ڈاکٹر ہما قسط 4
ہما کی چوت کو چود رہا تھا۔۔ ہما اتنی گرم ہو چکی ہوئی تھی زمان کے جسم کے لمس اور اسکی چدائی سے کہ وہ تیزی سے اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگی تھی۔۔ اور کچھ ہی دیر میں اسکی چوت نے پانی چھوڑ دیا۔۔ زمان کو ہما کی چوت اسکے لوڑے کو دباتی اور بھینچتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔ وہ رک گیا ۔۔ اس نے کھسے مار نے بند کر دیئے ۔۔ اور ہما کو اپنی منزل اور لذت پوری طرح سے پالینے کا ٹائم دیا۔۔ اور دھیرے دھیرے اسکے ہونٹوں کو چومنے لگا۔۔ ہما کا جسم آہستہ آہستہ ڈھیلا ہونے لگا۔۔ اور اس پر جیسے غنودگی کی چھانے
لگی۔۔ اب ایک بار پھر زمان نے اپنے لوڑے کو اندر باہر کرتے ہوئے اپنا پانی بھی ہما کی چوت میں نکالنا شروع کر دیا۔۔ ہما کو تو جیسے اور بھی سکون مل گیا ہو ۔۔ وہ تو وہیں پر ہی ڈھے سی گئی۔۔ اور اسے پتہ بھی نہیں لگا کہ اسی غنودگی کی حالت میں اسکی آنکھ لگ گئی
ڈاکٹر ہما کی زمان کی بانہوں میں آنکھ لگ چکی تھی۔۔ چند منٹ تک زمان بھی اپنے سانس بحال کرنے کے لیے لیٹا رہا ۔۔ اور پھر آہستہ سے وہ کاؤچ سے نیچے اترا۔۔ اور اپنے سامنے صرف پھٹی ہوئی ٹائٹس میں ننگی لیٹی ہوئی ڈاکٹر ہما کو
دیکھتا رہا۔۔ ہما کا گورا گورا شفاف بدن اسکی آنکھوں کے سامنے تھے۔۔ جو اسے نہ صرف دعوت نظارہ دے رہا تھا بلکہ دوبارہ سے اپنی طرف بلار رہا تھا۔۔ ہما کی ننگی چھاتیاں ۔۔ اسکی سانسوں کے ساتھ اوپر نیچے ہو رہی تھیں۔۔ اسکی آنکھیں بند تھیں۔۔ اور چہرے پر سکون ہی سکون تھا۔۔ زمان کا بھی دل چاہ رہا تھا کہ وہ ایک بار پھر سے اس حسین جسم کے مزے لے۔۔ مگر وہ اپنے گھر پہ نہیں ہسپتال میں تھا۔۔ اور وہ بھی ڈیوٹی پر۔۔ اس لیے زمان نے کپڑے پہنے اور ہما کو سوتا ہوا چھوڑ کر۔۔ آہستہ سے دروازہ کھول کرپنک کلر کی یونیفارم میں تھی۔ جو کہ تھوڑی ٹرانسپیرنٹ۔۔ یعنی کہ تھوڑے پتلے کپڑے کی تھی۔۔ جس میں سے اسکا جسم تھوڑا تھوڑا جھانکتا تھا۔ اور اسکی برا تو ہمیشہ ہی صاف اسکی کمر پر نظر آتی رہتی تھی۔۔ اس وقت چونکہ رات کافی ہو چکی ہوئی تھی تو وہ اپنا دوپٹہ بھی اتار کر بیٹھی ہوئی تھی اور ایسے ہی اب ڈاکٹر زمان کے سامنے کھڑی تھی۔۔
ڈاکٹر زمان بولا ۔۔ سٹاف جی۔۔ آپ کیا چاہتی ہو کہ آپکو وہی سین دوبارہ دکھاؤں یا پریکٹیکل کر کے دکھاؤں۔۔
