ڈاکٹر ہما قسط 52,53


ہمانے اس سے اپنا ہاتھ چھٹروایا اور فرخ اور زمان کی طرف بڑھ گئی۔۔ اور اپنی سیٹ پر بیٹھی جا کر تو تھوڑی دیر کے بعد یا سر انکے پاس سے گزرا۔۔ اور اس نے مسکراتی ہوئی ایک نظر ہما پر ڈالی اور اسے آنکھ مار دی۔۔ کچھ ہی دیر میں ہما ان دونوں کے ساتھ واپسی کے لیے نکل گئی۔۔


واپسی کے دوران اس بار زمان ہما کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔۔ اب اس نے ہما کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کی ۔۔ مگر اب ہما کا من نہیں تھا یہ سب کچھ کرنے کا۔۔ اس لیے اس نے آرام سے سمجھا دیا کہ وہ اسکا موڈ نہیں ہے۔۔ زمان نے کبھی تھوڑا موڈ خراب کیا۔۔ مگر پھر مان گیا۔۔ اور ہما کو صرف اپنے جسم کے ساتھ چپکا کر بٹھا لیا۔۔


اگلے دن دو پہر کو جب انور گھر واپس آیا تو یا سر بھی اسکے ساتھ تھا۔۔ اسکے ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ تھا۔۔ شائد کسی مال سے شاپنگ کر کے آرہا تھا۔ جیسے ہی ہمانے یا سر کو انور کے ساتھ گھر آتے ہوئے دیکھا تو اسکے چہرے پر


پریشانی کے آثار نظر آنے لگے۔۔ یا سر ہما کو دیکھ کر مسکرایا۔ اور اسے آنکھ بھی مار دی۔۔ ہما نے سب کے لیے


ٹیبل پر کھانا لگایا۔۔ اور تینوں ملکر کھانا کھانے لگے۔۔


یا سر بولا۔۔ اور سنائیں بھائی جی۔۔ آپکی نائٹ ڈیوٹی کیسی جارہی ہے۔۔


ہما گھبرا کر ۔۔ آآآآ۔۔۔ ہاں ۔۔ ٹھیک جارہی ہے۔۔۔


یا سر ۔۔ لگتا ہے بھابی جی کو نائٹ ڈیوٹی میں زیادہ ہی مزہ آنے لگ گیا ہے جو مسلسل نائٹ ڈیوٹی ہی کیے جارہی ہیں


ہمانے بے بسی سے یاسر کی طرف دیکھا۔۔ تو وہ مسکرانے لگا۔۔


کھانا کھانے کے بعد انور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔ اور ہما نے خاموشی سے برتن اٹھائے اور ٹرے لے کر کچن میں چلی گئی۔۔۔ یا سر بھی اسکے پیچھے آگیا۔۔ اور اندر آتے ہی ہما کو پیچھے سے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔۔ ہما گھبرا گئی۔۔


ہما۔۔ یاسر بھائی۔۔ پلیز۔۔۔ چھوڑ دیں مجھے۔۔ پلیز نہیں کریں۔۔


یا سر نے ہما کے جسم پر اپنی گرفت سخت کی۔۔ اور اسکی گردن کو چومتے ہوئے بولا۔۔ کیوں بھابی جان۔۔ باہر


والے آپکے اس حسین جسم کے مزے لے رہے ہیں تو میں کیوں نہ لوں۔۔ میرا تو آپ پر حق زیادہ بنتا ہے۔۔ یا سر


نے ہما کے جسم کو اپنی بانہوں میں گھمایا۔۔ اور اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔۔ اور اسکے ہونٹوں کو چومنے


لگا۔۔ ہمامز احمت کرنے لگی۔۔ خود کو چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی۔۔ مگر وہ یا سر کے قبضے میں سے اپنا جسم نہ


چھڑوا سکی۔ یہ پیچھے سے انور کے ہاتھ ہما کے جسم پر سرک رہے تھے۔۔ اسکے جسم کو سہلا رہے تھے۔۔ ہما بے بس


