ڈاکٹر ہما قسط 69,70
نیلوفر کا جسم ڈھیلا پڑ گیا زمان نے اپنا لوڑا اسکی گانڈ سے نکالا .. اور اسے ایک ہی دھکے میں اسکی چوت کے اندر دھکیل دیا۔ اور اسکی ٹانگوں کو پھیلا کر اسے چودنے لگا۔۔ زمان نیچے کو جھکا اور اپنے ہاتھ نیلوفر کی بغلوں کے نیچے سے لے جا کر اسکے کندھوں کو پکڑا - اور اسی پوزیشن میں زور زور سے اسکی چوت مارنے لگا زمان کے دھکوں کی رفتار اتنی تیز تھی کہ نیلوفر کے منہ سے بلکی ہلکی چیخیں نکلنے لگیں - زمان نے اپنی رفتار ہلکی کرنے کی بجائے اپنا باتھ اسکے منہ پر رکھا ۔ اسکے منہ کو
دبا کر اسکی چیخوں کو بند کیا اور اپنی رفتار پہلے سے بھی بڑھا دی۔ نیلوفر کا برا حال ہونے لگا۔ اسکا پورا جسم جیسے ٹوٹنے لگا۔۔ مگر زمان تو جیسے وحشی بوربا تھا - اس پر تو بس نیلوفر کی چوت کی چدائی کا بھوت سوار تها .. آخر کر زمان بھی اپنی منزل کو پہنچنے لگا۔ اور اسکا جسم اکر گیا اور اسکے لوڑے سے منی نکلنے والی ہوئی تو اس نے اچانک سے اپنا لوڑا نیلوفر کی چوت سے نکالا اور ایک بار پھر اسے نیلوفر کی گانڈ میں ڈال دیا اور پورا اندر گہرائی تک لے جا کر اسکے لوڑے
نے اپنی منی اسکی گانڈ میں اگل دی۔ اسی دوران نیلوفر کی چوت نے ایک بار پھر پانی چھوڑ دیا۔ ایک ہی چدائی میں اتنی زیادہ دفعہ پانی اسکی چوت نے پہلی بار چھوڑا تھا - دونوں نڈھال ہوچکے تھے - زمان بھی اسکے اوپر ہی گر پڑا ۔ اور اسکے جسم کے اوپر بي لينا ربا نیلوفر بھی انکھیں بند کر کے لیٹی ہوئی تھی ۔
تھوڑی دیر کے بعد آخر زمان بی پہلے الها.. ادهر ادهر دیکھنے لگا۔ نیلوفر نے اسکی تلاش کو سمجھتے ہوئے ایک دروازے کی طرف اشارہ کیا تو زمان
اس دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ وہ واش روم تها .. اندر جاکر خود کو دهو کر صاف کیا اور پھر باہر اگر اپنے کپڑے پہننے لگا۔۔ نیلوفر بھی بڑی مشکل سے اٹھی ۔ اور اپنے کپڑے پہننے لگی۔
نیلوفر کیا ہوگیا تھا ڈاکٹر صاحب آج آپ کو ... آج تو آپ بلکل ہی وحشی ہو گئے ہوئے تھے ۔
زمان اپنی شرٹ کے بٹن لگاتے ہوئے بولا کیوں مزہ نہیں آیا کیا۔
نیلوفر نے آگے بڑھ کر زمان کے ہونٹوں پر کس کیا اور بولی ... مزے کا تو آپ پوچھو بی مت .
