اُستانی جی قسط 5

 چنانچہ نا چاہتے ہوئے بھی میں آگے آ گیا اور بائیک پر بیٹھ گیا اب وہ میرے پیچھے بیٹھی لیکن اس دفعہ وہ میرے پیچھے مردانہ سٹائیل میں بیٹھی ۔۔۔ یعنی دونوں ٹانگیں ادھر ادھر کر کے ۔۔۔ اور پھر اس نے پیچھے سے میری قمیض کو سائیڈ پر کیا اور اور میرے ساتھ جُڑ کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف۔ وہ اس طرح میرے ساتھ جُڑی بیٹھی تھی کی ان کی گیلی پھدی میری گانڈ سے بلکل جُڑی ہوئی تھی اور ان کی پھدی کا گیلا پن مجھے بڑا ۔۔مزہ دے رہا تھا ۔۔۔ پھر میں نے تھوڑا آگے سے یو ٹرن لیا اور بائیک واپس صدر کی طرف موڑ لیا ۔۔۔اور منہ پیچھے کر کے مرینہ سے کہا ۔۔۔ باجی ایک کس تو دو۔۔۔ تو وہ بائیک سے تھوڑا اوپر اٹھی اور میرے ہونٹؤں سے ہونٹ جو ڑدیئے اور اس کے ساتھ ہی میں نے بائیک اور سلو کر دی اور ان کے نرم ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیکر ایک لحظے کے لیئے چوسا اورپھر چھوڑ دیا ۔۔۔۔ پھر میں نے مرینہ سے کہا ۔۔۔۔ باجی میرا پکڑیں نا ۔۔۔۔۔۔ یہ سن کر اس نے میرے پیٹ پر رکھا ہوا اپنا ہاتھ ہٹایا اور لن پر رکھ دیا ۔۔۔ پھر بولی ۔۔۔۔ تمھارا شلوار کیوں گیلی ہے تو میں نے جواب دیا ۔۔۔ کمال ہے آپ بھول گئیں یہ آپ کی اپنی ہی پھدی کا گیلا پن ہے ۔۔۔ سن کر وہ کھیسانی سی ہنسی ہنس کر بولی ۔۔۔۔۔ ہاں ہاں معلوم ہے یا ر۔۔۔ پھر اس نے میری شلوار کا نالا کھولا اور میرا ننگا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔۔ اور دھیرے دھیرے میری مُٹھ مارنے لگی ۔۔۔ لن کو پکڑنے کے کچھ دیر بعدوہ پھر سے گرم سے گرم ہوتی گئی اور ۔۔۔۔ اور بولی ۔۔۔۔۔ کمال ہے ۔۔۔ تم ابھی بھی قائم ہو ۔۔۔۔ پھر اس نے ۔میرے ۔۔ لن کو اپنا تھوک لگا کر گیلا کیا اور ہلکی ہلکی مُٹھ مارنے لگی ۔۔۔ اور کبھی کبھی میں منہ پیچھے کی طرف کر کے اس کے ہونٹ چوم لیتا تھا ۔۔۔۔ ہاں جب میں اور وہ اپنی زبانیں لڑاتے تو ۔۔۔ ہم دونوں مزید گرم سے گرم تر ہو جاتے تھے ۔۔ ۔۔۔ایک آدھ دفعہ میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کر کے شلوار کے اوپر سے اس کی پھدی پر بھی رکھا تو گیلے پن کی وجہ سے اس کی ریشمی شلوار اس کی چوت کے ساتھ چپکی ہوئی تھی ۔۔۔۔ ایسی ہی ایک بار جب میں نے شیشے سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اس سے کہا کہ باجی ایک کس تو دو نا ۔۔۔ تو وہ اوپر اٹھی اور اپنی زبان میرے ہونٹوں پر پھیرنے لگی ۔۔۔۔اور ساتھ ہی بڑی زور سے میرا لن بھی دبا دیا ۔۔۔ جس سے میری ہوشیاری میں سو گنا اضافہ ہو گیا اور میں نے ۔۔ مرینہ سے کہا باجی ایک بات پوچھوں؟ تو وہ اسی نشیلے لہجے میں بولی ۔۔۔ پوچھ میرے چندا ۔۔۔۔۔ تو میں نے کہا کیا آپ نے کبھی سکنگ کی ہے ؟ تو وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ تمھارا مطلب ہے لن چوسنا ہے ؟ تو میں نے کہا جی باجی ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ تمھیں کیا لگتا ہے تو میں نے بے دھڑک ہو کر کہا کہ میرے خیال میں آپ جیسی سیکسی لڑکی لن ضرور چوستی ہو گی ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ،۔۔۔ تم درست کہہ رہے ہو ۔۔ جو لڑکی بلیو فلم دیکھ لے خاص طور پر اپنے مرد کے ساتھ ۔۔۔ تو اس کا ۔۔ چاہے جی چاہے نہ چاہے اسے لن چوسنا پڑتا ہے ۔۔۔ تو میں نے کہا کہ ۔۔۔ تو کیا آپ بے دلی سے لن چوستی ہو ۔۔ تو وہ ایک دم اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولی ۔۔۔۔ شروع شروع میں عجیب لگتا تھا اب تو مزہ آتا ہے ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔ باجی کیا آپ میرا لن چوسو گی ؟ تو وہ بولی ہاں ضرور چوسوں گی ۔۔۔۔ تو میں نے کہا کیا آپ ابھی میرا لن چوس سکتی ہو؟ تو وہ بولی ۔۔۔ یہاں ؟ اس وقت ہم سٹیٹ بینک کے سامنے سے گزر رہے تھے ۔۔ تو میں نے کہا نہیں باجی کسی سنسان جگہ پر ۔۔۔ تو کہنے لگی ۔۔۔۔ یار پھر کبھی تسلی سے تمھارا لن چوسوں کی لیکن ۔۔۔۔۔ یہاں ۔۔۔ خطرہ ہو گا یار ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔دیکھیں نا ۔۔۔رات کتنی گہری ہو گئی ہے ۔۔۔ سڑکیں بھی سنسان ہیں ۔۔۔ ایسے میں بس تھوڑی سی دیر کے لیئے آپ میرا لن اپنے منہ میں لے لو گی تو کچھ بھی نہیں ہو گا ۔۔۔ وہ نہیں مان رہی تھی لیکن تھوڑے سےاصرار اور منت ترلوں کے بعد وہ بالآخر مان ہی گئی ۔۔۔ اور میرے لن کو آگے پیچھے کرتے ہوئے بولی ۔۔ٹھیک ہے بائیک کسی سنسان جگہ پر لے جاؤ۔۔۔