ہوتی جارہی تھی۔۔ یا سر اپنا ہاتھ نیچے لے جاکر ہما کی سڈول گانڈ کو دبانے لگا۔۔۔ اتنے میں بیڈ روم کا دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی۔۔ یا سر نے جلدی سے ہما کو چھوڑ دیا۔۔ اور تھوڑا سختی سے بولا۔۔ آج شام کو ڈیوٹی پر جانے سے پہلے 7 بجے۔۔۔ تم میرے گھر پر آؤ گی۔۔۔ سمجھ آگئی ہے نا۔۔۔ اور اگر نہ آئی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کو پتہ ہی


ہے کہ میں کیا کروں گا۔۔


یہ کہہ کر یا سر نے ہما کو چھوڑا اور کچن سے باہر نکل گیا۔۔ اور جاکر یا سر کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا۔۔ کھانے کے بعد سب نے چائے پینے لگے۔ یاسر نے اپنا شاپنگ بیگ سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا ہوا تھا۔۔ جو کہ اس وقت انور اور یاسر کے درمیان میں تھی۔۔ اچانک ہی انور نے وہ بیگ اٹھا یا اور بولا۔۔


انور۔۔ ارے یار دکھاؤ تو سہی کیا شاپنگ کر کے آ رہے ہو۔۔ یا سر نے اس سے بیگ واپس لینا چاہا۔۔ ارے یار کچھ نہیں ہے بس ایسے ہی۔۔ رہنے دو تم ۔۔


مگر انویر نے بیگ کو اپنی طرف کر لیا۔۔ اور اسکو کھول کر ایک چھوٹا سا پیکٹ نکالا ۔۔ ہما بھی انور کے قریب ہی بیٹھی ہوئی تھی۔۔ اس پیکٹ کو کھولا تو اس میں ایک لیڈیز ڈریس تھا۔۔ انور نے اسے پورا کھول دیا۔۔


انور ۔۔ ارے یار یہ تو نائی ہے۔۔ اور وہ بھی اتنی سیکسی۔۔ لگتا ہے بھابی کے لیے لے کر آئے تھے۔۔ سوری میں نے کھول کر دیکھ لی۔۔ ویسے ہے زبردست چیز۔۔


وہ ایک نائی تھی۔۔ باریک کی نیٹ والی بلکل ٹرانسپیرنٹ نائی ۔۔ جسکو پہننے کے بعد نیچے سے پورا جسم ہی ننگا نظر آنا تھا۔۔ ہما بھی اسے دیکھ رہی تھی۔۔ مگر اس نے کوئی بات نہیں کی۔۔ انور نے اسے واپس ہنڈ بیگ میں ڈالا اور بیگ ایک طرف رکھ دیا۔۔ تھوڑی دیر کے بعد یا سر اپنے گھر چلا گیا۔۔


ہما بر تن و غیرہ سیمیٹ رہی تھی کہ اسکا فون بجا۔ اس نے دیکھا تو اسکے ہاسپٹل کے مالک۔۔ اور باس۔۔ کمال صاحب کی کال تھی۔۔ ہما نے جلدی سے کال اٹینڈ کی۔۔ اور ان سے باتیں کرنے لگی۔۔ کچھ دیر تک باس سے بات چیت کرنے کے بعد ہمانے فون بند کر دیا۔۔ اور پھر ہما انور کے ساتھ آرام کرنے کے لیے لیٹ گئی۔۔۔ لیٹ کر بھی وہ یاسر کے متعلق ہی سوچ رہی تھی۔ جو کچھ اس نے کچن میں اسکے ساتھ کیا تھا۔۔ اور وہ جو شام کو اسکے ساتھ کرنے والا تھا۔۔۔ وہ اچھے سے جانتی تھی کہ وہ اسکو چودے بنا نہیں چھوڑے گا آج۔۔۔ مگر ہما کے پاس کوئی اور


چارہ بھی تو نہیں تھانا۔۔۔


شام میں ہما انور سے بہانہ کر کے گھر سے جلدی نکل پڑی۔۔ اور ٹھیک 7 بجے اس نے یاسر کے دروازے پر دستک دے دی۔۔۔ یاسر نے دروازہ کھولا تو ہما کو اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر مسکرانے لگا۔۔ ہما کو گھر میں داخل ہونے کا


راستہ دیا۔۔ ہما خاموشی سے اندر آگئی۔۔ اور صوفے کے قریب کھڑی ہو گئی۔۔ یا سر در واز و لاک کر کے آیا اور


