ڈاکٹر ہما قسط 54,55
کچھ دیر تک دونوں ہی ایک دوسرے کے لنڈ اور چوت کو چاٹتے اور چوستے ہوئے ایک دوسرے کو مزہ دیتے رہے ۔۔۔ پھر یا سر اٹھ گیا۔۔ اور ہما کے چہرے کے اوپر ہی تھوڑا سا کھڑے ہوتے ہوئے اپنے لئے اسکے منہ کے آگے لہرانے لگا۔۔ ہما نے ایک نظر یا سر کے چہرے کی طرف دیکھا۔۔ اور پھر اپنی زبان اسکے ٹٹوں کی جھری دار تھیلی پر پھیر نے لگی۔۔۔ اسکو چاٹنے لگی۔۔ یاسر نے نیچے کو ہاتھ لے جاکر اپنے ٹٹوں کو پکڑا اور ایک کو ہما کے منہ کے اندر ڈالنے لگا۔ ہما نے اپنا پورا منہ کھولا اور اسکے ایک نئے کو اپنے منہ کے اندر لے کر اسے آہستہ آہستہ چوسنے اور ۔۔ اسے پر زبان پھیر نے لگی۔۔۔ یا سر کو اس طرح سے ہما سے اپنے لئے چسوانے میں بھی بے حد مزہ آرہا تھا۔۔۔
اسکے خوبصورت ممے یا سر کے سامنے تھے۔۔ جن سے وہ کھیل رہا تھا۔۔۔ یا سر اٹھا۔۔ اور ہما کے سینے پر آکر بیٹھ گیا۔۔ اپنے لوڑے کو ہما کی دونوں چھاتیوں کے درمیان رکھا۔۔ اور اسکی چھاتیوں کو اپنے لوڑے پر دبالیادونوں طرف سے۔۔ اور لوڑا آگے پیچھے کرنے لگا۔۔ مگر لوڑا ٹھیک سے حرکت
پھر نہیں کر رہا تھا۔۔ یا سر نے اپنے لوڑے کو اسکی چھاتیوں کے درمیان میں سے ہٹایا۔۔ اور نیچے جھک کر دونوں چھاتیوں کے درمیان کی جگہ پر تھوک گرادیا۔۔ دو تا ادیا۔۔ دو تین بار میں کافی سارا تھوک گرا کر اپنے لوڑے کی ٹوپی سے
اسے درمیانی حصے پر ملنے لگا۔۔ پھر اپنا لوڑا اسکے سینے کے ابھاروں کے درمیان رکھا۔۔ اور آہستہ آہستہ اپنا لوڑا آگے پیچھے کرنے لگا۔۔ ہما کی چکنی چھاتیوں کے درمیان اب یا سر کا لوڑا پھسل رہا تھا ۔۔۔ اور وہ اسکی چھاتیوں کو اپنے
لوڑے پر دبائے جا رہا تھا۔۔۔ ہما کو بھی یہ سب اچھا لگ رہا تھا۔۔۔
کچھ دیر کے بعد یا سر نیچے آیا۔ ہما کی دونوں ٹانگوں کو کھول کر اپنے کندھوں پر رکھا۔۔۔ اور اپنا لوڑا ہما کی چوت پر رکھ دیا۔۔ لوڑے سے ہما کی چوت کے دانے کو رگڑا تو ہما تڑپ کر رہ گئی۔۔۔ ہما کو یا سر اپنے لوڑے سے تڑپا رہا تھا آخر اپنی چوت کی آگ سے تنگ آکر ہما نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اسکا لوڑا پکڑا اور اسے اپنی چوت پر ٹکا کر اپنی دونوں ٹانگوں کو اسکی کمر پر رکھ کر زور سے اپنی طرف کھینچ لیا۔۔ اور غزاپ کی آواز کے ساتھ یا سر کالوڑا پورے کا پورا۔۔
ہما کی چوت میں اتر گیا۔۔ ہما کی اس حرکت پر یا سر مسکرا کر رہ گیا۔۔
یا
سر ۔۔ لگتا ہے بہت زیادہ آگ لگی ہوئی ہے آپکی چوت میں بھائی جی۔۔
ہما۔۔ جب دیور صرف بھابی کو تڑپاتا ہی رہے گا تو بھابی کو بھی کچھ نہ کچھ تو کر نا ہی ہو گا نا۔۔
یا سر ۔۔ بھائی جی۔۔ اب اپنے دیور کو تھوڑا آزاد تو کریں تاکہ ٹھیک سے آپکی چوت چود سکے۔۔
ہمانے مسکرا کر اپنی ٹانگیں اسکی کمر پر سے ہٹا دیں۔۔
یا سر نے مسکرا کر اپنے دونوں ہاتھ ہما کی دونوں چھاتیوں پر رکھے۔۔ اور نیچے سے دھکے لگاتے ہوئے ہما کو چودنے