Title: Re: !!!!!!!!!... اُستانی جی

Post by: shahg on February 06, 2015, 07:02:41 pm

جس وقت مرینہ میرے لن چوسنے پر آمادہ ہوئی اس وقت ہم مریڑ چوک سے تھوڑا پیچھے تھے فوری طور پر تو مجھے کچھ سمجھ نہ آیا اور پھر میں نے جیسے ہی مریڈ چوک کراس کیا میرا بائیک خود بخود ہی دائیں طرف مُڑ گیا اور میں مریڑ چوک سے ساتھ ہی بائیں طرف مُڑ گیا ۔۔۔ تھوڑا آگے گیا تو وہاں کافی درخت اور اندھیرا تھا ۔۔۔ میں نے بائیک نالہ لئی جانے والے ایک کچے راستے پر موڑ لی ۔۔۔ مرینہ کے ہاتھ کی گرفت میرے لن پر کافی سخت ہو چکی تھی ۔۔۔اور میں نے بیک مرر سے دیکھا کہ وہ بار بار اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی جیسے خیالوں میں میرا لن چوس رہی ہو ۔۔۔۔پھر جیسے ہی میں کچے راستے پر مُڑا وہ بولی ۔۔۔ موٹر سائیکل کی ہیڈ لائیٹ آف کر دو ۔۔۔ اور مین نے موٹر سائیکل کی ہیڈ لائیٹ آف کر دی اور پھر تھوڑا آگے جا کر ایک محفوظ جگہ پر بائیک روک لی ۔۔۔ وہاں کافی اندھیرا تھا لیکن چاندنی رات کی وجہ سے ہم دونوں ایک۔۔۔ دوسرے کوباآسانی دیکھ رہے تھے۔۔۔ سامنے ہی نالہ لئی بڑی خاموشی سے بہہ رہا تھا ۔۔۔ وہ بائیک سے نیچے اتری اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ جگہ تو خاصی محفوظ لگ رہی ہے اور مجھے اشارہ کیا اب میں بائیک کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا اور وہ میرے سامنے زمین پر اکڑں بیٹھ گئی اور میں بائیک کو کھڑا کر کے اس کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا ہوا تھا ۔۔۔ اس نے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔ اور بولی ۔۔۔ یقین کرو ۔۔۔ میرا دل بھی لن چوسنے کو کر رہا تھا ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔ میری جان تم نے بتانا تھا نا ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ تم نے کہہ دیا ایک ہی بات ہے پھر اس نے اپنا سر نیچے کیا اور اپنے نرم ہونٹوں کی گرفت میں میرا لن کا ہیڈ لے کر اسے اپنے منہ میں لے جانے لگی ۔۔۔ آہ۔ہ ۔ ہ۔۔۔ میری آہ سُن کر اس نے لن کو منہ سے نکالا اوربولی ۔۔۔ جان!! ۔۔ تیرا لن بڑا مزیدار ہے۔۔ ۔ میں یہ سارے کا سارا کھا جاؤں گی ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔۔تو میں نے کہا میری جان ۔۔۔ یہ لن تمھارا اپنا ہے چاہے اسے کھا ؤ ۔چاہے اسے چوسو ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ٹھیک ہے لیکن پہلے اسے میں کون آئس کریم کی طرح چاٹوں گی ۔۔۔ پھر تیرا لن منہ میں لے کر چوسوں گی ۔۔ پھر کھا جاؤں گی ۔۔۔ وہ فل مستی میں تھی اس کی ہر ادا میں سیکس بھرا ہوا تھا ۔۔۔ اس کی آواز میں سیکس تھا ۔۔۔پھر وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولی اب میں تیرے لن کو گیلا کروں گی اور پھر اس نے دونوں ہونٹ جوڑے اور لن پر تھوک دیا اور ۔۔۔ پھر منہ کھول کر آہستہ آہستہ میرا لن اپنے منہ میں لینے لگی ۔۔۔ اور پھر بڑے مست چوپے لگانے لگی ۔۔۔ اور میرے منہ سے سسکیوں کا طوفان نکلنے لگا ۔۔۔ ایسے ہی ایک موقعہ پر جب اس نے اپنی زبان کو میرے لن کے نیچے ولای وین پر پھیرا تو میں نے قدرے لؤڈ ۔۔۔ آواز میں ۔۔۔ سسکی بھری ۔۔۔آہ ہ ہ ۔۔۔ اُف ۔ف۔ف۔فف۔ میرا خیال ہے مزے کے مارے میرے منہ سے کچھ زیادہ ہی اونچی آواز میں سسکیاں نکلنے لگ گئیں تھی ۔۔۔ ایسے ہی ایک لمحے میں جب میں نے زوردار آواز میں سسکی لی ۔۔۔تو اچانک دور سے ایک آواز آئی۔۔۔

