ڈاکٹر ہما قسط 56' 57' 58' 59



ہما انکی باتیں سن رہی تھی۔۔ وہ بھی بول پڑی۔ یہ کیا معاملہ ہے روم 27 کا۔ مجھے بھی تو بتاؤ۔۔ کہیں پھر کوئی فی


میل اٹینڈینٹ کا معاملہ تو نہیں۔۔۔


زیب بننے لگی۔۔ بلکل ٹھیک اندازہ لگایا ہے آپ نے ڈاکٹر ہما۔۔ یہی معاملہ ہے۔۔ وہاں جو مریض داخل ہے نا . اتفاق سے اسکی بیوی بہت خوبصورت ہے۔۔ اور جوان بھی تو ہمارے زمان صاحب بس اسی کے چکر میں ہیں شام


ہما بھی مسکرانے لگی۔۔ ڈاکٹر زمان کسی کو تو چھوڑ دیا کریں۔۔ .


زمان مسکرایا۔ ارے ہر کسی کو چود کر چھوڑ ہی تو دیتا ہوں۔۔ اور ویسے بھی میں اسکی مدد کر نا چاہ رہا ہوں اور کچھ


نہیں۔۔


ہما۔۔ کیسی مدد


زمان مسکرایا۔ دراصل اس کا شوہر 5 مہینوں سے بیمار ہے اور اتنے عرصے سے وہ اسکے جسم کی پیاس نہیں بجھا پا رہا


۔۔ اس لیے وہ بہت پیاسی ہے۔۔


زیب۔۔ اور اسی لیے آج ہمارے ڈاکٹر زمان صاحب اس خاتون کی پیاس بجھائیں گے ۔۔


اتنے میں دروازہ ناک ہوا۔۔ اور پھر کھل گیا۔۔ ایک خوبصورت کی عورت اندر داخل ہوئی۔۔ جسکی عمر تقریبا 32 سال رہی ہو گی۔۔ بھر ابھرا جسم گورا رنگ خوبصورت چہرہ۔ ٹائٹ شرٹ میں پھنسے ہوئے اور تنے ہوئے اسکے بوبس۔۔ اور شرٹ کے گہرے گلے میں سے جھانکتا ہوا اسکے کلیوی کا اوپری حصہ ۔۔ نیچے اس نے لوز سائر اور پہنا ہوا تھا۔ شکل وصورت اور لباس سے ہی اچھے گھرانے کی لگ رہی تھی۔ ویسے بھی اس پرائیویٹ ہسپتال میں اچھے اور امیر گھر کے لوگ ہی آتے تھے۔۔ ہما کو بھی پہلی ہی نظر میں وہ عورت اچھی لگی۔۔


۔۔۔ ایکسکیوز می۔۔۔ ڈاکٹر صاحب سوری میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا۔۔ دراصل مجھے یہ پوچھنا تھا کہ میں اپنے شوہر کو کھانے میں کیا دوں۔۔


زیب اور ہما ایکدوسری کی طرف دیکھ کر زیر لب مسکرائیں ۔۔ زیب اپنی جگہ سے اٹھی اور بولی۔۔ ڈاکٹر ہما پلیز آپ میرے ساتھ آئیں۔۔ وہ روم نمبر 14 والے مریض کو دیکھنا تھا۔۔ ہما بھی اسکی بات کا مقصد سمجھ گئی۔۔ اور اسکے ساتھ ہی دروازے کی طرف بڑھی۔۔ اور پاس سے گزرتے ہوئے اس نے مسکرا کر اس عورت کی طرف دیکھا ۔۔ اور بولی۔۔ آپ پلیز بیٹھیں۔۔ بیٹھ کر بات کر لیں۔۔ اس عورت کے چہرے پر شرم کی لہر دوڑ گئی ۔۔ جیسے اسکی چوری پکڑی گئی ہو۔۔ زیب پہلے کمرے سے نکلی۔۔ اور اسکے پیچھے پیچھے ہما باہر آگئی۔۔ اور اپنے پیچھے آفس کا دروازہ