پھر دونوں ہنستے ہوئے نیچے آگئے ۔ نیلوفر زمان کو گیٹ تک چھوڑنے کے لیے آئی - چوکیدار نے گیٹ کھولا - ابھی وہ دونوں پورچ میں ہی کھڑے تھے کہ ایک گاڑی آکر رکی - اس میں سے ڈاکٹر بما باہر نکلی - اور اندر کی طرف بڑھی . جہاں زمان اور نیلوفر کھڑے تھے - ہما کو اپنے سامنے دیکھ کر نیلوفر گهبرا گئی .. وہ آج ایک بار پھر زمان کے ساتھ پکڑی گئی تھی
اسکے ماتھے پر پسینے کی بوندیں نمودار ہونے لگیں .. بما انکے نزدیک پہنچی اور جا کر نیلوفر سے ہاتھ ملايا
بما مسكراني -- بیلو میڈم - کیسی ہیں آپ ؟؟؟
ہما کی مسکراہت میں ایک شرارت تھی جسے نیلوفر محسوس کر رہی تھی ... پھر ہما زمان کی طرف دیکھتی ہوئی بولی - ڈاکٹر زمان - ہو گیا چیک اپ -
زمان مسکرایا جی ہاں - ہو گیا چیک اب -
بما مسكراني - اور فیس ؟؟؟؟
زمان نے مسکرا کر نیلوفر کی طرف دیکھا اور بولا جي فيس بهى وصول کر لی .
زمان کی اس ذو معنی بات پر نیلوفر شرما گئی - اور شرم سے اسکا سر نیچے جھک گیا۔ اتنے میں انور بھی گاڑی اندر لے آیا۔ اور گاڑی سے اتر کر ان تینوں کی طرف ہی آگیا زمان
نے اس سے ہاتھ ملایا۔ اور پھر جانے
کے لیے نکل پڑا۔ اور نیلوفر بما اور
انور کے لے کر اندر آگئی ۔
نیلوفر ابهی بهی گهبرا رہی تهی - بما
نے اسکا ہاتھ پکڑ کر دبایا اور آہستہ
سے بولی - دونت وری اباؤٹ یور
سيكرت .. اث ول آل ویز بی اے
سیکرٹ
اس بات پر نیلوفر نے ہما کی طرف
دیکھا - تو نیلوفر نے مسکرا کر اپنا سر
بلا دیا اور نیلوفر بھی مسکرادی -
دونوں نے جا کر جمشید صاحب کیخیریت دریافت کی ۔۔ اور وہیں بیڈروم میں ہی جمشید صاحب کے ساتھ ہی چائے پی ۔۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد وہ دونوں اپنے گھر واپس آگئے ۔
ہما اور انور گھر پہنچے تو ہما کچن میں چلی گئی۔۔ اتنے میں اسکا فون بجا اس نے دیکھا تو اسکے پاس کمال صاحب کی کال تھی۔۔ ہما کچن میں ہی ان سے بات کرنے گئی۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد ہما اپنے کمرے کی طرف گئی تو اس نے دیکھا کہ انور کسی سے فون پر بات کر رہا تھا ۔۔ وہ اسے نہیں دیکھ پایا۔۔ انور تھوڑا پریشان لگ رہا تھا۔۔ ہما کو تھوڑی فکر ہوئی۔۔ وہ اسکی باتیں سننے کی کوشش کرنے لگی۔۔ جہاں تک ہما کو سمجھ آئی۔۔ کچھ پیسوں کی پینٹ کا معاملہ تھا شائد۔۔۔ پھر ہما کمرے میں داخل ہوئی تو انور نے کال ختم کر دی۔۔ مگر جمانے بھی اس سے کوئی بات اس معاملے میں نہیں کی۔۔ کیونکہ وہ انور کے دفتری معاملات میں کم ہی مداخلت کرتی ہوتی تھی ۔۔۔ اور دونوں اپنے اپنے کاموں میں لگ