لگا۔۔ اسکا لوڑا ہما کی چوت میں گہرائی تک جاتا اور پھر سے باہر نکال کر اسے اندر ڈال دیتا۔۔ ہما بھی اسکا ساتھ دے رہی تھی چدائی میں۔۔ تقریباً آدھے گھنٹے تک وہ ہما کو چودتا رہا۔۔ اس دوران ہما کی چوت نے دو بار اپنا پانی چھوڑ دیا۔۔ اور بالآخر یا سر کے لوڑے کا بھی پانی ہما کی چوت میں نکل گیا۔۔ دونوں نڈھال ہو کر ایکدوسرے کے پاس ہی بیڈ پر لیٹ گئے۔۔
تھوڑا ہوش آیا تو یا سر نے ہما کے مموں کو اپنے ہاتھوں سے سہلا نا شروع کر دیا۔۔
یا سر ۔۔ بھائی جی۔۔ آپ ناراض تو نہیں ہیں نا۔۔
ہما مسکرائی۔۔ دیور جی۔۔ پہلے اپنے دوست کی بیوی کو بلیک میل کرتے ہو اور پھر پوچھتے ہو کہ ناراض تو نہیں ہوں
۔ ابھی بتاتی ہوں میں اسکا جواب۔۔
ہما کچھ نمبر ملانے لگی۔۔
بیڈ پر سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔۔ سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا۔۔ اور اس میں سے اپنا مو بائل نکال لیا۔۔
ہا۔ ہیلو۔۔ ہاں ڈاکٹر زمان۔۔ یار میں آج رات ڈیوٹی پر نہیں آرہی۔۔ آپ پلیز کو ور کر لینا۔۔ اوکے تھینکس ۔۔۔
فون بند کر کے ہمانے مسکراتے ہوئے یا سر کی طرف دیکھا۔ تو وہ خوشگوار حیرت سے ہما کو دیکھ رہا تھا۔۔ تو کیا اب آپ گھر واپس جائیں گی ہاسپٹل کی بجائے۔۔
ہمانے ایک ادا سے اسکی طرف دیکھا اور بولی۔۔ آپ تو مجھے اپنے گھر سے نکالنے پر تیار ہو۔۔ کیا ایک رات کے لیے اپنی بھابی کو اپنے گھر پر رہنے نہیں دے سکتے ۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟
ہماکی ایسی کھلی آفر سن کر یا سر کا منہ کھلے کا کھلارہ گیا۔ اس نے فور آہی ہم کو اپنے اوپر پیچ کھینچ لیا اپنی بانہوں میں بھرتے سے بھابی جی۔۔ جم جم رہو آپ ۔۔ یہ گھر بھی آپ کا ہے۔۔ اور یہ دیور بھی به دیور بھی آپ کا ہی ہے۔۔۔۔ ہمانے ہوئے۔۔ ارے بھا بھی مسکراتے ہوئے اپنا سر یا سر کے سینے پر رکھ دیا۔۔۔ماڈیوٹی پر پہنچی اور اپنے آفس میں آگئی ۔۔ ڈاکٹر زمان نظر نہیں آرہے تھے۔۔ زیب اپنا کام ختم کر چکی ہوئی تھی وہ آکر ہما کے پاس بیٹھ گئی۔۔ ہما بولی۔۔
ہما۔۔ یہ ڈاکٹر زمان نظر نہیں آرہے۔۔ ؟؟؟ آئے نہیں کیا ابھی تک۔۔۔؟؟
زیب مسکرائی۔۔ اور شرارت سے آنکھ مار کر بولی ۔۔ او۔۔ ہو۔۔۔۔۔ آتے ہی مستیاں کرنے کا پرو گرام بن گیا ہے کیا۔۔
ہما ہنس پڑی۔ نہیں یار ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔۔ میں تو ویسے ہی پوچھ رہی تھی۔۔ اور تم ہمیشہ ہی بات کو کہیں کا کہیں لے جاتی ہو۔۔
زیب۔۔ ارے چھوڑیں ڈاکٹر ہما۔۔ آپ کو ایک چیز دکھاتی ہوں۔۔ یہ کہہ کر زیب ہما کے قریب آگئی۔۔ اور اپنے موبائیل کی گیلری کھول کر ہما کے سامنے ایک تصویر کر دی۔ جو کہ زیب کی تھی۔۔ اور وہ باتھ روم میں ننگی کھڑی نہا
رہی تھی۔۔ ہما نے غور سے دیکھا اور بولی۔۔ ارے یہ کیا۔ یہ تو میرے ہاتھ روم کی تصویر ہے۔۔۔ نہیں تم نے ہمانے اپنی بات کو ادھورا چھوڑا اور تصویروں کو آگے سلائیڈ کرنے لگی۔۔ کچھ تصویر میں زیب کی ہاتھ روم میں تھیں۔۔ اور اسکے بعد ہما کے بیڈ روم میں ننگی کھڑی ہو کر کچھ تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ ہما حیرانی سے انکو دیکھتی رہی۔۔ اور پھر اگلی تصویر میں ہما چونک پڑی۔۔ کیونکہ اس تصویر میں انور ہما کو چود رہا تھا۔۔ اور آگے کی تصویریں ان دونوں کی ایک ساتھ کی تھیں۔۔۔
