امی آنٹی اور ان کا یار پارٹ 4
سلیم ۔تو پھر کیا کہا
آنٹی۔ کچھ نہیں سوچوں میں گم تھی ایک بات ہے اس بھی دل ہے بس ڈرتی ہے
سلیم۔یار ڈر کیسا اسے سمجھاؤ نا
آنٹی۔مجھے تو لگتا تمہارا ہتھیار دیکھ کر ڈر گئی ہے بچاری ہاہاہا
سلیم۔ اس سے کیا ڈرنا وہ تو پیار کرنے والی چیز ہے اچھا ویسے ایک بات تو بتاؤ تمہاری تو پرانی دوست ہے ویسے پیار کرنے میں کیسی سمجھ رہی ہو نا میری بات کبھی بتایا اس نے تم کو اپنے بارے میں
آنٹی۔ لو مجھے بھلا کیا نہیں پتا اس کی ہر بات جانتی ہوں رہی پیار کی بات تو دیکھا تو نہیں پر بتاتی ضرور ہے یہ جتنی شریف نظر آتی ہے نا اتنی ہے نہیں اس کا تو پیچھے کا راستہ بھی کھلا
سلیم ۔کیا سچی آپ کو کس نے بتایا اور کس سے کھولا
آنٹی۔اوہو اس نے ہی بتایا اور کس نے بتانا کھولا اس کے شوہر نے ہی ہے اور یہ ان میں سے ہے جو اوپر اوپر سے نا کرتی رہتی ہیں پر کر سب کچھ لیتی سچ کہ رہی ہوں ایک کام کرو ابھی 10 بجے تک اس کے گھر آسکتے ہو آپ
سلیم۔کیوں خیر ہے آج ہی کرنا ہے
آنٹی۔ کرنا کروانا کچھ نہیں بس میری بات سمجھو آجانا اور کوئی چیز کھانے کے لیے لیتے آنا
سلیم۔پر میں ایسے بنا بتائیں کیسے آؤ گا اور کیا کہو گا
آنٹی۔تم دس بجے مجھے کال کرنا اور کہنا کے میرا پرس تمہارے پاس ہے میں اس کے گھر ہی بیٹھی ہوں اچھا پھر میں کہو گی یہاں آجاؤ یہ خود کہ دے گی اندر بلا لو کیوں کہ اس کے گھر میں کوئی نہیں اس کے بیٹے کے سوا پھر آگے میرا کام ہے اوکے زرا ادھر اُدھر دیکھ کر آنا کوئی دیکھ نا لے
سلیم۔اوکے یار پھر فون بند
امی اور انٹی ہنسنے لگی
آنٹی۔دیکھ لو تمہاری خاطر کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کتیے
امی۔ تم کو ہی آگ لگی ہے اب اگے کیا کرنا ہے
آنٹی دیکھ لے پھدی بھی کیا چیز ہے بندے کو پاگل بنا دیتی وہ سوچ رہا ہوگا کہ میں اس کے ساتھ مل کر تمہیں پھنسا رہی ہوں ہاہاہا
امی۔دند نا نکال آگے بتا
آنٹی ۔کچھ نہیں آگے کیا جو کھانے کے لیے منگوایا وہ کھاتے اور جائے پھر نہیں تو ایسا کرتے ہیں آتا تو اس سے کچھ پیسے لے لیں کہ دینا دو تین دن تک واپس کر دونگی اتنی دیر تک تو ویسے کام ہو جانا پھر کس نے واپس کرنے
امی۔میں تو نہیں کہتی اگلا کیا سوچے گا
آنٹی۔اس کا اگلا نا تمہاری پیچھے سے لینے کی سوچ رہا ہے اور تم ہو کہ چل میں خود بات کر لو گی آنے تو دے اسے اور تو بھی زرا حالت ٹھیک کر اپنی اور امی کے ممے پر ہاتھ رکھ کر بولی ان کو ٹائٹ کر کوئی بڑے گلے والی قمیض پہن لے اتنا تو اسے دکھا دے آج پھر کل تک تو ویسے بھی اتر ہی جانے ہیں ہاہاہا
امی۔پوری گشتی ہے بغیرت دونوں خوش تھی ایسے ہی ٹائم گزر گیا امی نے کپڑے بھی بدل لیے ہلکی سی لپسٹک اور خوشبو لگائی 10:30 بجے کے قریب اس کی کال آئی
آنٹی۔بولی اتنی دیر
سلیم۔وہ گلی میں لڑکے تھے
آنٹی۔اب آؤ میں اسے کہتی ہوں اور کال چل رہی تھی امی کو آنکھ مار کر کہتی شازی یار میرا نا پرس سلیم کے پاس ہے تو لے لو ابھی وہ گلی میں ہے
امی۔اس وقت کوئی دیکھ لے تو سہی نہیں ہے
آنٹی۔کوئی بھی نہیں ہے یار گلی میں
