ڈاکٹر ہما قسط 88,89
بائے سر میرا نام بینا ہے ۔
جمشید بائے - آئی ایم جمشید
جمشید بینا کو ہی دیکھے جا رہا تھا ... جو کہ اس سے عمر میں آدھے سے بھی کم تھی - اور خوبصورتی میں ہے مثال پڑھی لکھی .. اور اچھے گھرانے کی لگ رہی تھی ۔ اس لڑکی کے ہاتھوں سے مساج کروانے کا سوچ سوچ کر بی جمشید کا لوڑا اکڑتا جا رہا تها - بينا تيبل کی . طرف جانے کے کے لیے مڑی تو جمشید کی نظر اسکی گانڈ پر
پڑی - گانڈ کے درمیان میں میں اسے زپ نظر آئی .. وہ سمجھ گیا کہ یہ زپ آگے سے ہی پیچھے تک آرہی ہے. اس پر وہ تھوڑا حیران بھی ہوا
بینا مسکرائی سر آئیں نا ٹیبل پر ... مساج نہیں کروائیں گے ۔ یا بس یونہی دیکھتے ہی رہیں گے ۔
جمشید چونک کر جیسے ہوش میں آیا۔۔ اور جلدی سے صوفے پر سے اٹھا۔۔ اور کاؤچ پر جا کر لیٹ گیا۔ پیٹ کے بل
بینا بھی جمشید کے قریب آگئی ۔ اپنے باتھ اس نے جمشید کی ننگی کمر پر رکھے - اور آہستہ آہستہ اسکی کمر کو سہلانے لگی ۔۔
جمشید... آپ کیا کرتی ہو
بینا مسکرائی - میں یونیورسٹی میں پڑھتی ہوں ۔ اور ماسٹرز کر رہی ہوں
بینا کی بات سن کر جمشید چونک گیا.
اور اپنا سر ٹیبل سے اٹھا کر پیچھے مڑ کر اسے دیکھنے لگا۔ بینا مسکرانی .
ارے سر آپ اتنا حیران کیوں ہو رہے ہیں
جمشید - اگر آپ پڑھ رہی ہیں تو پھر یہ سب؟؟؟
بینا جمشید کی کمر کو سہلاتی ہوئی آنکه مارتی ہوئی بولی - خدمت خلق بی ہے نا یہ بھی تو۔
جمشید بھی مسکرایا۔ ویسے آج تک صرف سنا ہی تھا کہ یونیورسٹی اور
کالج کی لڑکیاں یہ سب کرتی ہیں ۔ پر
آج دیکھ بھی لیا..
بينا مسکرانی .. صرف یونیورسٹی اور کالج کی ہی نہیں بلکہ سکولز کی لڑکیاں بھی سر........
جمشید یہ سن کر حیران رہ گیا۔
بینا اپنا ہاتھ اسکی کمر پر پھیر رہی تھی اوپر سے نیچے تک لے جاتی ۔ اور پھر نیچے سے اوپر کی طرف بینا کے نرم نرم ہاتھوں کے لمس سے جمشید کی حالت خراب ہو رہی تھی ... اسے بے حد اچھا لگ رہا تھا . اسکی
آنکھیں بند ہوئی جا رہی تھیں - اور دل چاہ رہا تھا کہ بینا ایسے ہی اسکے جسم کو سہلاتی رہے ۔
بينا - سر .. کیسا لگ رہا ہے آپ کو ۔
جمشید آہستہ سے بولا مم مم مم مم مم مم .... اچھا بہت بی اچها ...