۔ یہ کون خانہ خراب کا بچہ ہے ؟۔۔۔۔۔۔آواز سنتے ہی مرینہ نے اپنے منہ سے میرا لن نکلا۔۔۔ اور ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔۔ لیکن میں نے اس کو بالوں سے پکڑا اور اپنے لن پر اس کا منہ رکھ دیا ۔۔۔اس نے اپنا منہ کھولا اورمیرے لن کو اپنے منہ کے اندر لے لیا ۔۔۔ اور ابھی وہ لن پر اپنے منہ کو نیچے سے اوپر لا ہی رہی تھی کہ ۔۔۔وہی کرخت آواز مردانہ آواز دوبارہ سنائی دی ۔۔۔۔ادھر کیا ہو رہا ہے ؟؟؟ اور اس کے ساتھ ہی ہمیں دور سے ایک ہیولہ سا اپنی طرف آتا دکھائی دیا ۔۔۔اس کو دیکھتے ہی مرینہ نے لن منہ سے نکلا اور بولی ۔۔۔ میرا خیال ہے کہ کوئی آ گیا ہے ۔۔۔اتنے میں اس ہیولے کی کرخت آواز دوبارہ سنائی دی ۔۔ٹہرو ۔ کتے کا بچہ ۔۔۔ ام آج تم کو نہیں چھوڑے گا ۔۔۔ وہ آواز سنتے ہی مجھے مرینہ کو خوف سے بھر پور لیکن سرگوشی نما آواز سنائی دی ۔۔۔۔۔یہ تو افضل لالہ کی آواز ہے پھر اس کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔ بھاگ سالے ۔۔۔۔۔ ورنہ یہ ہم دونوں کو زندہ نہیں چھوڑے گا ۔۔۔ میں نے بھی افضل لالہ کی آواز سن لی تھی ۔۔۔ چونکہ میرا مرینہ لوگوں کے گھر کافی آنا جانا تھا۔اس لیئے میں بھی افضل لالہ کو اچھی طرح جانتا تھا وہ بے حد کرخت اور ڈنگر ٹائپ بندہ تھا ۔۔جو کہ میرے خیال میں اس علاقے کی چوکیداری کرتا تھا ۔۔۔چنانچہ اس کی آواز سُن کر خود میرے بھی ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے تھے اور میں مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کیا کروں ۔؟؟۔۔۔ اور افضل لالہ دم بدم گالیاں دیتا ہوا ۔۔۔قریب سے قریب تر آ رہا تھا ۔۔۔تب مجھے مرینہ کی انتہائی خوفزدہ آواز سنائی دی ۔۔۔وہ پاس آ رہا ہے ۔ جلدی کر ۔۔۔۔۔ اور میں نے شلوار اوپر کی ۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ تبھی قدرے اور قریب سے افضل لالہ کی خونخوار آواز ۔۔۔ آئی۔۔۔۔۔۔ ٹھہر و ۔۔۔خانہ خراب ،۔۔۔ام ابھی تمھارا تکہ بوٹی کرتا ہے ۔۔۔۔ اور ۔۔۔ ایک دفعہ پھر مرینہ مجھ سے مخاطب ہو کر تقریباً چیختے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ تم کھڑے کیوں ہو؟ بائیک سٹارٹ کرو۔۔حرامی۔اس کی بات سُن کر میں نے کک مارنے کے لیئے اپنا پاؤں مارا ۔۔۔ تو مجھے لگا کہ جیسے میرا پاؤں من بر کا ہو گیا ہے اور مجھ سے کک نہ ماری گئی ۔۔۔۔یہ دیکھ کر وہ مزید طیش میں آ گئی اور بولی ۔۔۔ کک کیوں نہیں مار رہے ہو َ؟۔ تو میں نے بجائے اصل بات بتانے کے اس سے بے بسی سے کہا ۔۔۔۔ میری شلوار میں سے ناڑا (آزار بند) نکل گیا ہے ۔۔۔۔۔تو وہ ہزیانی میں بولی ایسے ہی سٹارٹ کر ۔۔۔۔ جلدی۔۔۔ شلوار ۔۔۔ آگے جا کر پہن لینا ۔۔۔ابھی چل ۔۔۔۔اس کی بات سُن کر میں ہمت کی ۔۔۔ اور دوبارہ بائیک کو کک ماری تو وہ ۔۔۔سٹارٹ نہ ہوا ۔۔۔ تو مرینہ بولی اب کیا ہوا ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔یہ سٹارٹ نہیں ہو رہا ہے ۔ پتہ نہیں شاید پٹرول ختم ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں افضل لالہ اور قریب آ گیا تھا ۔۔۔۔