ڈاکٹر ہما قسط 71,72,73
مختلف سڑکوں پر سے گھومتی ہوئی ہماریب کے بتائے ہوئے ایڈریس پر پہنچی۔۔ ایک
بہت بڑا سا بنگہ تھا ایک بہت ہی ہوش کالونی میں ۔۔۔ گیٹ پر رک کر اس نے اپنی کار کا بارن بھایا تو چھوٹے گیٹ میں سے ایک باور دی سیکورٹی گارڈ نکل کر باہر آیا۔۔ ہما کی کار کے پاس آکر اس سے بولا۔۔
گارا جی میڈم آپ کو کسی سے ملتا ہے۔۔
ہا گیا۔۔ وہ مجھے اکرم صاحب سے ملنا ہے۔۔
گارا ۔۔ میڈم آپ کا نام ۔۔
آیا اکثر جھا۔
گارڈ۔۔ میڈم کیا آپ نے سیٹھ صاحب سے ملاقات کا ٹائم لیا تھا۔۔
ہا۔۔ گیا۔ تھی۔۔ دو زیب نے وکرم صاحب کے ساتھ ٹائم لے کیا تھا ملنے گا۔۔
زیب کا نام سن کر گا رہا جو آتا اور عجیب سے نظروں سے ہما کی طرف دیکھنے لگا۔۔ پھر اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکان پھیل گئی ۔۔۔ اور وہ دوبارہ بولا۔۔
گارا۔ میڈم کیا آپ اکثر ہیں ۔۔
ہما تھوڑا عجیب محسوس کرتی ہوئی۔۔ ہاں۔۔ میں ڈاکٹر ہوں۔۔ آپ و کرم صاحب کو
گارڈ نے ایک نظر ہما کے حلیے اور اسکے جسم پر ڈالی۔۔ اور پھر اپنے ہاتھ میں پکڑے
ہوئے فون پر اندر اطلاع دی۔ وکرم نے اسے اندر بھیجنے کا کہا۔۔
گارڈ۔۔ میڈم و کرم صاحب آپ کا ہی انتظار کر رہے ہیں۔ میں گیٹ کھولتا ہوں آپ
گاڑی اندر لے آئیں۔۔
جا گاڑی اندر لائی تو دیکھا کہ بہت بڑا سا گیران تھا۔۔ اور اسکے دونوں طرف بڑا ہے
گرامی لان تھا۔۔ 12 اس جگہ کی بناوٹ اور اسکی خوبصورتی سے بہت متاثر ہورہی تھی۔۔
ہما نے گاڑی ایک طرف لگائی اور کار سے اتری۔ اندر گیٹ پر ایک گارڈ اور بھی تھا۔۔
پہلے والا گارڈ دوسرے کو کچھ اتار ہا تھا۔۔ اور دونوں ہی آہستہ آہستہ نہیں رہے تھے۔۔
جیسے ہی ہما گاڑی سے اتری تو اپنی ساڑھی کو سنبھالنے گئی۔۔ ہمانے ان گارڈز کی طرف
دیکھا تو وہ اسکو ہی دیکھ رہے تھے۔۔ اتنے میں دوسرا گارڈ جلدی سے آگے بڑھا۔۔ اور جما
کو راستہ بتانے لگا۔ ۔ ہما اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی ۔۔ اندر کے گیٹ سے داخل ہو کر وہ ایک
بہت بڑے سے بال کمرے میں پہنچے۔۔ وہاں سے دو ہما کو لے کر ایک کمرے کے
دروازے پر آیا۔۔ دروازے پر دستک دی۔ اندر ہے۔۔ لیں۔۔ کی بھاری بھر کم آواز
آئی اور گارڈ نے ہما کو اندر جانے کو بولا جانے ایک نظر اس گارڈ پر ڈالی ۔ ہما