بینا جمشید کے کندھوں کو گردن کے قریب سے آہستہ آہستہ دباتی ہوئی بولی سر ابھی کچه بی دیر میں آپ کو اور بھی اچھا لگے گا آئی پرامس
جمشید کی انکھیں بند ہو رہی تھیں - بینا نے قریب کہ ہی ٹیبل سے ایک آئل کی بوتل أثهائي - اور جمشید کی کمر پر تیل گرانے لگی ۔ اور دوسرے ہاتھ سے اسے اسکی کمر پر پھیلانا شروع کردیا اچھے سے تیل گرا کر اب بینا نے اپنے دونوں ہاتھوں کو جمشید کی کمر پر رکھا - اور دونوں ہاتھوں سے اسکی کمر پر تیل ملنے لگی - کمر کو سہلاتے ہوئے ۔ اسکے ہاتھ پھسلتے ہوئے کبھی اوپر تک جاتے اور کبھی نیچے تک آجائے جمشید کی نیکر تک جمشید تو خود کو ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کر رہا تھا - آہستہ آہستہ بینا
کے باتھ جمشید کے شارٹس میں داخل ہونے لگے ۔ وہ نیچے کے آتی تو باتھ کو تھوڑا سا جمشید کے نیکر کے اندر لے جاتی ۔ اور اسکے چوتڑوں کو سہلا دیتی - جب پہلی بار بینا نے اپنا باته اندر ڈالا تو جمشید کے پورے جسم اور اسکے لوڑے میں جھرجھری سی دوڑ گئی .... اور پھر تو یہ ہر بار کا ہی معمول بن گیا۔ بینا کا ہاتھ ہر بار پہلے سے زیادہ اندر کو جاتا ۔ اور جمشید کی گانڈ کو سہلاتا -
جمشید بهی خاموشی سے لیٹا ہوا اس سب کے مزے لے رہا تھا ۔ لیکناسکے لیے پرابلم یہ تھی کہ اسکے نیچے دبا ہوا اسکا اکڑا ہوا لوڑا اسے تنگ کر رہا تھا ... بینا کا ہاتھ اب اندر جا کر اسکی گانڈ کے دونوں حصوں کو اپنے ہاتھوں کے مٹھی میں لیا اور زور سے دیا دیا۔۔۔
جمشید کے منہ سے آہ نکل گئی ۔
بینا جمشید کے اوپر جھکی - اور اسکے کان کے قریب اپنے ہونٹ لاکر سرگوشی کی - کیسا لگ رہا ہے سر
جمشید بہت اچها .. أف ف ف ف ف
بینا کے ہاتھ اب کی بار جمشید کے نیکر کے اندر اسکی گانڈ پر گئے تو اس بار اس نے اپنے ہاتھوں کو باہر نہیں نکالا اور اہستہ اہستہ جمشید کی گانڈ کو سہلانے اور دبانے لگی ۔ اپنی انگلیوں سے اسکے چوتڑوں کو کھجانے لگی - پھر اپنی ایک انگلی کو جمشید کی گانڈ کی دراڑ میں ڈالا - اور اسکی گانڈ کے سوراخ کو چھونے لگی جیسے ہی بینا کی انگلی جمشید کی
گانڈ کے سوراخ کو چھوئی تو جمشید نے خود بخود ہی اپنے چوتڑوں کو سکیڑ لیا اور بینا کی انگلی کو اپنے چوتڑوں کے درمیان دبا لیا۔ ایک تیز مسکاری کے ساتھ ...
بینا ایک بار پھر جمشید کے کان میں بولی - میری انگلی تو چھوڑیں سر
جمشید نے اپنی گانڈ کو تھوڑا ڈھیلا کر دیا اور بینا اپنی انگلی کو جمشید کی گانڈ کی دراڑ میں پھیرنے لگی ... جمشید کو ایسا مزہ مل رہا تھا جو کہ آج تک اسے نہیں ملا تھا - اسکے ہاتھوں
کو تیل لگا ہوا تھا - اور انگلیوں پر بھی
جسکی وجہ سے اسکی انگلی جمشید کی گانڈ کی دراز میں پھسلتی ہوئی جارہی تھی ۔ اور جمشید کو ایک الگ ہی .. اور بلکل نیا مزه مل رہا تها .
بینا نے انڈرویئر کے اندر ہی اپنا ہاتھ اور آگے کو سرکایا اور اپنے ہاتھوں کے انگوٹھوں کو اسکی رانوں کے درمیانی حصے میں لے جانے لگی ۔ اور جلد ہی اسکے انگوٹھے جمشید کے انڈوں سے تکرانے لگے - آه ۰ ۰ ۰ ۰ به بینا نے انکو سہلانا شروع کر دیا۔
کو تیل لگا ہوا تھا - اور انگلیوں پر بھی جسکی وجہ سے اسکی انگلی جمشید کی گانڈ کی دراز میں پھسلتی ہوئی جارہی تھی ۔ اور جمشید کو ایک الگ بی - اور بلکل نیا مزه مل رہا تها .
بینا نے انڈرویئر کے اندر ہی اپنا ہاتھ اور آگے کو سرکایا اور اپنے ہاتھوں کے انگوٹھوں کو اسکی رانوں کے درمیانی حصے میں لے جانے لگی ... اور جلد ہی اسکے انگوٹھے جمشید کے انڈوں سے ٹکرانے لگے - آه ۰ ۰ ۰ ۰ به بینا نے انکو سہلانا شروع کر دیا۔
بينا سر - آئل سے آپ کا انڈرویئر خراب ہورہا ہے ۔۔
جمشید تو؟؟
بینا - تو اسے تھوڑا نیچے کو سرکا دوں اگر آپ کو بُرا نہ لگے تو ...