اسے دیکھ کر میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا تا جا رہا تھا ۔۔۔۔ پھر کہیں دور سے مجھے مرینہ کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔۔۔۔ بھاگ۔۔۔ اور میں نے بھاگنے کی کوشش کی تو ۔۔۔۔۔ شلوار میرے ۔۔۔ پاؤں میں پھنس گئی ۔۔۔۔۔ اورمیں نے پھر بھی بھاگنے کے لئے قدم اٹٹھایا تو میرے قدم من من بھر کے ہو گئے ۔۔ادھر ۔۔۔۔اففل لالہ گالیا ں بکتا ہوا ۔۔ہمارے قریب آتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔قریب ۔۔۔۔ اور قریب آ رہا تھا ۔۔۔۔ اور قریب ۔۔میرے پاؤں میں شلوار پڑی تھی ۔۔۔۔قدم من من بھر کے ہو رہے تھے اور ۔۔تب میں نے مرینہ کی طرف بڑی ہی بے بسی سے دیکھا اور کہا آپ جاؤ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ۔۔۔۔۔۔ اور میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا ۔۔اور میں بلکل مایوس ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔کہ اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فضل لالہ کو اپنی طرف آتا دیکھ کر میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور خود کو ہر قسم کو صورتِ حال کے لیئے تیار کر لیا ۔۔ میری یہ حالت دیکھ کر مرینہ نے مجھے دھکا دیکر پیچھے کیا اور پھر ا س نے موٹر سائیکل کو ہینڈل سے پکڑ کو ایک ذوردار کک ماری تو ۔۔۔ خوش قسمتی سے پہلی ہی کک پر بائیک اسٹارٹ ہو گیا یہ دیکھ کر مرینہ نے فوراً چھلانگ لگائی اور جلدی سے بائیک پر بیٹھ گئی اور پھر چیختے ہوئے بولی ۔۔۔ جلدی بیٹھ ۔۔۔ ۔میں اتنا ڈرا ہوا تھا کہ ۔۔۔ فوری طور پر مجھے کچھ سمجھ نہ آیا ۔۔۔ لیکن جیسےبائیک چلا۔۔میں جیسے ہوش میں آ گیا اور میں نے بھی چھلانگ لگائی اور چلتی ہوئی موٹر سائکل پر عورتوں کی طرح مرینہ کے پیچھے بیٹھ گیا ۔۔۔۔ مجھے بیٹھتے دیکھ کر مرینہ نے بائیک کو فُل ریس دی اور موٹر سائیکل کو ہوا کی رفتار سے بھگا نے لگی ۔۔ اتنی دیر میں افضل لالہ ہمارے کافی قریب پہنچ چکا تھا لیکن جیسے ہی اس نے دیکھا ۔۔۔۔کہ ہم لوگ ۔۔بھاگ رہے ہیں تو وہ گالیاں دیتا ہوا نیچے جھکا اور زمین سے پتھر اُٹھا کر ہماری طرف پھینکا ۔۔جو اُڑتا ہو ا ہماری طرف آیا لیکن بائیک سے کچھ ہی فاصلے پر جا گرا ۔۔۔۔۔ مرینہ بائیک کو طوفانی رفتار سے چلا رہی تھی ۔۔۔ اور پھر جیسے ہی ہم مریڑ چوک سے کمیٹی چوک کی طرف مُڑے۔۔ تو تھوڑی دور جا کر اس نے بائیک کر رفتار نارمل کر لی ۔۔۔ اور پھر ایک ٹھنڈی سانس بھر کر بولی ۔۔۔۔۔ شکر ہے جان بچی۔۔۔ پھر اس نے کچھ فاصلہ طے کر کے بائیک کو ایک نیم تاریک جگہ پر روکا اور ۔۔۔ بڑے غصے سے بولی ۔۔۔۔ جاؤ وہ سامنے دیوار کے پاس پیشاب کے سٹائل میں بیٹھ کر اپنی شلوار میں نالا (آزار بند ) ڈال لو ۔۔۔۔اور میں بائیک سے نیچے اترا اور سیدھا دیوار کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور ۔۔۔۔ شلوار میں نالا ڈال کر واپس آ گیا ۔۔۔ دیکھا تو وہ دونوں ہاتھ سینے پر باندھے بائیک کے پاس کھڑی میری ہی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔ جب میں اس کے قریب پہنچا تو میں نے ۔۔ ایک نظر سڑک پر ڈالی تو نیم تاریک سڑک کافی ۔۔۔۔ سنسان تھی ویسے بھی ہم ایک اندھیری جگہ پر کھڑے تھے اس لیئے ۔۔ دیکھے جانے کے چانس کافی کم تھے ۔۔۔ اس طرف سے مطمئن ہو کر میں آگے بڑھا اور مرینہ کو اپنی باہوں میں لے لیا اس نے خود کو مجھ سے چھڑانے کی بڑی کوشش کی لیکن میں نے اپنی گرفت ہی اتنی مضبوط رکھی تھی کہ وہ خود کو مجھ نہ چھُڑا سکی ۔۔ کچھ دیر بعد اس نے یہ جدوجہد ترک کر دی اور ڈھیلی پڑ گئی ۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنے دونوں ہونٹ اس کی صراحی دار گردن پر رکھ دئیے اور اس کو چوم کر بولا ۔بڑے ہی رومینٹک انداز میں بولا ۔۔ آئی لو یو ۔۔۔ ڈارلنگ ۔ ۔ ۔ میری بات سُن کر وہ تلخی سے بولی ۔۔۔۔ اگر میں بائیک اسٹارٹ نہ کرتی نہ۔۔ تو آج تمھاری یہ ساری آئی لو یو نکل جانی تھی ۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں شرمندہ ہوئے بغیر بولا ۔۔ سٹارٹ تو میں بھی کر لیتا ۔۔۔۔لیکن ۔۔۔ میرا نالا (آزار بند ) نکل گیا تھا ۔۔میری شیخی سُن کر وہ بڑے طنزیہ انداز میں کہنے لگی ۔۔ ۔۔۔۔ جی مجھے پتہ ہے کہ تمھارا نالا نکل گیا تھا لیکن سالے بائیک کو کک مارنی تھی اس میں نالا کہاں سے آگیا ؟؟؟؟اس کی بات سن کر میں سمجھ گیا کہ ایسے بات نہیں بنے گی ۔۔چنانچہ ۔۔۔ میں نے بجائے کوئی نیا بہانہ گھڑنے کے ۔۔۔ دوبارہ اپنے ہونٹ اس کی گردن پر رکھے۔۔۔ اور ۔۔۔ انہیں چومتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ آئی یم سوری باجی ۔۔ !! ۔۔اور اس کی گردن کو چومتا گیا ۔۔۔۔ میرے منہ سے سوری سُن کر وہ کچھ ڈھیلی پڑ گئی ۔۔ پھر اس نےہاتھ بڑھا کر میرا منہ اپنی گردن سے ہٹایا ۔۔۔۔ اور میری ٹھوڑی کو انگلی سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا اور بولی ۔۔۔۔ دیکھو مجھے بزدل مردوں سے سخت نفرت ہے ۔۔۔ آج تو معاف کرتی ہوں لیکن آئیندہ اس بات کا خاص خیال رکھنا ۔۔۔۔ پھر مجھے موٹر سائیکل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ بائیک چلاؤ ۔۔۔ اور میں نے بائیک سٹارٹ کیا اور وہ حسبِ سابق مرے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی ۔ راستے میں ۔۔ میں نے ادھر ادھر کی کافی باتیں کیں جس سے اس کا مُوڈ کافی حد تک بحال ہو گیا ۔اور پھر جب اس کا مُوڈ پہلے کی طرح اے ون ہو گیا تو میں نے اس سے وہ سوال کیا جو مجھے کافی پریشان کر رہا تھا ۔۔۔چنانچہ میں نے اس سے کہا باجی ایک بات پوچھوں ؟ تو وہ بولی کہو۔۔ میں نے منع کب کیا ہے؟ تو میں نے کہا کہ باجی ۔۔۔۔ آپ کے سسرال کا اتنا قریبی بندہ ہسپتال میں ایڈ مٹ ہے لیکن آپ کے گھر سے کوئی بھی انہیں نہیں دیکھنے آیا ؟اس کی کیا وجہ ہے؟؟ ۔۔۔۔ میری بات سُن کر وہ کسی گہری سوچ میں پڑ گئی ۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی ۔۔۔۔ میرے والدین اس لیئے اسے دیکھنے نہیں آتے کہ میری یہاں شادی نہیں ہوئی تھی بلکہ میں " ونی" ہوئی تھی ۔۔۔۔ اس وقت تک مجھے " ونی" کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا اس لیئے میں نے حیرانی سے پوچھا کہ باجی یہ "ونی "کیا ہوتا ہے ؟ ۔۔۔