صوفے پر بیٹھ گیا۔۔ اسکے سامنے ہی ٹیبل پر وہی شاپنگ بیگ پڑا ہوا تھا۔۔


انور بولا۔۔ بھائی جی۔۔ یہ بیگ اٹھاؤ اور اندر جا کر اسے پہن لو۔۔ آپکو تو اب پتہ ہی ہے کہ اس میں کیا ہے۔۔ سالے


نے سر پرائز ہی نہیں رہنے دیا۔۔


ہمانے چونک کر اسکی طرف دیکھا۔۔۔ اسے پتہ تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔۔ پھر بھی وہ ایک کو شش کرنا چاہتی تھی ۔۔۔ یا سر پلیز میں یہ سب نہیں کر سکتی۔۔ یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔۔۔


یاسر بھائی جی یہ سب آپ انکے ساتھ کر سکتی ہیں تو میرے ساتھ کیوں نہیں کر سکتیں۔۔


ہما۔ پلیز مجھے اس سب کے لیے معاف کر دو۔۔ آئندہ وہ سب نہیں کروں گی۔۔


یا سی۔ بھائی جی ۔۔ اس سب کے لیے معافی تو آپ کو انور سے مانگنی چاہیے نا۔ میرے سے کیوں۔۔ کیا خیال ہے کہ چلیں دونوں انور کے پاس اور اسکو سب کچھ بتاکر اس سے معافی مانگتے ہیں۔۔


ہما۔۔ نہیں۔۔ نہیں پلیززززززز۔۔۔۔۔۔۔


اب انور تھوڑا سختی سے بولا۔۔ تو پھر خاموشی سے جاؤ اور جا کر یہ نائٹی پہن کر باہر آؤ۔۔ تاکہ تمھارا یہ ڈریس خراب نہ ہو آخر ا بھی تم نے اپنی نائٹ ڈیوٹی پر بھی جانا ہے نا۔۔۔ تمکو اتنی تو سہولت دے رہا ہوں نا کہ تم بیڈ روم میں جا کر ڈریس تبدیل کر سکوں۔ ورنہ میں نہیں کرنے کو بھی کہہ سکتا تھا۔۔


ہما سمجھ رہی تھی کہ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔۔ ہما نے خاموشی سے وہ بیگ اٹھایا۔۔ اور بیڈ روم کی طرف بڑھ گئی۔۔ اندر


جاکر اس نے دروازہ بند کیا۔۔ اور بیگ بیڈ پر رکھ دیا۔ آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے چہرے پر چھائی ہوئی


بے بسی کو دیکھنے لگی۔۔ پھر آہستہ آہستہ اسکے ہاتھ اپنی شرٹ کے نچلے حصے پر گئے اور اس نے اپنی شرٹ کو اوپر کو اٹھانا شروع کر دیا۔۔ اور اگلے ہی لمحے اپنی شرٹ اتار کر ساتھ ہی پڑے ہوئے صوفے پر رکھ دی۔۔ اب اسکے


اوپری جسم پر سفید رنگ کی بریئرز تھی۔۔ جس میں ہما کے خوبصورت ممے تنے ہوئے تھے۔۔ ٹائٹ برانے اسکے


بھرے بھرے مموں کو اور بھی اوپر کو اٹھایا ہوا تھا۔ جو کہ دیکھنے والوں پر قیامت ہی تو ڈھاتے تھے۔۔ بھری


بھری چھاتیوں کے درمیان اسکا خوبصورت اور سیکسی کلیو بیج۔۔ اُف ف ف ف ۔۔۔۔ خود کو دیکھتے ہوئے ایک بار


تو ہما کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل ہی گئی۔۔۔ پھر ہما نے اپنی جینز بھی اتار دی اور اسے بھی صوفے پر رکھ دیا۔۔اب وہ صرف سفید برا اور پینٹی میں تھی۔۔ ہما نے بیڈ پر رکھے ہوئے بیگ میں سے نائٹی نکالی اور اسے اپنے نیم برہنہ جسم پر پہین لیا۔ اسکا گورا گورا جسم اس کالے رنگ کی ٹرانسپیرنٹ نائٹی میں جیسے چمک اٹھا۔۔ باریک نائٹی میں سے جھانکتا ہوا اسکا جسم بہت ہی سیکسی لگ رہا تھا۔ نائٹی اسکی باف تھائیز تک تھی۔ نیچے سے آدھی را نیں اور پوری ٹانگیں بلکل ننگی تھیں۔۔ اوپر سے بھی نائٹی کے بازو نہیں تھے۔۔ بلکہ صرف بار یک ڈوریاں تھیں اسکے کندھوں پر ۔۔ پورا سینہ تو ویسے ہی ننگا ہو رہا تھا۔۔ اور باقی جسم نائٹی میں سے جھانک رہا تھا۔۔۔ خود کو دیکھ کر ہما آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھی۔۔۔