نے اسکی زیر لب مسکر بہت دیکھ لی۔۔ مگر خاموشی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئیبہت ہی خوبصورت نائیلز والا فرش۔۔ اے سی چل رہا تھا۔۔ بہت ہی خوبصورت اور بڑے بڑے صوفے لگے ہوئے تھے۔۔ اور وہیں ایک صوفے پر ایک بہت ہی بھاری بھر کم مشخص بیٹا ہوا تھا۔ یہ وہی و کرم ہے ۔۔ ہم نے سوچا۔۔ وکرم کو دیکھ کر اسے تھوڑی مایوسی ہوئی تھی۔۔ وہ کافی موٹا آدمی تھا۔۔ بھاری چہرہ بڑا پیٹ۔۔ باہر کو نکلا ہوا۔۔ سر کے بال تھوڑے اڑے ہوئے تھے۔۔ عمر کوئی 60 یا 65 سال ہو گی۔۔ چہرہ کلین شیو تھا ۔۔ ہما ایک ہی جگہ کھڑی ہوئی اسکا جائزہ لے رہی تھی۔۔ پھر ہما کو اسکی آواز سنائی دی۔
و کرم ۔۔ آئیں آئیں۔ ۔ ڈاکٹر ہما۔۔ زک کیوں گئی ہیں آپ۔۔
ہما اپنے خیالات سے باہر آئی۔۔ وکرم اپنی جگہ پر کھڑا ہو چکا ہو ا تھا ہما کا استقبال کرنے کے لیے۔۔ جیسے ہی ہمانے اسکی طرف قدم بڑھائے۔۔ تو و کرم نے بھی اپنا ہاتھ آگے
بڑھا دیا۔۔ اس سے ہاتھ ملانے کے لیے۔۔ وکرم کے قریب جا کر ہنما تھوڑی دیر کے لیے مجھجکی۔۔ اور پھر کچھ سوچ کر اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر و کرم کے بھاری بھر کم۔۔ مونے ہاتھ میں دے دیا۔۔ وکرم نے ہما کے نرم و نازک ہاتھ کو اپنے بھاری کھردرے ہاتھ میں لیا۔۔ اور اسکے ہاتھ کو آہستہ آہستہ ہلانے لگا۔۔ دباتے ہوئے۔۔ ہما اسکی آنکھوں میں ہی دیکھ رہی تھی۔۔
و کرم ۔۔ ڈاکٹر ہما۔۔ ویسے زیب نے آپ کی خوبصورتی کے بارے میں بہت جھوٹ بولا ہے میرے ہے۔
ہما گھیر اگر ک ک ک کی۔ کیا مطلب ۔۔۔
و کرم مسکرایا۔۔ اور ہما کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔۔ جتنا زیب نے بتایا۔۔ آپ تو اس سے کہیں زیادہ خوبصورت ہیں۔۔
ہما اس موٹے سے اپنی تعریف سن کر شرما گئی۔۔
و کرم ۔۔ ڈاکٹر ہما۔۔ آپ کا تو انگ انگ۔۔ اپنی خوبصورتی کی خود گواہی دے رہا ہے۔۔
میری آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے۔۔
ہماشر مارہی تھی۔۔ آہستہ سے اپنا ہاتھ وکرم کے ہاتھ سے چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی
وکرم نے اسے اپنے ساتھ ہی صوفے پر بٹھایا۔۔ اور اسکا ہاتھ چھوڑ دیا۔۔
و کرم ۔۔ ایک منٹ ڈاکٹر صاحبہ ۔۔
یہ کہ کر و کرم اپنی جگہ سے اٹھا اور ایک الماری کی طرف بڑھا۔۔ ہما اسکے اتھل پتھل
ہوتے ہوئے جسم کو دیکھ رہی تھی۔۔ جو ڈولتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔۔ وکرم نے الماری
کھولی۔۔ اور اس میں سے ایک خوبصورت ساؤ بہ نکال کر لے آیا۔۔ واپس اپنی جگہ بیٹھ