بند کر دیا۔۔


باہر آتے ہی دونوں ہننے لگیں۔۔


وہ خوبصورت عورت جس کا نام نیلو فر تھا۔۔ اندر کھڑی تھی۔۔ زمان نے اسے اپنے پاس صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ . کیا۔۔ وہ جھجکتی ہوئی ڈاکٹر زمان کے قریب ہی صوفے پر بیٹھ گئی۔۔


زمان ۔۔ کیا آپکے ہسبنڈ سو گئے ہیں۔۔ .


نیلوفر جی

زمان تھوڑا سے نیلوفر کی طرف کھسکا۔۔ ارے آپ اتنا گھبرا کیوں رہی ہیں۔۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ اسکے کھڑکا۔۔ارے ہاتھ پر رکھ دیا۔۔


نیلو فر نے گھبرا کر اپنا ہاتھ پیچھے کھینچا۔ نہیں۔۔ نہیں پلیز۔ کوئی آجائے گا۔۔


زمان مسکرایا۔۔ دوبارہ سے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ میں لیا۔۔ اور اسکو سہلانے لگا۔۔ مس نیلوفر آپ واقعی ہی بہت خوبصورت ہیں۔۔


نیلوفر شرمائی۔۔ بھول رہے ہیں آپ کہ میں مس نہیں۔۔ مسز ہوں۔۔


زمان اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے سہلاتے ہوئے بولا۔۔ مگر زندگی تو آپ مس والی ہی گزار رہی ہیں نا۔۔ بلکل تنہا۔۔ اور بے مزہ زند گی ۔۔


نیلوفر نے نظریں نیچے جھکا لیں۔۔ زمان تھوڑا اور قریب کھسکا۔۔ اور اپنا ہاتھ صوفے کی بیک پر لے جاتے ہوئے نیلوفر کے دوسرے کندھے پر رکھ دیا۔۔ نیلو فر گھبراگئی۔۔


نیلوفر نہیں ۔۔ پلیزززززز۔۔۔ ڈاکٹر زمان۔۔ تھوڑا پیچھے ہٹ جائیں۔۔ کوئی آگیا تو بہت برا ہو گا۔۔


زمان نے دوبارہ نیلوفر کو اپنی طرف کھینچا۔۔ نہیں ڈرو نہیں آپ۔۔ کوئی نہیں آئے گا۔۔


نیلو فر بہت گھبرارہی تھی۔۔ زمان نے آہستہ سے نیلوفر کے گال کو چوم لیا۔۔


نیلوفر ۔۔ نہیں۔۔ نہیں ۔۔ ڈاکٹر زمان ۔۔ میں یہ سب نہیں کر سکتی۔۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ میں بھلا اپنے شوہر کو کیا منہ دکھاؤں گی۔۔ پلیز ززز۔۔ نہیں کریں۔۔


مگر زمان آہستہ آہستہ نیلوفر کی گردن کو چوم رہا تھا۔۔ اور اسکی کمر کو سہلا رہا تھا۔۔ نیلوفر کے جسم میں جیسے کرنٹ سا


دوڑتا جارہا تھا۔ وہ پگھلنے لگی تھی۔۔ اتنے سارے دنوں کے بعد کسی مرد کے۔۔ اور وہ بھی ایک غیر مرد۔ لیکن


بہت ہیں ہینڈ سم اور رسم اور خوبصورت مرد کے ہاتھوں کے لمس نے اسکو پاگل کر نا شروع کر دیا ہوا تھا۔ وہ مزاحمت کر


رہی تھی۔ مگر اسکی مزاحمت دم توڑتی جارہی تھی۔۔۔ نیلوفر کی گردن کو چومتے ہوئے زمان نے اپنے ہونٹ اسکے