امی۔نہیں اس وقت گلی میں جانا اچھا نہیں آپ ان سے کہو میں دروازہ کھولتی ہوں دیکھ کر اندر آ جائے
سلیم فون پر ساری بات سن رہا تھا آنٹی نے اسا کہا آجاؤ موقع ہے امی دروازے پر پہنچی دروازہ کھول کر ادھر اُدھر دیکھ کر سلیم سے کہا اندر آجائیں وہ جلدی سے اندر آیا امی نے کنڈی لگائی کہ سلیم نے ہاتھ آگے کر دیا سلام کے لیے امی شرماتے ہوئے سلام لیا اور اپنے ساتھ لے آئی سلیم کو میں بھی برآمدے میں اکر اس سے ہاتھ ملایا تو آنٹی نے کہا ساحل ماموں ہیں آپ کے
میں ۔جی آنٹی جانتا ہوں دیکھا پہلے اتنے میں سلیم نے کچھ کھانے کی چیزوں کا شاپر امی کو دیا یہ اپ کے لئے
امی۔ارے اس کی کیا ضرورت تھی رہنے دیتے
سلیم۔نہیں نہیں رکھے آپ
امی شاپر بیگ پکڑنے کے لیے کچھ جھکیں تو ممے صاف نظر آئے جسے دیکھ کر سلیم کے منہ میں پانی اگیا اور پھر امی شاپر پکڑ کر اس انداز سے مڑی کے گانڈ کا پورا نظارہ مل جائے امی اندر لے آئی میں بھی کمرے میں آگیا امی نے گلاس میں کوک ڈال کر دی ان کو پھر اسی طرح جھک کر اور پیار سے بولی یہ آپ کے لیے ہے
سلیم کا تو بس منہ دیکھنے والا تھا پھر امی سامنے بیٹھتے ہوئے بولی میں معافی چاہتی یوں آپ پہلی بار گھر آئے ہم نے تو کچھ بنایا بھی نہیں
سلیم ۔نہیں نہیں کوئی بات نہیں اپنا ہی گھر ہے
اتنے میں آنٹی بول پڑی سلیم اصل میں نا اس کے پیسے نہیں آئے ابھی دو تین دن لگ جائے گے پھر آپ کی دعوت کریں گے ہم
سلیم۔ارے یہ کیا بات ہوئی آپ کا اپنا ہوں مجھے بتائیں کیا ضرورت ہے کتنے پیسے چاہیے
امی۔نہیں شکریہ اس کی کوئی ضرورت نہیں
سلیم بولنے ہی لگا تھا کہ انٹی بول پڑی شازی جب وہ کہ رہے تو کیا مسئلہ ہے اپنے ہی ہیں کوئی غیر تھوڑی ہیں کر دینا واپس
امی۔شگفتہ میں نے کب کہا غیر ہیں اگر اپنا نا سمجھتی تو گھر میں ہی بٹھاتی
سلیم۔تو پھر کس لیے شرما رہی ہیں آپ لے لو نا جس کی ضرورت ہے
آنٹی۔ہاں سہی تو کہ رہے ہیں اب ان سے کیا شرمانا سلیم آپ نا 5 ہزار دے دو اسے اس نے بھی جلدی سے پرس سے نکال کر امی کی طرف کیے
امی۔نہیں رہنے دے یہ اچھی بات نہیں
آنٹی جلدی سے بولی پکڑتی ہے یا آؤ میں اور ساتھ ہی اٹھ کر امی کے گردن میں بازو ڈالا اور امی کے ممے سلیم کی طرف کر کے انکھ ماری سلیم یہاں ڈالے
سلیم۔نہیں نہیں پکڑ لیتی ہے آپ چھوڑ دو
آنٹی۔ سلیم کہا نا ڈال دو کچھ نہیں ہوتا سلیم نے امی کو کہا پکڑ لے نہیں تو میں سچ میں ڈال دوں گا امی ابھی بولی نہیں تھی کے آنٹی پھر بولی سلیم میں کہ رہی ہوں نا ڈال دو
سلیم ۔نہیں شازیہ غصّہ کر جائے گی
آنٹی ۔ نہیں کرتی ڈالو آپ اور ساتھ ہی پھر آنکھ ماری اب سلیم نے بھی ہمت کر کے امی کے مموں کی لکیر میں پیسے رکھ کر امی کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں ہلکی سی مسکراہٹ تھی وہ سمجھ گیا کہ غصّہ نہیں کریں گی آنٹی نے پھر کہا سلیم سہی سے تو رکھو اور ساتھ اشارہ کیا سلیم نے پھر پیسے پکڑ کر امی کے مموں کے بیچ میں کیے جس سے اس کا ہاتھ سہی مموں سے لگا انٹی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اور اگے کیا دو تین بار اور کہا اب ٹھیک ہے رکھ لو بس ورنہ میں نے بات نہیں کرنی امی بنا کچھ کہے شرمانے کی ایکٹنگ کرتی رہی اور سامنے بیٹھ گئی اور ممے ٹھیک کرنے لگی جیسے عموماً عورتیں کرتی ہیں سلیم کے چہرے پر بھی خوشی کے اثرات تھے آنٹی بھی خوش تھی