Title: Re: !!!!!!!!!... اُستانی جی

Post by: shahg on February 13, 2015, 07:25:53 pm

دوستو ۔۔ اس کے بعد اس نے مجھے "ونی " کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور پھر اس نے اپنی ونی ہونے کی کہانی سنائی ۔۔۔ مرینہ نے یہ کہانی مختلف اوقات میں ٹکڑوں میں مجھے سنائی تھی لیکن میں آپ کو مرینہ کی یہ کہانی ایک ہی نشست میں سناؤں گا ۔۔۔ ہاں اس میں جو زیادہ دکھی باتیں ہیں وہ میں نے اس کی کہانی سے حزف کر دیں ہیں کہ میرا خیال ہے لوگ پہلے ہی بڑی پرابلمز میں ہیں اور وہ انٹرٹیمنٹ کے لیئے یہاں آتے ہیں نا کہ دکھی ہونے کے لیئے ۔۔۔ ویسے بھی میرے خیال میں سیکس سٹوری میں دکھی باتیں مزہ نہیں کرتیں ۔۔۔ایک بات اور ۔۔ اس کہانی میں ، میں نے اپنی طرف سے داستان کو رنگین کرنے کے لیئے کچھ مسالہ بھی ڈالا ہے ۔۔۔ آیئے میں آپ کو مرینہ کی کہانی سنائیں ۔۔۔

مرینہ کے مطابق ان کی فیملی کا تعلق باجوڑ ایجنسی سےہے ۔ اس کے دادا بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آ کر باجوڑ سے کراچی آئے تھے کہ اس زمانے میں کراچی ہی ایک ایسی جگہ تھی کہ جہاں لوگ کام کی تلاش میں آیا کرتے تھے لیکن بد قسمتی سے ان کے دادا کا کراچی جیسے شہر میں بھی کام نہ بنا چنانچہ اس کے بعد وہ وہاں سے حیدرآباد آ گئے یہاں ان کو اپنے گاؤں کے کسی دوست نے لکڑیوں کے ٹال پر جاب دلا دی اور یوں انکا کام چلا نکلا -دادا کی دیکھا دیکھی خاندان کے باقی فرد بھی حیدر آباد میں آکر بس گئے جس کی وجہ سے حیدرآبا دمیں ان کا اچھا خاصہ خاندان اکھٹا ہو گیا تھا مرینہ کے بقول ان کے دادا کے چار بیٹے تھے جس میں سے ان کے والد کا نمبر تیسرا تھا ۔دادا کی وفات کے بعد یہ لوگ الگ الگ ہو گئے پھر ان کے والد نے اپنی محنت اور لگن سے اپنا ایک الگ لکڑیوں کا ٹال بنا لیا جبکہ اس کے بھائی کسی اور کے ٹال پر کام کرتے تھے - ٹال کے ساتھ ساتھ اس کے والد نے کچھ دوسرے کام دھندے بھی شروع کر دیئے جس کی وجہ سے یہ لوگ کافی خوش الحال ہوگئے ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ان کے ابا نےاپنی بچیوں کو حیدرآباد کے اچھے سکولوں میں داخل کرا دیا ۔۔۔ ان کےدوسرے بھائی ترقی کی اس دوڑ میں ان سے خاصے پیچھے رہ گئے تھے۔ چنانچہ وہ اس کے ابا کی خوش حالی کو دیکھ کر ان سے کافی حسد کرنے لگےتھے ۔۔۔