جیسے ہی ہم دروازہ کھول کر بیڈ روم سے باہر آئی تو یا سر نے اسے دیکھتے ہی ایک زور دار سیٹی ماری۔۔ جس پر ہما بھی شرما گئی۔ اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اسکی طرف آنے لگی۔۔ یاسر کے قریب آئی تو اس نے اپنی ران پر ہاتھ مار کر اسے وہاں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ہما بھجیتی ہوئی آگے بڑھی اور یاسر کی ران پر بیٹھ گئی۔۔ اسے بہت ہی عجیب لگ رہا تھا ہ۔ یہ تو اسے ہمیشہ سے ہی پتہ تھا کہ یا سر اس کا دیوانہ ہے اور ہر وقت اسکے جسم کو تار تار ہتا ہے۔۔ مگر اس نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک دن وہ اسکی بانہوں میں ہو گی۔۔


یاسر نے اپنی گود میں بیٹھی ہوئی اپنے بہترین دوست کی بیوی کی ننگی رانوں کو سہلا نا شروع کر دیا۔۔ اسکا ہاتھ ہما کی چکنی رانوں پر پھسل رہا تھا۔۔ رانوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے ہما کے گال کو چوم لیا۔۔ اور بولا۔۔ بھابی جی بہت ہی چکنی ہو آپ تو ۔۔ بلکل مکھن کی ڈلی لگتی ہو۔۔۔ یاسر کی اس بات پر ہما بھی ہولے سے مسکرادی۔۔ یا سر نے اب اپنے ہونٹ ہما کے ہونٹوں پر رکھ دیئے اور اسکے ہونٹوں کو چومنے لگا۔۔ پھر اپنا منہ ہٹایا۔۔ اور اپنی زبان نکال کر ہما کے ہونٹوں پر پھیرنے لگا۔۔ دونوں کی نظریں ملی ہوئی تھیں۔۔ ہما نے اپنے لبوں کو تھوڑا سا کھول دیا ۔۔ اور یاسر نے اپنی زبان ہما کے ہونٹوں کے اندر سر کا دی۔۔ ہما نے اپنے لبوں کے درمیان اسکی زبان کو جکڑ لیا۔ اور آہستہ آہستہ اسے چوسنے لگی۔۔ یاسر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے۔۔ شائد اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر یاسر سے چدنا ہی اسکے مقدر میں لکھا ہے تو کیوں نا اسے انجوائے کیا جائے اور مزہ لیا جائے۔۔۔


یا سر کو بھی ہما کا تعاون دیکھ کر خوشی ہو رہی تھی۔۔ اس نے اپنا ہا تھ اسکی ران سے اوپر کو بڑھایا۔ اور ہما کے مجھے پر رکھ دیا۔۔ اور اسکی باریک نائی اور برا کے اوپر سے ہی کی چھاتی کو دبانے لگا۔ ان سے کھیلنے لگا۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن وہ اپنے اتنے اچھے دوست کی بیوی کے مموں سے کھیلے گا۔۔ اور اسے اسکو چودنے کی بھی پوری آزادی ہو گی۔۔ تھوڑی دیر تک ہما کے لبوں کا رس پینے کے بعد یاسر نے ہما کے نازک سے ؟ جسم کو اپنی بانہوں میں اٹھایا اور اپنے بیڈ روم کی طرف بڑھنے لگا۔۔ نیچے گرنے سے بچنے کے لیے ہمانے اپنے باز و یاسر کی


گردن کے گرد ڈال دیئے۔۔


بیڈ روم میں لا کر یا سر نے ہما کو اپنے بیڈ پر لٹادیا۔۔ اور اسکے جسم کو دیکھنے لگا۔۔ پھر نیچے جھک کر اس نے ہما کا گورا