کر اس نے وہ ڈبہ ہما کی طرف بڑھایا۔۔ اب وہ ہما کو اور بھی قریب بیٹھا تھا۔۔
ہما۔۔ یہ کیا ہے وکرم صاحب۔۔
و کرم ۔۔ ارے ڈاکٹر صاحبہ آپ پہلی بار ہمارے گھر پر تشریف لائی ہیں۔۔ تو یہ ایک حقیر سا تحفہ ہے آپ کے لیے۔۔ پلیز انکار نا کیجیے گا۔۔
ہما اس ڈبے کو دیکھتی ہوئی ۔ ۔ ل ل ل ل ل ل ل لیکن اس میں ہے کیا۔۔۔
و کرم ۔۔ آپ کھول کر دیکھ لیں نا خود ہی ۔۔
ہمانے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ وہ ڈبہ کھولنے لگی۔۔ اسکا دل بڑی تیزی کے ساتھ دھڑک رہا تھا۔۔ جیسے کہ وہ کوئی لاٹری کا بکس کھول رہی ہو۔۔ جیسے ہی جمانے وہ ڈبہ کھولا ۔۔ ہما کی آنکھیں تو جیسے پھٹنے کو آگئیں ۔۔۔ اس ڈبے میں ایک ہیرے کا پورا سیٹ جگہ گا رہا تھا۔۔ پورا بڑا ہار ۔۔ انگو ٹھی۔۔ اور ہیرے کا ہی بریسلیٹ ۔۔ ہما تو جیسے آنکھیں جھپکنا
ہی بھول گئی۔۔ اسکی آنکھیں ڈائمنڈ سیٹ سے خیر و ہو رہی تھیں۔۔ وکرم نے اپنے ہاتھ ہما کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔۔
وکرم۔۔ کہاں کھو گئیں ڈاکٹر صاحبہ ۔۔
ہما جیسے ہوش میں آگئی ہو ۔۔ یہ یہ یہ ۔۔ یہ۔۔ تو بہت قیمتی ہے۔۔۔ یہ میں نہیں لے سکتی پلیز زرد
وکرم نے دھیرے سے اپنا ہاتھ ہما کی ران پر رکھا۔۔ ارے ڈاکٹر ہما آپ سے قیمتی تو نہیں ہے نا۔۔ بلکہ آپ کے حسن کے سامنے تو یہ بے وقعت ہے۔۔ پلیز ۔۔ انکار نہیں کریں ۔۔ اور اسے رکھ لیں۔۔ اور پھر یہ تو ابھی صرف ابتداء ہے۔۔ اس جیسے کئی ڈائمنڈ آپکے جسم کی زینت بننے کے منتظر ہیں۔۔
ہیروں کے سیٹ کو دیکھتے ہوئے ہما کو و کرم کا ہاتھ اپنی ران پر محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا۔۔
جو آہستہ آہستہ اسکی ران کو سہلا رہا تھا۔۔
و کرم ہما جی ۔۔ پلیز اسے پہن کر دکھائیں نا۔۔۔
جمانے و کرم کی طرف دیکھا۔۔ اور اسکے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔ وہ ادھر ادھر
دیکھنے لگی۔۔ اسے ایک آئینہ نظر آیا۔۔ وہ اٹھ کر اسکی طرف بڑھی۔۔ آئینے کے سامنے
کھڑے ہو کر ہمانے اپنا آرٹیفیشیل سیٹ اتارا۔۔ اور وہ ہیرے کا بار پہنے لگی۔۔ ایک ماتھے
کا جھومر بھی تھا۔۔ سب کچھ پہین کر خود کو آئینے میں دیکھتی ہوئی وہ دل ہی دل میں بہت
خوش ہو رہی تھی۔۔ ان ہیروں نے اسکے حسن کو جیسے چار چاند لگا دیئے تھے۔۔ پھر وہ
مڑی اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی و کرم کی طرف بڑھنے لگی ۔۔ ایک شرمیلی سی
مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر لیے ہوئے۔۔ اب و کرم صوفے پر ہاتھ میں شراب کا گلاس
لیے ہوئے ہما کو دیکھ رہا تھا۔۔
ہما واپس آکر و کرم کے سامنے کھڑی ہو گئی۔۔ صوفے پر نہیں بیٹھی ۔۔ بلکہ وکرم کےسامنے اپنے حسن بکھیرتی ہوئی کھڑی رہی ۔۔ وکرم نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر ہما کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔۔ اس ہاتھ میں ہمانے ہیرے کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی۔۔ وکرم نے آہستہ سے ہما کے ہاتھ کی پشت کو چوما۔۔ اور پھر اسے اپنے قریب صوفے پر بٹھا لیا۔۔
و کرم ہما جی۔۔ آپ نے تو ان ہیروں کی نشان ہی بڑھادی ہے۔۔
و کرم کی بات پر ہما مسکرادی۔۔ شرما گئی۔۔۔
وکرم نے اپنی طرف کی ٹیبل سے ایک اور شراب کا گلاس اٹھایا۔۔ اور اسے ہما کی طرف بڑھایا۔۔ ہم چاہتے ہوئے بھی اتنے امیر آدمی کی آفر کو انکار نہیں کر پائی۔۔ ہمانے اسکے ہاتھ سے گلاس پکڑ لیا۔۔ وہو کرم سے بہت زیادہ متاثر ہو چکی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ جتنا قیمتی سیٹ اس نے ہم کو پہلی ہی ملاقات میں دے دیا تھا۔۔ اسے خریدنے کا سوچنا تو دور کی بات جمانے ایسا سیٹ کبھی دیکھا بھی نہیں تھا۔۔ چہ جائیکہ وہ اسے پہن کر بیٹھی ہوئی تھی تو اب وہ اسے یہ قیمتی سیٹ دینے والے کو کیسے انکار کر سکتی تھی۔۔ ہما کے اندازے
کے مطابق کم سے کم بھی اس سیٹ کی قیمت دس لاکھ کے قریب ہو گی۔۔ اتنے قیمتی ہیروں کے سیٹ نے تو اسکے اندر کی مزاحمت کو بالکل ہی ختم کر دیا تھا۔۔ دو چاہتے ہوئے بھی وکرم کو نہیں روک پارہی تھی۔۔ آخر عورت ہی تو تھی نا۔۔ ہیروں اور زیورات کی دیوانی - آخر اتنا قیمتی سیٹ لینے کے بعد وہ بھلا اس مرد کو کیسے روکتی۔۔ عورت ہی کیا کوئی مرد بھی اتنا قیمتی تحفہ حاصل کرنے کے بعد دینے والے کا بے دام غلام بن جاتا۔
ہما شراب کا گلاس ہاتھ میں لیے ہوئے بیٹھی ہوئی تھی۔۔ وکرم نے اپنا گلاس ہما کی طرف بڑھایا۔۔ اور بولا ۔۔ یہ پہلا جام آپ جیسی خوبصورت حسینہ سے پہلی ملاقات کے نام جمانے شرمیلی سے مسکراہٹ کے ساتھ اپنا گلاس وکرم کے گلاس کے ساتھ ٹکرا دیا۔۔ کمرے میں ملکی سی۔۔ مدھر سی چھن کی آواز گونجھی ۔۔ اور پھر وکرم نے اپنا گلاس اپنے ہونٹوں سے لگالیا۔۔ اور اسکا سپ لینے لگا۔۔ اسکی دیکھا دیکھی۔۔ ہما نے بھی اپنا گلاس اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔۔ اور اسکی چسکیاں لینے لگی۔۔ دونوں بہت قریب بیٹھے ہوئے تھے۔۔ وکرم نے اپنا ہاتھ ہما کے پیچھے سے لا کر صوفے کی بیک پر رکھ دیا۔۔ اس کا ہاتھ ہما کے کندھے کو چھورہا تھا ۔۔۔ نگے کندھے کو۔۔۔ مگر ہما کوئی بھی حرکت نہیں کر رہی