مرینہ کے مطابق اس کے ولد ایک لکی آدمی تھے اور ان میں کاروباری سوجھ بوجھ انتہا کی تھی یہی وجہ تھی ان کا کام دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔۔۔۔ مرینہ اپنے گھر میں والدین کی سب سے بڑی لڑکی تھی جس کی وجہ سے اس کے والد اس سے بے انتہا پیار کرتے تھے مرینہ کے بقول وہ بھی اپنے والدسے بہت پیار کرتی تھی پھر اس نے یہ بھی بتلایا کہ جہاں اس کے والد میں کاروباری سوجھ بوجھ انتہا کی تھی وہاں ان میں ایک بہت بڑی کمزوری بھی تھی اور وہ کمزوری یہ تھی کہ وہ ۔۔ غصے کے بڑےہی تیز تھے اور ان میں برداشت کا مادہ بلکل بھی نہ تھا ۔۔۔قصہ مختصر ایک دن ٹال پر اس کے والد کا اس کے چچا کے سالے کے ساتھ کسی بات پر سخت جھگڑا ہو گیا اور یہ جھگڑا اتنا بڑھا کہ اس کے والد نے غصے میں آ کر اس کو اینٹ دے ماری۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ موقعہ پر ہی ہلاک ہو گیا ۔۔۔ اب اس کے چچا نے اس کے والد کے خلاف 302 کا مقدمہ درج کروا دیااور جس کے مدعی وہ خود بنے ۔۔۔۔ پولیس اس کے والد کو گرفتار کر کے لے گئی اور اسکے ساتھ ہی ۔۔۔۔ مرینہ کے بقول ان لوگوں پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔۔۔ برادری جو پہلے ہی ان لوگوں کی ترقی کی وجہ سے جیلس تھی ۔۔۔۔ اس قتل کے بعد اور بھی ان کی مخالف ہو گئی اور صورتِحال یہ ہو گئی کہ ساری برادری ایک طرف تھی اور مرینہ کے گھر والے ایک طرف ۔۔۔ اس پرمزید ستم یہ ہوا کہ والد کی نرینہ اولاد نہ تھی بلکہ ساری بیٹیں ہی بیٹیں تھی اور جو نرینہ اولاد تھی بھی (ارصلا) وہ ابھی چند ہی ماہ کا تھا ۔۔۔ چنانہا ایسے میں اگر کسی نے ان کی کوئی ہیلپ کی اور وہ بھی چوری چھپی تو وہ فرید تھا اس کے چچا کا بڑا بیٹا ۔۔۔ فرید اور مرینہ ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور بات کافی آگے تک گئی ہوئی تھی لیکن فرید کی امی اور والد چونکہ ان لوگوں کے سخت خلاف تھے اس لیئے یہ دونوں کسی مناسب موقعہ کی تلاش میں تھے ۔۔۔ قتل کے کیس میں جب اس کے والد اندر ہوئے تو ایسے میں کوئی بھی ان کی مدد کو تیار نہ ہوا ۔۔۔ مرینہ کہتی ہے ان لوگوں سے تفتیش کے نام پر پولیس اتنا زیادہ پیسہ لے گئی کہ یہ لوگ تقریباً کنگال ہو گئے یہاں تک کہ ان کے پاس ٹیکیو ں پر بھاگ دوڑ کے بھی پیسے نہ رہے ۔۔۔اور ۔۔ جب ان لوگوں نے دیکھا کہ اب ان کے حالات ٹیکسیوں پر پھرنے کی مزید اجازت نہیں دیتے ۔۔۔ تو مرینہ نے کہ جس کو پہلے ہی بائیک چلانا آتی تھی اب وکیلوں کے پاس بہ امرِ مجبوری ٹیکسی کی بجائے بائیک پر جانا شروع کر دیا ۔۔ مرینہ کے بقول یہ دور ان کے لیئے بہت ہی مشکل دور تھا ۔۔۔ ساری برادری ان سے ناطہ توڑ گئی تھی ایسے میں ایک فرید ہی ان کے کام آیا ۔۔۔۔ وہ کسی طرح ان کو بتا دیتا تھا کہ آپ لوگ فلاں وکیل کے پاس پہنچو میں بعد میں آتا ہوں تو جب یہ لوگ وہاں پہنچتے تھے تو فرید پہلے سے ہی وہاں موجود ہوتا تھا جس کی وجہ سے بقول مرینہ اس کی عزت بہت دفعہ صرف فرید کی وجہ سے بچی تھی ۔کیونکہ وہ جس بھی وکیل کے پاس جاتے تو اس کی سب سے پہلے نگاہ اس کی جوانی پر جاتی تھی ۔۔۔اور ہر کوئی اس کی جوانی کو ہی دیکھتا تھا ۔قصہ مختصر جب سیشن کورٹ سے ان کے والد کی ضمانت خارج ہوگئی تو ان لوگوں نے ہائی کورٹ جانے کی ٹھانی ۔۔۔۔ فرید کا ایک کلاس فیلو تھا جس کا والد حیدر آباد کا مشہور وکیل تھا اور جو صرف ہائی کورٹ کے کیس لیتا تھا ۔۔۔ فرید نے منت سماجت کر کے ان کے والد سے ٹائم لیا اور مرینہ اور اس کی امی وقتِ مقررہ پر وکیل صاحب کے آفس پہنچ گئیں ۔اور انہیں والد کے قتل کیس کی فائیل دے دی ۔