پہلے پہلے گلابی ہونٹوں پر رکھ دیئے۔۔ اور اسکے ہونٹوں کو کو چومنے لگا۔۔ ز


ہونٹوں میں لیا اور اسکو چوسنے لگا۔ اپنے دونوں ہاتھوں کو نیلوفر کی کمر پر کہتے ہوئے۔۔۔ ابھی تک وہ اپنے ہاتھوں زمان نے نیلوفر کے پچھلے ہونٹ اپنے کی


کو اسکے سینے کے ابھاروں سے دور رکھ رہا تھا۔ وہ اچانک سے اس پر حملہ نہیں کر دینا چاہتا تھا۔۔ بلکہ ماہر شکاری کی


طرح اپنے شکار کو آہستہ آہستہ اپنے بچھائے ہوئے جال کی طرف لا رہا تھا۔۔۔ تا کہ جب وہ مکمل طور پر پھنس جائے


تو اس میں سے نکل نہ سکے۔۔ نیلوفر کے ہونٹ کو چوستے ہوئے زمان نے دھیرے سے اپنی زبان اسکے منہ کے اندر


سر کائی۔ نیلوفر کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔۔ اس نے زمان کی زبان کو چوسنا شروع کر دیا۔۔ اچانک زمان نے


نیلوفر کے ہونٹ کو اپنے دانتوں سے ہولے سے کاٹا۔ نیلوفر کے منہ سے سکاری نکلی۔۔۔ اور وہ جیسے ہوش میں


آگئی۔ وہ جلدی سے زمان کی بانہوں میں سے نکلی۔۔ اور اسے پیچھے دھکیلتی ہوئی صوفے سے اٹھ کر باہر کے


دروازے کی طرف بڑھی۔۔ زمان نے اسے آوازیں بھی دیں۔۔ اُٹھ کر روکنے کی کوشش بھی کی۔۔ مگر نیلوفر نے


ایک نہیں سنی اور آفس سے باہر نکل گئی۔۔ اور زمان بے مزہ ہو کر صوفے پر بیٹھارہ گیا۔۔ اسے اپنا شکار ہاتھ سے


نکلنے کا افسوس ہو رہا تھا ۔۔ مگر اسے پتہ تھا کہ اب نیلوفیر کے جسم کی پیاس اسے چین نہیں لینے دے گی۔۔۔ وہ


سوئی ہوئی پیاس جسے زمان نے جگادیا تھا۔۔۔ اور اسے یقین تھا کہ تھوڑی دیر کے بعد وہ دوبارہ اسکی بانہوں میں ہو


گی۔۔۔


جیسے ہی نیلو فر کمرے سے باہر کی تو ڈاکٹر ہا اور زیب نرسنگ کاؤنٹر پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ نیلوفر کا شرم سے لال چہرہ


اور اسے گھبرائی ہوئی دیکھ کر زیب بولی۔۔زیب۔۔ میم۔ خیریت تو ہے نا۔۔ آپ گھبرائی ہوئی سی لگ رہی ہیں۔ ۔ ڈاکٹر زمان نے کوئی سیریس بات کی ہے . کیا آپ کے شوہر کے بارے میں۔۔ یا کچھ اور ۔۔


نیلوفر اپنی حالت پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہوئی بولی۔۔ن۔۔ن۔۔ نہیں۔۔ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی لفٹ کی طرف اپنے کمرے میں جانے کے لیے۔۔


زیب نے معنی خیز انداز میں ہما کی طرف دیکھا اور دونوں مسکرانے لگیں۔۔ اور پھر دونوں آفس میں داخل ہوئیں اور زیب زمان سے بولی۔۔


زیب۔۔ ڈاکٹر زمان ۔۔ لگتا ہے کہ اس بیچاری پر آپ نے پہلی ہی ملاقات میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔۔ بہت گھبرائی ہوئی


زمان بجنے لگا۔ بابابابابابا۔ ہاں بات تو کچھ ایسی ہی ہے۔۔ لیکن کیا ہے ناکہ پھر بھی وہ ہاتھ سے پھسل گئی ہے۔۔