تھی۔۔ خود کو دور کرنے یا اسکے ہاتھ کو ہٹانے کی۔۔۔ جیسے ان ہیروں نے اسکے ہاتھ پیروں اور دماغ تک کو مفلوج کر دیا ہو۔۔ وکرم کے چھونے سے ہما کا جسم ہلکی سی حجر حجری سی لے کر رہ گیا۔۔
جیسے ہی دونوں کے جام ختم ہوئے تو وکرم نے ریموٹ سے ایک طرف لگا ہو اساؤنڈ ستم آن کر دیا۔۔ کمرے میں بہت ہی رومینٹک سا۔ ہلکا ہلکا میوزک بجنے لگا۔۔ بہت ہی مسحور کن دھن تھی ۔۔
و کرم اپنی جگہ سے اٹھا۔۔ اپنا ہاتھ ہما کی طرف بڑھایا۔۔ اور بولا۔۔ آئیں ڈانس کرتے ہیں تھوڑا۔
ہما انکار نہ کر سکی۔۔ اپنا ہاتھ اس نے وکرم کے موٹے ہاتھ میں دے دیا۔۔ اور اسکے ہاتھ
کے سہارے صوفے پر سے اٹھ گئی۔۔ وکرم ہما کو کمرے کے درمیان میں لے آیا۔۔ اور
دونوں ایک دوسرے کے بازہ پکڑ کا آہستہ آہستہ میوزک کی لے پر تھرکنے لگے ۔۔ ویسے
تھر کنا تو ہما کا جسم ہی تھا۔۔ وکرم جیسے موٹے آدمی کا جسم تو تھل تھل ہی کر رہا تھا۔۔۔ ہما کے لیے یہ ایک الگ ہی تجربہ تھا۔ کہ ایک موٹے آدمی کے ساتھ اس طرح وہ ڈانس کرے۔۔۔ ایسا آدمی آج تک ہما کی زندگی میں نہیں آیا تھا۔۔ جو اسکے اتنا قریب آسکا ہو مگر اسکا دیا ہو ا دس لاکھ کا ڈائمنڈ کا سیٹ ہما کو سب کچھ بھلانے پر مجبور کر رہا تھا۔۔
کچھ ہی دیر کے بعد وکرم نے اپنا بازو ہما کی کمر کے گرد ڈالا اور آہستہ سے ہما کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ ہما کا جسم و کرم کے موٹے پیٹ سے میچ ہونے لگا۔۔ اسکے سینے کے خوبصورت ابهار و کرم کے سینے سے دینے لگے ۔۔ دونوں ایکدوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔۔ وکرم کی گرم گرم سانسیں ہما کے چہرے پر پڑ رہی تھیں۔ تھیں ۔۔۔ ہما ہما کو عجیب سا سالگ رہا تھا مگر دو یہ سب کر رہی تھی۔۔۔ اور کرنے دے رہی تھی ۔۔۔
ہنما کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وکرم نے اپنے ہونٹ ہما کے ہونٹوں کی طرف بڑھائے جمانے اپنے ہونٹوں کو ہٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔۔ بس و کرم کی آنکھوں میں دیکھتی رہی۔۔ اور پھر وکرم کے ہونٹ ہما کے ہونٹوں پر آکر جم گئے۔۔ بہت ہی آہستہ
