک
برداشت نہیں کر سکا - اور آخر کار اس کو لوڑے نے بینا کی چوت کے اندر - کنڈوم میں ہی اپنا پانی چھوڑ دیا۔ اور جمشید نڈھال ہو کر لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ بینا اسکے نیچے سے نکلی - اپنی شارٹس کی زپ بند کی - اور پھر باہر نکل گئی -- تھوڑی دیر تک اپنی سانسیں بحال کرنے کے بعد جمشید بھی اٹھ کر اٹیچ باتھ روم میں گیا خود کو صاف کیا۔ ناول سے اپنے جسم سے تیل صاف کیا اور پھر کپڑے پہن کر باہر نکل آیا
تھوڑی دیر کے بعد وہ دوبارہ سے میڈم
شائستہ کے دفتر میں اسکے سامنے بیٹھا ہوا تھا - اسکے چہرے پر تھوڑی سی شرمایت تھی -
شائستہ میڈم بولی - سر - کیسا لگا پھر آپ کو ۔
جمشید نظریں چراتے ہوئے - اچھا تھا میدم -
شائستہ ... تو اب آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں
جمشید مسکر اکر - جی پہلے سے کافی
ریلیکس محسوس کر رہا ہوں ... اچھا مجھے کتنی فیس ہے کرنا ہے ۔
شائستہ مسکرائی - سر صرف
20000 اور اگر آپ بینا کو کچھ تپ
دینا چاہیں تو وہ آپ کی مرضی -
جمشید نے مسکرا کر اپنے پرس سے 5000 کے چار نوٹ نکال کر شائستہ
کے سامنے ٹیبل پر رکھ دیئے - یہ رہی
آپ کی فیس اور پھر 5000 کے دو
نوٹ اور نکال کر ٹیبل پر رکھتے ہوئے
بولا - اور یہ رہی بینا کی ٹپ -
شائستہ مسکرانی - بہت بہت شکریہ
سر امید ہے کہ آپ دوبارہ بھی
ضرور آئیں گے - اور ہمیں خدمت کا
موقع دیں گے ۔
جمشید مسکرایا ضرور - ضرور
اور مسکراتا ہوا مساج سینٹر سے باہر
نکل گیا۔
رات کی ڈیوٹی پر ہما اور زیب دونوں
بی موجود تھیں - زمان چھٹی پر تھا -
تو دونوں کو ہی آج کافی دنوں کے بعد
انجوائے کرنے کا موقع مل گیا۔ کام
سے فارغ ہو کر زیب ہما کے پاس ہی
Comments
Post a Comment