جمشید جیسے آپ کو ٹھیک لگے ۔۔
بینا - تهینکس سر کہتے ہوئے اس نے جمشید کو انڈرویئر نیچے سرکا دیا... اسکی رانوں پر .. اور پھر نیچے اسکی
ٹانگوں سے بھی نکال دیا.. اب جمشید اس مساج سینٹر میں اس جوان لڑکی کے سامنے کاؤچ پر بلکل ننگا لیتا ہوا تھا ۔ اور وہ اسکے جسم کو سہلا رہی تھی - جمشید کو شرم بھی محسوس ہو رہی تھی ۔ اس لیے وہ بینا کی طرف بلکل بھی نہیں دیکھ رہا تھا ...
بینا نے اب جمشید کی رانوں کی بیک سائیڈ پر تیل کی مالش شروع کر دی تھی ۔ اپنے ہاتھوں سے اس نے جمشید کی ٹانگوں کو تھوڑا پھیلایا.. اسکی رانوں کے درمیان جگہ بن گئی - جس میں سے جمشید کا لوڑا اور اسکے لئے
نظر آنے لگے ۔ جمشید کا اکڑا ہوا لوڑا
سیدھا کاؤچ کے ساتھ لگا ہوا تھا - بینا نے آئل کی بوتل اٹھائی - اور اس میں سے تیل جمشید کی گانڈ کی دراز میں گرانے لگی ۔ جو کہ بہتا ہوا نیچے کو جانے لگا۔ جمشید کے ٹٹوں پر - بینا نے اپنا ہاتھ اسکے ٹٹوں پر رکھا اور انکو سہلانے لگی ۔ ان پر تیل ملنے لگی - اسی ہاتھ کو نیچے لے جا کر اس نے جمشید کے لوڑے پر اپنی انگلی پھیرنے شروع کر دی - جمشید کا لذت کے مارے برا حال بو رباتها .. بنا اسکو سیدھا کیے ہوئے ہی بینا نے اسکے لوڑے کو اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔ اور اسکو
سہلانے لگی - دوسرا ہاتھ اسکا جمشید کی گانڈ کو سہلا رہا تھا ۔ اور اس پر تيل مل رہا تها ...
تھوڑی دیر کے بعد بینا بولی .. سر سیدھے ہوجائیں گے کیا آپ ۔
جمشید اپنے اکڑے ہوئے لوڑے کی وجہ سے گھبرا رہا تھا - ن ن ن نہیں .. نہیں ۔ ایسے ہی ٹھیک ہے ۔
بینا مسکرائی - اس نے جمشید کا لوڑا اپنی مٹھی میں لے کر اسے زور سے دبایا اٹس نو پرابلم سر - اسے تو میں
پہلے ہی دیکھ چکی ہوں ۔ تو پھر اسکو چھپانے کا فائده ... ہی ہی ہی ہی ہی ہی بی --
جمشید نے کروٹ بدلی - اور سیدها ہوگیا۔ اسکا اکڑا ہوا لوڑا - کسی مینار کی طرح سیدھا کھڑا تھا - بینا اسے دیکھ کر مسکرانی ...
بینا نے جمشید کے سینے پر تیل ڈالا اور سینے کو ملنے لگی - جمشید کے سینے کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی ہوئی اسکے سینے پر تیل لگانے لگی ۔ اپنی انگلیوں سے جمشید کے نپلز کو
سہلانے لگی - اور ان پر تیل لگانے لگی - اسکا باتھ نیچے کو جاتا اور جمشید کی جھانٹوں تک ہو کر واپس آجاتا۔ آگے جمشید کا لوڑا بلکل اکڑ کر سیدھا کھڑا جھٹکے لے رہا تھا - مگر بینا اسکو ہاتھ نہیں لگا رہی تھی ... پھر اسکا ہاتھ جمشید کی رانوں کو سہلانے لگا۔ گھٹنوں کے پاس سے لے کر اسکے پیٹ تک ۔ اور رانوں کے اندرونی حصوں کو بھی ۔ جیسے جیسے بینا کا ہاتھ جمشید کے لوڑے کے قریب جاتا ۔ ویسے ویسے ہی اسکا لوڑا اور بھی اکڑنے لگتا ۔ مگر بینا بر بار اسکے لوڑے کو چھوے بنا ہی گزر
جاتی ...
تهوڑی دیر تک تو جمشید برداشت کرتا رہا - آخر جب اسکی برداشت ختم ہوئی تو اس نے بینا کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے لوڑے پر رکھ دیا۔ اسکی اس حرکت پر بینا مسکرا دی ۔ اور اس بار جمشید کے لوڑے کو اپنے ہاتھ میں لے کر سہلانے لگی ۔ اپنے تیل والے ہاتھ سے اسکے لوڑے کی مٹھ مارنے لگی ابستہ آہستہ اپنا ہاتھ اسکے لوڑے پر اوپر نیچے کرتی ہوئی -- جمشید کا برا حال ہونے لگا۔ اسکا لوڑا پھٹنے کے
قریب ہو رہا تھا -
Comments
Post a Comment