سے وکرم نے ہما کے ہونٹوں کو چوم لیا۔۔ ہما کے پورے جسم میں ایک عجیب کی لہر دوڑ گئی۔۔ ایک کرنٹ سادوڑ گیا۔۔ ہما و کرم کی آنکھوں میں دیکھتی رہی۔۔ مگر اپنے ہونٹ یچھے ابھی بھی نہیں بٹائے۔۔ دونوں کا ڈانس رک چکا ہو ا تھا۔۔ وکرم نے دوبارہ سے اپنے ہونٹ ہما کے ہونٹوں پر رکھے۔۔ اور اب انکو بار بار چومنے لگا۔۔ آہستہ آہستہ ۔۔ ہما کے پہلے سے نازک سے سرخ سرخ پچھلے ہونٹ کو اپنے موٹے موٹے ہونٹوں میں لیا۔۔ اور اسے چوسنے لگا۔۔ ہما کے دل کی دھڑکن عجیب سی ہو رہی تھی۔۔ اسکے جسم میں گرم کی پیدا ہوتی جارہی تھی۔۔۔ وہ بے چین ہونے لگی تھی۔۔ ہما کے ہونٹوں کو چومتے ہوئے وکرم نے اپنے ہاتھ کر گرفت ہما کی تھی کمر پر اور بھی سخت کی ۔۔ اور اسے سختی سے اپنے جسم کے ساتھ چپکا لیا۔۔ اور اسکی نقلی کمر کو سہلانے لگا۔۔ دوسرا ہاتھ ہما کی ساڑھی کے اوپر سے اسکی گانڈ کو سہلا رہا تھا ۔۔۔ ہما کی حالت خراب ہوتی جارہی تھی۔۔۔
اپنی بانہوں میں لیے ہوئے ہی وکرم نے ہما کی ساڑھی کا پلو گرادیا۔۔ اب ہما کا اوپر جسم صرف اس مختصر سے بلاؤز میں وکرم کے سامنے تھا۔۔ وکرم اپنے ہونٹ ہما کے ہونٹوں پر سے ہٹا کر اسکے جسم کا جائزہ لینے لگا۔۔ ہما کے اوپر نیچے ہوتے ہوئے ابھاروں کو دیکھنے
لگا۔۔ اسکی نظر میں ہما کی چھاتیوں کی درمیانی لکیر میں پھسلتی جارہی تھیں ۔۔۔ نیچے چکنا نگا پیٹ قیامت ڈھا رہا تھا۔ دونوں کی نظریں دوبارہ سے ملیں تو ہماشر ماگئی۔۔ اور اپنی نظریں جو کا لیں۔۔۔
وکرم نے ہما کو بازو سے پکڑ کر گھمایا۔۔ اور اسکی کمر کو اپنے جسم کے ساتھ چپکاتے ہوئے اپنے ہاتھ اسکے بازؤں کے نیچے سے لے جا کر اسکی دونوں چھاتیوں کو اپنے موٹے موٹے ہاتھوں میں تھام لیا۔۔ اور اپنے ہونٹ ہما کی گردن پر رکھ دیئے ۔ ۔ ہما کے منہ سے سکاری نکل گئی۔ سی سی سی سی سی سی ۔۔۔۔
و کرم نے جب دیکھا کہ جمانے کوئی مزاحمت نہیں کی۔۔۔ تو اس نے اپنے ہونٹ ہما کی گردن کی گوری گوری ملائم جلد پر گاڑ دیئے ۔۔ ہاں۔۔ اپنے ہونٹوں کا دباؤ اسکی گردن پر بڑھاتے ہوئے اسکی گردن کی جلد کو چوسنے لگا۔۔ سک کرنے لگا۔۔ اپنے
ہونٹوں میں کھینچنے لگا۔۔ اور ساتھ ہی آہستہ آہستہ ہما کی چھاتیوں کو مسلنے لگا۔۔ ان پر دباؤ بڑھانے لگا۔۔ ہما کے منہ سے سسکیاں نکلنے لگیں۔۔ وہ مچلنے لگی۔۔۔ تڑپنے لگی۔۔۔ آوو
Comments
Post a Comment