پھر امی نے پوچھا سلیم کی طرف دیکھ کر آپ کچھ اور لینا چاہیں گے آنٹی بول پڑی ہاں دو گی تو ضرور لے گے امی نے آنٹی کو ہلکی سا تھپڑ مارا پاگل
آنٹی۔ اس میں پاگل والی کون سی بات ہے سچ ہی تو کہا
امی۔میں کھانے کی بات کر رہی ہوں
آنٹی۔ تو میں اور کیا کہ رہی ہوں کیا چل رہا تیرے دماغ میں کیا دینا چاہتی ہو کھانا تو تم نے پکایا ہی نہیں امی پھر شرما گئی
سلیم ۔نہیں بس آپ نے ہنس کے بات کر لی اتنا ہی کافی ہے
آنٹی ۔بولی شازی ویسے کتنی بری بات ہے تمہارے گھر مہمان آیا اور تم ان کے پاس بھی نہیں بیٹھی
امی۔پاس ہی تو ہوں
آنٹی خاک پاس ہو یہاں آؤ سلیم کے پاس امی نے شرمیلا سا چہرہ بنا کر سلیم کی دائیں طرف بیٹھ گئی آنٹی بائیں طرف تھی پھر آنٹی نے امی سے کہا شازی اب پیسے تو مل ہی گئے ہیں کیا خیال ہے اگر کل میری جان سلیم کی دعوت ہو جائے امی نے سلیم کی طرف دیکھ کر کہا مجھے کیا اعتراض ہے ان کا اپنا ہی گھر ہے کہتے تو ابھی بنا لیتی ہوں
سلیم۔ارے نہیں کہا آپ اب تنگ ہونگی رہنے دے ہمارے پاس بیٹھے اور ساتھ ہی امی کی ٹانگ پر ہاتھ رکھ دیا امی نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا جی پاس ہی ہوں آپ پہلی بار آئے ہیں ایسے اچھا تو نہیں لگ رہا کہ کچھ بھی نہیں لیا پانی کہ سوا
آنٹی۔ہاں تو میں کہ تو رہی ہوں کل کر لیتے ہیں
امی۔ہاں ٹھیک ہے پھر کل بناؤ گی آپ کو کیا پسند ہیں بتا دیں
سلیم امی کی ٹانگ پر ہاتھ پھیر کر ارے آپ جو بھی بنائے گی اچھا ہی ہوگا جیسے آپ کا دل کریں
امی۔پر مہمان کا بھی تو پتا ہو اسے کیا اچھا لگتا
آنٹی۔ یار شازی ان کو سب کچھ پسند ہے اس کی ٹینشن نا لو
امی۔چلے پھر کل کا رکھ لیں آپ کو راضی کر دوں گی
سلیم۔پر کل صبح کے وقت میں فری نہیں رات چاہے ساری لگ جائے کوئی مسلئہ نہیں
آنٹی۔یہ تو اور بھی اچھا ہے میں بھی آجاؤ گی باتوں باتوں میں آنٹی امی اور سلیم کی بات ہوگئی تھی کل رات کی پھر کچھ دیر بعد سلیم نے امی کی ٹانگ کو پھدی کے قریب سے دبا کر کہا ٹھیک ہے شازیہ جی آب مجھے چلنا چاہیے کل ملتے ہیں آنٹی بھی ساتھ اٹھ گئی اور تینوں گیٹ کی طرف چل پڑے امی نے باہر دیکھا کوئی نہیں تھا تو آنٹی کو گلے ملی چلو ٹھیک ہے پھر کل رات کو سہی آنٹی ہلکا سا مسکرا کر بولی سلیم سے بھی مل لو وہ بھی تو اپنا ہی ہے امی نے ہاتھ اگے کیا تو آنٹی نے پیچھے کر کے کہا جیسے مجھے ملی ویسے ملو
امی۔نہیں مجھے شرم آتی ہے یار
آنٹی۔نہیں کچھ ہوتا کہا نا ملو اور امی کی بازو پکڑ کر سلیم کی طرف کر دیا سلیم نے بھی بانہیں پھیلائے امی کو سینے سے لگا لیا اور کمر پر ہاتھ پھیرا پھر امی پیچھے ہوئی اور سلام کے بعد وہ گھر سے نکل گئے سلیم بڑا خوش تھا
جاری ہے ۔۔۔۔
Comments
Post a Comment