Title: Re: !!!!!!!!!... اُستانی جی

Post by: shahg on February 13, 2015, 07:26:55 pm

انہوں نے ساری فائل پڑھنے کے بعد مرینہ اور اس کی والدہ کو بتایا کہ ان لوگوں نے آپ کا کیس اتنا پکا بنایا ہوا ہے کہ آپ کے والد کی ہائی کورٹ سے بھی ضمانت ہونا بہت مشکل ہے ۔۔۔ اور ان کے پوچھنے پر مزید بتاہا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے خیال میں اس کیس میں ان کے والد کا بچنا بہت مشکل ہے ۔۔۔۔ ان کو سزائے موت بھی ہو سکتی ہے ۔۔۔مرینہ کہتی ہے وکیل صاحب کے منہ سے سزائے موت کا سُن کر دونوں ماں بیٹی کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی تھی اور وہ دونوں خود پر قابو نہ رکھ سکیں اور وہیں رونے لگ گئیں ۔۔۔۔ تبھی فرید نے وکیل صاحب سے پوچھا کہ انکل ۔۔۔ کوئی اور طریقہ ہے جس سے ان کے والد کی جان بخشی ہو سکے؟؟ تو انہوں نے کہا ہاں ایک ہے اگر آپ کر سکو۔۔ تو۔۔!!!

دکیل صاحب کی بات سے ہماری کچھ ڈھارس بندھی اور ہم دونوں ماں بیٹی نے رونا دھونا چھوڑ کر ان سے پوچھا کہ وہ کیا طریقہ ہے؟؟ تو اس نے بتایا کہ ۔۔وہ ہے قصاص !! اگر آپ لوگ مقتول کے خاندان کو خون بہا ادا کر دیں تو آپ کے بندے کی جان بخشی ہو سکتی ہے ۔۔۔۔ ورنہ دوسری صورت میں آپ کا بندہ پھانسی پربھی لٹک سکتا ہے ۔۔۔ پھانسی کا نام سُن کر ہم دونوں کی جان نکل گئی ۔۔۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ مجھے اپنے والد سے بہت محبت ہے اس لیے میں نےتہیہ کر لیا تھا کہ میں ہر صورت اپنے والد کی جان بچاؤں گی ۔۔۔ چنانچہ ہم نے اپیل کا فیصلہ مؤخر کر دیا ۔ویسے بھی دا جی( ابو) کو جیل میں گئے ہوئے سات آٹھ ماہ تو ہو ہی چکے تھے اور میرا خیال تھا کہ چاچا لوگوں کا غصہ اب کافی حد تک ٹھنڈا ہو چکا ہو گا یہ سوچ کو ہم نے صُلع کے لیئے بھاگ دوڑ شروع کر دی ۔۔

مرینہ کہتی ہے کہ فیصلہ کرنے کے بعد وہ سب سے پہلے اپنے والد کے پاس گئے اور ان سے وکیل صاحب سے ملاقات اور ان کی رائے سے آگاہ کیا ۔۔ سارا ماجرا سُننے کے بعد ظاہر ہے دا جی کافی پریشان ہوئے لیکن اس کے باوجود بھی وہ صلع کے لیئے کسی طور بھی راضی نہ ہو رہے تھے لیکن جب امی نے ان کو اپنی چھوٹی چھوٹی بچیویوں کا واسطہ دیا اور بتلایا کہ ان کے اندر ہونے کے ساتھ ہی ٹال پر ان کے ملازموں نے ان کو بہت ہی کم پیسے دیئے ہیں اور ذیادہ تر ملازم چچا کے ساتھ مل گئے ہیں اور پھر امی نے اس کے ساتھ ہی ان کو جزباتی بلیک میل بھی کیا تو دا جی یہ ساری صورتِ حال جان کر صُلع کے لیئے راضی ہو گئے ۔ ابا کی طرف سے مطمئن ہونے کے بعد ہم لوگ دادا کے چھوٹے بھائی جو ابھی زندہ تھے کے پاس گئے ۔۔۔ اور ان کو ساری بات سنا کر مدد کی درخواست کی۔ ۔۔اندر سے تو وہ بھی چچا لوگوں کے حق میں تھے لیکن شکر ہے کہ انہیں ہماری درد بھری داستان سن کر ہم پر رحم آ گیا اور انہوں نے ہمیں اپنی مدد کا یقین دلا دیا اور ۔۔۔۔ کچھ دن بعد آنے کا کہا ۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے چچا اور اس کے سالوں کے ساتھ صلع کے لیئے کوششیں کرنا شروع کر دیں ۔۔۔۔ اس بات کے دس پندرہ دنوں کے بعد ایک دن چھوٹے دادا ہمارے گھر آئے اور بتایا کہ وہ لو.end


Comments

Popular posts from this blog

سچی کہانی۔۔ قسط نمبر 1

"*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 3

*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 4