زیب۔۔ کیوں پھر ڈاکٹر صاحبہ ۔۔ کیسا رہا۔۔ کر دی نامیں نے اپنی کہی ہوئی بات پوری۔۔
ہما مسکرائی۔۔ بہت کمینی ہو تم یار زیب بننے لگی۔ بابابابابابابابابابا ۔۔۔ ہاں وہ تو میں ہوں دونوں بننے لگیں۔۔ ہما کی نظر زیب کے ہاتھ میں پہنی ہوئی ڈائمنڈ رنگ پر پڑی۔۔
ہما۔۔ ارے یہ کب لی تم نے۔۔ بہت پیاری ہے یہ تو ۔۔ دکھاؤ تو ۔۔
زیب نے اپنا ہاتھ آگے کر کے ہما کے ہاتھ میں پکڑایا۔۔ اور ہما اسکی رنگ کو دیکھنے لگی۔۔ پھر زیب نے رنگ اتار کر اسے
پکڑا دی۔۔۔
ہما۔۔ کتنے کی لی ہے۔۔
زیب۔۔ گفٹ ہے یار یہ تو۔۔
ہما حیران ہو کر ۔۔ ارے اتنا قیمتی گفٹ دے دیا تمکو تمھارے اس بوائے فرینڈ نے
زیب مسکرائی یہ ہے بس ایک خاص دوست جو اپنے دوستوں کو اس سے بھی مہنگے گفٹ دیتا ہے۔۔ بس دوستی . پکی اور خاص ہونی چاہیے۔۔۔ زیب نے ہما کو آنکھ مار کر کہا۔۔
ہما اسکی بات کو کچھ کچھ سمجھ گئی تھی۔۔۔ مگر اس سے پہلے کہ ہما کچھ اور پوچھتی زیب بولی۔۔
زیب۔ آپ کسی دن چلیں نا۔۔ میں آپ کو اس سے ملواؤں گی۔۔
ہما کی نظر ابھی بھی اسکی ہیرے کی انگوٹھی پر تھی۔۔ ہیں کون آخر وہ تمھارے خاص دوست۔۔
زیب۔۔ وکرم سیٹھ۔۔ سنا ہی ہو گا تم نے انکا نام۔۔
ہما بولی۔۔ نہیں۔۔ میں نے تو نہیں سنا۔۔ ویسے کافی امیر لگتے ہیں تمھارے یہ دوست۔۔ .
زیب۔۔ میں نے تو کہا ہے کہ کسی دن چلیں آپ کو ملواتی ہوں ان سے۔۔ بلکہ آپ کی بھی ان سے دوستی کروادیتی ہوں۔۔ بولیں کریں گی ان سے دوستی۔۔۔ پکی والی۔۔
ہما کے چہرے پر لالی دوڑ گئی۔۔ اب اور کس کس سے دوستی کرواؤ گی میری تم پہلے زمان اور پھر فرخ ۔۔ اور اب یہ وکرم سیٹھ۔۔۔
زیب آگے کو جھکی اور ہما کے گال کو چوم کر بولی۔۔ ارے میری بھولی بھالی ہما جی۔۔ اس زندگی کو انجوائے کریں۔۔ ایک ہی بار تو ملتی ہے زندگی ۔۔۔
ہما۔ لیکن یار وہ انور۔۔۔
زیب ہما کی شرٹ کے اوپر سے ہی ہما کے مجھے پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی ۔۔ ارے انکی فکر کیوں کر رہی ہیں آپ۔۔ دیکھا نہیں وہ تو خود انجوائے کر رہے ہیں۔۔۔ ان کی فکر نہ کریں انکو میں سنبھال لوں گی۔۔
ہما مسکرادی۔۔
زیب۔۔ پھر کب چلنا ہے وکرم سیٹھ کی طرف .
ہما۔۔ اچھا میں پھر بتاؤں گی۔۔ ایک دو دن میں۔۔ .
زیب۔۔ اوکے۔۔
اتنے میں دروازہ کھلا اور ڈاکٹر زمان اندر داخل ہوئے۔۔ اور آکر انکے سامنے کے صوفے پر بیٹھ گئے۔۔ زیب شرارت سے مسکراتی ہوئی بولی۔۔ ڈاکٹر زمان چیک کر آئے پھر آپ روم 27 والے مریض کو۔۔
ڈاکٹر زمان مسکرائے۔۔ ہاں۔۔ کر آیا ہوں۔۔ اور کچھ دیر بعد دوبارہ جاؤں گا۔۔
زیب۔۔ بہت چکر لگ رہے ہیں روم 27 کے۔۔ کوئی کام بنا بھی آپ کا یا نہیں ابھی۔۔
زمان مسکرایا۔ اور آنکھ مار کر بولا۔۔ ہاں۔۔ کچھ کچھ تو بن گیا ہے۔۔ امید ہے کہ رات کو کام پورا ہو جائے گا۔۔
ہم انکی باتیں سن رہی تھی ۔۔ وہ بھی بول پڑی۔۔ یہ کیا معاملہ ہے روم 27 کا۔۔ مجھے بھی تو بتاؤ۔۔ کہیں پھر کوئی فی
میل اٹینڈینٹ کا معاملہ تو نہیں۔۔۔
Comments
Post a Comment