اگلی رات کی ڈیوٹی پر بھی زیب نے ہما کو اسکے ساتھ وکرم صاحب کے پاس چلنے کو بولا۔۔ کچھ سوچ کر ہما نے اوکے کر دیا۔۔
ریب۔۔ یہ ہوئی نابات۔ آپ کل صبح میں تیار رہنا۔۔ میں آجاؤں گی یا بار آپ آکر مجھے پک کر لیجیے گا۔ پھر ہم و کرم صاحب کی طرف چلیں گی۔۔ یقین کرو آپ ان سے مل کر بہت خوش ہو گی۔۔
ہما۔۔ ویسے ہم وہاں جا کر کریں گی کیا۔۔
زیب مسکرائی۔۔ تھوڑی پارٹی کریں گے۔۔ تھوڑا ہلا گلا ۔۔ اور بس۔۔ ساتھ ہی زیب نے ہما کو آنکھ مار دی۔۔ ہما اسکی پارٹی کا مطلب سمجھ گئی تھی۔۔۔ وہ بھی دھیرے سے مسکرادی۔
اگلی صبح ہاسپٹل سے آکر ہمانے ناشتہ بنا کر انور کو دیا ۔۔ اور وہ ناشتے کے بعد تیار ہو کر اپنے
آفس کے لیے نکل پڑے۔۔ انکے جانے کے بعد ہما جانے کے لیے تیار ہونے لگی ۔۔۔۔
اسے کچھ کچھ اندازہ تو تمھاری کہ وہاں کیا ہو گا۔۔ اس لیے اس نے نہانے سے پہلے اپنے جسم کا جائزہ لیا۔۔ اسکی چوت پر ہلکے ہلکے بال تھے۔۔ قریب ایک ہفتہ ہو چکا ہو اتھا اسے اپنی چوت کے بال صاف کیے ہوئے۔۔ اس نے اپنے بازو او پر اٹھا کر اپنی بغلوں کا جائزہ لیا۔۔ وہاں بھی ہلکے ہلکے بال ہما نے ان سب کو ریمو کرنے کا فیصلہ کیا۔۔ ریزر لے کر اچھے سے اپنی چوت کے بال صہ صاف چوت بالکل چکنی ہو چکی ہوئی تھی پھر اپنی بغلیں بھی صاف کیں۔۔۔ اب اسکا جسم چمک رہا تھا۔۔ اسکے بعد اچھے سے نہا کر تولیہ سے جسم کو صاف کرتی ہوئی باہر اپنے کمرے میں آگئی۔۔ اور پھر تولیہ ایک طرف رکھ کر ۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔۔ اپنے نگے جسم کو دیکھتی ہوئی ۔۔۔۔ وکرم کے بارے میں ہی سوچنے لگی کہ پتہ نہیں کون ہے یہ وکرم ۔۔۔ اور اسکے ساتھ کیا کرے گا۔۔ مگر زیب نے اسکی دولت اور دریادلی کے قصے سنا سنا کر اسکے دل میں بھی وکرم سے
لے کی خواہش پیدا کر دی ہوئی تھی۔ اس لیے وہ اس سے ملنے کے لیے تیار ہوئی تھی۔
یہ تو ہما کو پتہ چل چکا تھا کہ وکرم ایک ہندو ہے۔۔ اس لیے اس نے سوچا کہ کیوں نہ آج ساز ھی پہنی جائے وکرم کو امپریس کرنے کے لیے۔۔ یہ سوچ کر وہ مسکرائی ۔۔۔ اور اپنی الماری کی طرف بڑھ گئی۔۔ الماری سے اپنی سرخ رنگی کی ساڑھی نکالی۔۔ اسکے ساتھ کا بلاؤز بھی نکال لیا۔۔ ایک مصیبت تھی کہ ساڑھی تو بہت اچھی تھی مگر ٹرانسپیرنٹ تھی اور اسکا بلاؤز بھی سلیو لیس تھا۔۔ اور آگے پیچھے سے کافی گہر ا تھا۔۔ جس کی وجہ سے آگے اور نیچے سے اسکا گورا گورا جسم نگار ہتا تھا۔ مگر پھر بھی ہمانے اس کو پینے کا فیصلہ