گورا سفید پاؤں اٹھا یا۔۔ اور اسکو چومنے لگا۔۔ پاؤں کو چومتے ہوئے نیچے کو جانے لگا۔۔ اسکی ٹانگ کو کس کرنے


لگا۔۔ پھر اسکی رانوں کو چومتا ہوا انکو سہلانے لگا۔ جیسے جیسے یاسر کے ہونٹ اور ہاتھ ہما کے جسم پر سرک رہے


تھے۔ ویسے ویسے ہی ہما کے جسم میں کرنٹ سادوڑتا جا رہا تھا ۔۔۔ یا سر کے ہاتھ نے جیسے ہی اوپر کو سرکتے ہوئے


اسکی نائٹی میں داخل ہو کر اسکی چوت کو چھوا تو ہم نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔ اور اسکا پورا جسم ہی جھٹکا لے کر رہ


گیا۔۔ اس سب کو یا سر نے بھی محسوس کر لیا تھا۔۔ یاسر نے ہما کی نائٹی کو اوپر کو سر کا نا شروع کر دیا۔۔ اسکی رانوں


کو ننگا کرنے لگا۔۔ اور پھر اسکی پینٹی یا سر کی نظروں کے سامنے تھی۔۔ یاسر نے ہما کی پینٹی کے اوپر سے ہی اسکی


چوت کو چوم لیا۔۔ آہ 000000000000


ہما کے منہ سے ایک سرکاری نکل گئی۔۔۔ یا سر نے ہما کی


پینٹی کے اوپر سے ہی اسکی چوت کر رگڑنا شروع کر دیا ۔۔ ہما کو بھی اچھا لگ رہا تھا۔۔ اور اسے مزہ بھی آرہا تھا۔ کچھ


دیر کے بعد یا سر نے ہما کی پینٹی اسکے جسم سے الگ کر دی۔۔ اور اتار کر ایک طرف پھینک دی۔۔ ہما کی خوبصورت


گلابی چوت یا سر کے سامنے ننگی ہو گئی۔۔


یا سر ۔۔ بھائی جی۔۔ کیاز بر دست گلاب کے پھول کے جیسی کھلی ہوئی چوت ہے آپ کی قسم سے۔۔


ہما اسکی تعریف پر شرما گئی۔۔۔ بات تو ٹھیک سے کر لونا یاسر بھائی۔۔۔ کیسے گندے الفاظ استعمال کر رہے ہو آپ۔


یا سر ۔۔ کیا۔۔ کیا۔۔ یاسر بھائی ۔۔۔۔۔؟؟؟؟ ارے بھائی جی۔۔ کیوں ہمیں بہن چود بنانے پر تلی ہوئی ہیں آپ ۔۔۔ ہم تو آپ کے دیور لگتے ہیں۔۔ بھائی والی کوئی نہیں۔۔۔


اسکی اس بات پر ہماہننے لگی۔۔۔ تو کیا بھابی کے ساتھ یہ سب کرنا ٹھیک بات ہوتی ہے جی۔۔


ہما کی گلابی چوت کو سہلاتے ہوئے یا سر نے اسکی چوت کو چوما۔۔ اور بولا ۔۔ بلکل بھائی جی۔۔ دیور کا تو بھائی پر پورا پورا حق ہوتا ہے۔۔


ہما مسکرائی۔۔ بھابی پر حق ہوتا ہے۔۔ اسکے جسم پر حق کوئی نہیں ہوتا۔۔ اور خاص کر جب بھابی آپکے دوست کی


بیوی ہو تو ۔۔۔۔۔


یا سر ۔۔ ارے بھابی جی۔۔۔ جب دوست کی بیوی اتنی خوبصورت ہو تو کون کافر اسکو چودے بنا چھوڑے گا۔۔ دوستی جائے بھاڑ میں۔۔ پر یہ سالا لوڑ ا ضرور ایسی بھابی کی چوت میں جانا چاہیے۔۔


یہ چوت کو کھولا۔۔ ہما کی چوت کا گلابی منہ کھل گیا۔۔ اندر سے بھی گلابی گلابی حصہ جھانک رہا تھا۔۔ چوت کے اوپری حصے پر ہما کی چوت کا چھوٹا سا دانہ نظر آرہا تھا۔۔ یا سر نے جیسے ہی اسے اپنی زبان کی نوک سے چھوا۔۔ تو ہما کے