ہما۔۔ پھسل گئی ہے ہاتھ سے تو پھر کونسا آپ نے اس کا پیچھا چھوڑ دینا ہے۔۔


زمان نے قریب ہی کھڑی ہوئی ہما کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔۔ اور اسے اپنی گود میں کھینچ لیا۔۔ اور بولا۔۔ جیسے تمھارا پیچھا نہیں چھوڑا تھا ویسے ہی نا۔۔۔


ہما کو اپنی بانہوں میں سمیٹ کر زمان نے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیئے اور اسکو چومنے لگا۔ کچھ دیر کے لیے ہما نے بھی اسکا ساتھ دیا۔ اور پھر اسے پرے ہٹاتی ہوئی بولی۔ ہٹو پیچھے مجھے نہیں شوق کہ کسی اور کے لیے جاگی ہوئی اپنی ہوس تم میرے پر پوری کرو۔۔۔ یہ کہہ کر ہماہنے لگی۔ اور وہ دونوں بھی۔۔۔۔ کچھ دیر تک زمان ہما اور زیب دونوں کہ ہی آفس میں چھیڑ چھاڑ کرتا رہا۔ انکو کسنگ کرتا رہا۔۔ انکے مموں سے کھیلتا رہا۔۔ اور زیب بھی اسکے لوڑے کو دباتی رہی۔۔ اور پھر بولا۔ ر کو تم لوگ میں ڈرا نیلوفر کو ایک ڈوز اور دے کر آتا ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گیا۔۔


تھی۔۔ نیلوفر کے روم میں پہنچا تو اس کا شوہر سو رہا تھا۔۔ اور نیلوفر ایک صوفے پر بیٹھی ہوئی اپنا موبائل دیکھ رہی تھی زمان کو اپنے کمرے میں داخل ہوتا ہواد یکھ کر وہ گھبرا گئی۔۔ اور اپنے شوہر کی طرف دیکھنے لگی۔۔ زمان نے آہستہ سے دروازہ بند کیا اور نیلوفر کی طرف بڑھا۔۔ نیلو فر گھبرا کر اسے سر کے اشارے سے قریب آنے سے منع کرنے لگی۔۔ مگر زمان اسکے قریب گیا۔۔ اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے صوفے سے اٹھالیا۔۔ نیلوفر انکار میں سر ہلاتی ہوئی بھی اُٹھ گئیں۔۔ اور زمان اسے اپنے ساتھ اسکے شوہر کے بیڈ کے سرہانے کی طرف لے آیا۔۔ جہاں پر اسکی نظر نہیں پڑ سکتی تھی۔۔


اس جگہ لاتے ہی زمان نے نیلوفر کو اپنی بانہوں میں کھینچ لیا۔۔ اور اپنے سینے سے لگا لیا۔۔ .


آہستہ سے اسکے کان میں سرگوشی کی۔۔۔ میرے اندر آگ لگا کر کیوں بھاگ آئی تھی میری جان۔۔


نیلوفر بھی آہستہ سے بولی۔۔ نہیں پلیز مجھے چھوڑ دیں۔۔ یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔۔ میں ایسا نہیں کر سکتی۔۔


زمان نے اپنا ہاتھ اسکی کمر پر سہلاتے ہوئے کہا۔۔ نہیں ایسا کر سکتی تو کیا ایسے ہی اپنے جسم کو اس آگ میں جلاتی رہو . نے گی۔۔

نیلوفراد اس ہو گئی۔۔۔ اور اپنی مزاحمت کو بھول کر بولی۔۔ یہ تو میر امقدر ہے اب۔۔


زمان نے اسکی تھوڑی کو اپنی انگلی سے اوپر کو کیا اور اسکے گلابی ہونٹوں کو چوم کر بولا۔ اپنا مقدر تو تم کو خود ہی بدلنا ہے نا۔۔ اور اگر ایسا موقع ملنے پر بھی تم فائدہ نہیں اٹھاؤ کی تو پھر سدا پیاسی ہی رہ جاؤ گی۔ اپنا ہاتھ اسکی کمر پر پھیرتے ہوئے بولا۔۔ کیا ایسے ہمیشہ کے لیے اپنے جسم کو پیاس کو جھیل پاؤ گی۔۔ برداشت کر سکو گی ۔۔ بولا۔۔