بما ساڑھی پہن کر تیار ہوئی اور میک اپ کرنے لگی ۔۔ اسکا گورا گورا جسم بلاؤز میں سے جھلک رہا تھا ۔۔ اسکے خوبصورت مجھے اسکے بلاؤز کے گہرے گلے میں سے چھلکے پڑر ہے تھے ۔۔۔ گھوم کر اپنی کمر کو آئینے میں دیکھا تو کمر کا اوپری حصہ نگاہور ہا تھا۔۔ بلاؤز تھی بھی شارٹ ۔۔ اسکا گورا گورا پیٹ بھی پورا نگا ہو رہاتھا۔ اسکی گہری ناف بہت ہی سیکسی لگ رہی تھی۔۔ ہما نے بالوں کو کنگھی کیا۔۔ اور پھر ساڑھی کا پلو اپنے سینے پر ڈالتے ہوئے کندھے پر گرا لیا۔۔ مگر ساڑھی کا کپڑاٹر انسپیرنٹ ہونے کی وجہ سے ہما کا جسم چھپانے کی
بجائے اور بھی سیکسی انداز میں پیش کر رہا تھا۔۔ ہما کے سینے کے ابھاروں کے نظارے کو اور بھی مست بنادیا تھا۔۔ ساڑھی کے پہلے کپڑے میں سے اسکا گورا گور انکا پیٹ بھی جھانک رہا تھا۔۔ اور بہت ہی سیکسی لگ رہا تھا۔ جمانے میک اپ مکمل کیا تو اور بھی حسین لگنے لگی۔۔ ایک آخری نظر اپنے قیامت خیز بدن پر ڈالی۔۔ اب و دو کرم سیٹھ پر بجلیاں گرانے کے لیے تیار تھی۔۔۔ اسے خود سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ ایک انجان آدمی سے ملنے کے لیے اتنا کیوں تیار ہو رہی ہے۔۔ پتہ نہیں کیوں وہ اتنی ایکسائیڈ ہو رہی تھی۔۔
ہمانے تیار ہو کر زیب کو فون کیا۔۔ تھوڑی دیر کے بعد زیب نے فون اٹینڈ کیا۔۔
ہما۔۔ ہیلو۔۔ تیار ہو نا تم۔۔ میں گھر سے نکل رہی ہوں۔۔ اور بیس تھوڑی ہی دیر میں تمھارے پاس پہنچ رہی ہوں۔۔
زیب۔ اوہ سوری ہما میڈم۔۔ میں آپ کے سات نہیں جاپاؤں گی۔۔ مجھے ایک ضروری کام پڑ گیا ہے۔۔ آپ ایسا کرو کہ آپ اکیلی چلی جاؤ۔۔
ہما۔۔ نہیں یار ۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ میں اکیلے کیسے جا سکتی ہوں۔۔ اگر تم کو پر اہلم ہے تو ہم پھر کسی دن چلے جائیں گے۔۔
زیب۔۔ نہیں۔۔ نہیں۔۔ پلیز آپ چلی جاؤ۔۔ میں نے وکرم صاحب کو بتا دیا ہوا ہے وہ ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔۔ اور اگر ہم میں سے کوئی بھی نہیں گیا تو وہ بہت ناراض ہوں گے۔۔ اگر آپ چلی جاؤ گی نا تو آپ کو دیکھ کر وہ میری غیر موجودگی کو بھول جائیں گے۔۔
ہما کیلی جانا نہیں چاہ رہی تھی۔۔ مگر زیب کے بار بار اصرار کرنے پر وہ راضی ہو گئی۔۔
زیب نے اسکو ایڈریس سمجھادیا۔۔ اور پھر فون بند ہونے کے بعد ہما و کرم صاحب کے
ے پاس جانے کے لیے کل اپنی کار پر گھر نکل پڑی ۔۔ اس وقت دس بنجارہے تھے ۔۔۔
Comments
Post a Comment