کہتے ہوئے یا سر نے اپنا منہ ہما کی چوت پر رکھ دیا۔ اور اسکی چوت کو چومنے لگا۔۔ دونوں ہاتھوں سے ہما کی


پورے جسم میں کرنٹ سا دوڑ گیا۔۔ یا سر نے اس چھوٹے سے دانے کو اپنی زبان کی نوک سے ہی رگڑنا شروع کر ۔


دیا۔۔ پھر اس حصے پر اپنے ہونٹ رکھے۔۔ اور اسے اپنے منہ کے اندر سک کرنے لگا۔۔ پریشر دیتے ہوئے اس


چھوٹے سے دانے کو اپنے منہ کے اندر کھینچنے لگا۔۔ ساتھ ہی اپنی زبان بھی اس پر پھیر رہا تھا۔۔۔ ہما کا تو لذت کے مارے برا حال ہو رہا تھا۔۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ بڑھا کر یا سر کے سر کے بالوں میں رکھے۔۔ اور اسکے بالوں کو


اپنی مٹھی میں لے کر اس کا سر اپنی چوت کی طرف کھینچنے لگی۔۔۔ یاسر نے اپنی زبان کو ہما کی چوت کے دانے سے نیچے کو سر کا یا۔۔ اور اسکی چوت کے اندر ڈال دیا۔۔ اور اندر کے حصے کو اپنی زبان سے چھیٹر نے لگا۔۔ ہما کو تو کنٹرول


کرنا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔ ہما کی چوت کو اپنی زبان سے چاٹتے ہوئے ہی یا سر نے اپنا پاجامہ نیچے سر کا دیا۔۔ نیچے اس


نے کچھ نہیں پہنا ہوا تھا۔۔ اسکو اکڑا ہو الوڑ اننگا ہو گیا۔۔ بیڈ کے اوپر ہی گھومتے ہوئے یا سر نے اپنا لوڑ اہما کے منہ


کے اوپر کر دیا۔۔ اور اپنا منہ اسکا بھی ہما کی چوت پر ہی تھا۔۔


ہمانے اپنے منہ کے سامنے جیسے ہی یا سر کا لوڑا دیکھا تو اسے عجیب سا لگا۔۔ مگر اسکا لوڑا اس پوزیشن میں ہونے کی


وجہ سے بار بار اسکے گالوں اور منہ کو چھو رہا تھا۔۔ ہما یا سر کا مطلب تو سمجھ ہی چکی تھی۔۔ اس نے یا سر کا لوڑا


اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔ اور اسے آہستہ آہستہ سہلانے لگی۔۔ سیکس سٹوریز کی طرح۔۔ بہت کوئی موٹا یا لمبا لوڑا


نہیں تھا۔۔ بس نارمل سائز کا ہی تھا۔۔ مگر تھا سفید رنگت کا۔۔ ہما نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے۔۔ اور بار بار


اپنے ہونٹوں کو بیچ کرتے ہوئے لوڑے کو اپنے ہونٹوں سے چوم لیا۔۔ اور پھر بار بار چومنے لگی۔۔ دھیرے


دھیرے اپنا منہ کھولا۔۔ اور یاسر کے لوڑے کی ٹوپی کو اپنے منہ میں لے لیا۔۔ اب اسے چوسنے لگی۔۔ بھی منہ


سے نکال کر اسے چاہنے لگتی۔۔ یاسر نے بھی نیچے کو زور لگا نا شروع کیا۔۔ تو اس کا لوڑا ہما کے منہ کے اندر حلق تک


جانے لگا۔۔ حلق سے ٹکرانے لگا۔۔ یا سر تو جیسے اسکے منہ کو ہی اسکی چوت سمجھ کر چود رہا تھا۔۔ لوڑے کو منہ میں


اندر باہر کرتے ہوئے۔۔


کچھ دیر تک دونوں ہی ایک دوسرے کے لنڈ اور چوت کو چاٹتے اور چوستے ہوئے ایک دوسرے کو مزہ دیتے رہے


۔۔۔ پھر یا سر اٹھ گیا۔ اور ہما کے چہرے کے اوپر ہی تھوڑا سا کھڑے ہوتے ہوئے اپنے لئے اسکے منہ کے آگے

Comments

Popular posts from this blog

سچی کہانی۔۔ قسط نمبر 1

"*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 3

*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 4