نیلوفر کے جسم پر سرکتے ہوئے زمان کے ہاتھ اس پر جادو کر رہے تھے۔۔ اسکے جسم کو پچھلا رہے تھے۔۔ اسکی بے چینی میں اضافہ کر رہے تھے۔۔۔ اسکے جسم کی تڑپ کو بڑھا رہے تھے ۔۔۔ اسکے اند اسکے اندر کالا و پکھلا رہے تھے جو اسکی چوت میں سے ٹیکنے کو تیار تھا۔۔ نیلو فر سکی۔ پلیز روز ڈاکٹر صاحب ۔۔ چھوڑ دیں مجھے۔۔ بڑی مشکل سے اس آگ کو اپنے اندر روکا ہوا ہے جسے آپ ہوا دے رہے ہیں۔۔ پلیزززززز نہیں کریں ۔۔۔۔ میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔۔ ایسا نہ ہو کہ میں بہک جاؤں۔۔۔


زمان نے اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی اپنے ہونٹ نیلوفر کے ہونٹوں پر رکھ دیئے اور انکو چوسنے لگا۔۔ اسکا ہاتھ اسکی کمر پر کس کیا ہے اور نیلوفر کے بیٹے کے ابھار زمان کی چھاتی پر دب گئے۔۔۔ نیلوفر کی سانسیں تیز ہونے لگیں۔۔ اسکی مزاحمت ختم ہوتی جارہی تھی۔ اسکو خود بھی احساس نہیں ہوا کہ کب اسکے دونوں بازو اٹھے اور زمان کی گردن کے گرد حمائل ہو گئے۔ نیلوفر کو خوبصورت اور گر از جسم اب زمان کی بانہوں میں تھا۔۔۔ زمان نے بھی اسکی خود سپردگی کو دیکھتے ہوئے اپنے ایک ہاتھ کو اسکی شرٹ کے نیچے سر کایا۔ اور اسکے نگے ملائم جسم پر رکھ دیا۔ اور اسکی تھی کم کو سہلانے لگا۔ اسکا ہاتھ اوپر کو سرک را تا نیلوفر کی کرے۔۔۔اور پھر ایک ہاتھ نیلوفری بریزر کے ہک سے کھیلنے لگا۔۔ دوسرا ہاتھ نیلوفر کی گانڈ کو دبانے لگا۔۔ نیلوفر کے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں ۔۔ اور اب وہ زمان کے جسم کے ساتھ چپکتی چلی جارہی تھی۔۔۔ نیچے سے اسے زمان کی پینٹ میں اسکا اکڑا ہوا لوڑا بھی اپنی چوت پر دباؤڈالتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔ اب نیلو فر بھی کسنگ کرنے میں زمان کا ساتھ دے رہی تھی۔۔


زمان نے جب دیکھا کہ اب نیلوفر مکمل طور پر اسکے قابو میں ہے تو اس نے اسے چھوڑ دیا اور اس سے الگ ہو گیا۔۔ نیلو فر حیرانی سے زمان کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ جیسے پوچھ رہی ہو کہ کیا ہوا۔۔


زمان ۔۔ یہاں ٹھیک نہیں ہے۔۔ تھوڑی دیر بعد میں تمکو بلاؤں گا تم آجانا۔۔ پھر وہاں سب کچھ کریں گے۔۔ نیلوفر اسکی بات سن کر شرما گئی۔۔۔ زمان کمرے سے نکل گیا۔۔ اور نیلوفر واپس صوفے پر آکر بیٹھ گئی۔ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا ہاتھ اپنے ٹراؤزر کے اوپر سے اپنی چوت پر رکھا تو اسے اپنی چوت گیلی ہوتی ہوئی محسوس ہوئی چوت کو ہاتھ لگتے ہی ہماسک پڑی اور زور سے اپنی چوت کو اپنی مٹھی میں دبا لیا۔۔


رات کے 2 بج رہے تھے۔۔ اور نیلوفر بار بار ٹائم دیکھ رہی تھی۔۔ زمان ابھی تک اسے بلانے کے لیے نہیں آیا تھا


۔۔۔ اسے حیرانی ہو رہی تھی کہ کیا زمان اسے بھول گیا ہے۔۔ اسے غصہ آرہا تھا کہ اس نے زمان کا موبائل نمبر بھی نہیں لیا۔۔ ورنہ شائد وہ اسے کال بھی کر دیتی۔ یہ اسکا شوہر تو ابھی تک سورہا تھا۔ شائد کچھ میڈیسن کا اثر تھا۔۔ نیلوفر اپنے مو بائل میں خود کو مصروف کر رہی تھی۔۔ اتنے میں دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔۔ نیلو فر چونک اتھی۔ اور اسکے چہرے کے مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے دوڑ کر دروازہ کھولا ت سے اپنی مسکراہت فور اچ پانی پڑی۔۔ کیونکہ سامنے ہاسپٹل کا سوئیپر رشید کھڑ ا تھا۔۔


نیلوفر جی۔۔ کیا بات ہے۔۔ ؟؟؟؟


رشید ۔۔ میڈم جی۔۔ وہ آپ کو ڈاکٹر زمان بلا رہے ہیں اپنے اوپر والے آفس میں۔۔ شائد آپکے مریض کے بارے میں کچھ بات کرتی ہے۔۔


نیلوفر سمجھ گئی تھی کہ زمان نے کو نسی بات کرتی ہے۔۔ وہ بولی۔۔۔ اچھا میں آتی ہوں۔۔ .


رشید چلا گیا۔۔ نیلو فر نے اندر جا کر اپنے شوہر کو چیک کیا۔ کہ وہ سورہا ہے نا ابھی تک۔۔ پھر ہاتھ روم میں جاکر اپنے پرس میں سے لپ اسٹک نکال کر اپنے ہونٹوں پر لگائی۔ اپنے میک اپ کو دوبارہ سے بلک بھا کا بیچ دیا۔۔ اور فریش ہو کر اپنے کمرے سے باہر نکل آئی۔ اور ادھر ادھر دیکھا۔ کوئی نہیں تھا۔۔ ایک طرف رشید ایک پیچ پر لیٹا ہوا تھا۔۔ شائد وہ بھی سو گیا تھا۔۔ نیلوفر آہستہ آہستہ اوپر کی طرف بڑھی۔ اس نے سیڑھیوں سے ہی جانے کا ارادہ کیا۔۔


او پر پہنچ کر دیکھا تو ایک کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اور لائٹ جل رہی تھی۔۔ باقی کمرے تو جیسے خالی ہی لگ رہے تھے۔۔ یا کوئی اندر مریض تھا بھی تو دروازے بند تھے ۔۔ نیلوفر کھلے ہوئے دروازے کی طرف گئی۔۔ تھوڑا سا اسے کھولا تو اسے ڈاکٹر زمان اندر صوفے پر بیٹھا ہوا نظر آیا۔ یہ وہی کمرہ تھا جہاں زمان نے ہما کو پہلی بار چودا تھا ۔۔ اور نجانے اب تک کتنی اور لڑکیوں کو وہیں پر چود چکا تھا۔ نیلوفر نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اپنے قدم کرے


میں داخل کر دیئے۔۔ اور اندر جا کر دروازہ بند کر دیا۔۔

Comments

Popular posts from this blog

سچی کہانی۔۔ قسط نمبر 1

"*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 3

*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 4