زمان کی بات سن کر اب شرمانے کی باری زیب کی تھی۔۔ وہ مسکرادی۔۔ ہماری ایسی قسمت کہاں۔۔ اور ویسے بھی میرے لیے میرا اپنا منگیتر ہی کافی ہے۔۔
زمان اب زیب کے نرسنگ کاؤنٹر کے قریب آگیا۔۔ پھر کیا ہوا مس زیب۔۔ ایسے تو ڈاکٹر ہما کے ہسبنڈ بھی ہیں۔۔ اور میرے خیال میں تو یہ ہسبنڈ اور منگیتر کارشتہ تو ہاسپٹل
سے باہر ہی رہ جاتا ہے نا۔۔ یہاں ہم سب ایک الگ ہی
فیملی ہوتے ہیں۔۔ کیوں کیا کہتی ہو آپ۔۔
زیب مسکرائی۔۔ میں زراد دیکھ کر آؤں کہ کیا حالت کر دی
ہے آپ نے ڈاکٹر ہما کی۔۔
زمان ۔۔ ہاں ہاں۔۔ دیکھو جا کر۔۔ مگر اس بیچاری کی نیند
ڈسٹرب نہیں کرنا۔۔ بلکہ میں بھی چلتا ہوں آپکے
ساتھ۔۔آفس سے باہر نکل آیا۔۔
نیچے آیا تو سٹاف نرس زیب اس کا ہی انتظار کر رہی تھی۔۔ زمان کو نیچے آتا دیکھا تو وہ مسکراتی ہوئی معنی خیز نظروں سے اسکی طرف دیکھنے لگی۔۔ زمان نے بھی ایک بار مسکرا کر اسکو دیکھا اور اپنے آفس کی طرف بڑھنے لگا۔۔
زیب۔۔ ڈاکٹر زمان۔۔ ڈاکٹر ہما نہیں آئیں۔۔ ٹھیک تو ہیں ناوہ اوپر۔۔
زمان ۔۔ ہاں۔ ہاں ۔۔ بلکل ٹھیک ہیں۔۔ بس آنکھ لگ گئی ہے انکی۔۔
زیب مسکرائی۔۔ کمال کے مرد ہیں آپ بھی ڈاکٹر زمان۔۔ بھلا پہلی رات میں بھی کوئی اپنی دلہن کو سونے دیتا ہے کیا۔۔
زیب کی بات پر زمان جھینپ سا گیا۔۔ پہلی رات۔۔ کیسی
پہلی رات۔۔ اور کون دلہن ۔۔ کہنا کیا چاہتی ہیں آپ۔۔
زیب مسکرائی۔۔ مجھے تو لگتا ہے کہ آپ نے کچھ کرنے کی بجائے بات چیت میں ہی ٹائم گزار دیا ہے۔۔ ورنہ اتنی جلدی نیند نہ آتی ڈاکٹر ہما کو۔۔
زمان چپ رہا۔۔ وہ اب آگے سے کیا کہتا۔۔ اچانک اسکے
دماغ میں ایک خیال آیا۔۔ کیوں نا اس پر بھی ٹرائی ماری
جائے۔۔ زمان نے ایک نظر زیب پر ڈالی۔۔ وہ اپنی لائٹ
زیب۔۔ نہیں نہیں۔۔ آپ تو رہنے ہی دیں نا۔۔ میں خود ہی دیکھ آتی ہوں۔۔
زیب مسکراتی ہوئی لفٹ سے اوپر کو چلی گئی۔۔
زیب سیکنڈ فلور پر آکر آفس میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ ڈاکٹر ہما بے سدھ سورہی ہے۔۔ اسکا جسم ابھی بھی ننگا ہی تھا۔۔ جسم کے نچلے حصے پر انکی لیگی ابھی بھی موجود تھی۔۔ جو کہ کافی ساری پھٹی ہوئی تھی۔۔۔ جسے دیکھ کر زیب
مسکرا اٹھی۔۔ اوپری جسم بلکل ننگا تھا۔۔ گورا گورا چکنا جسم ۔۔ اور خوبصورت سینے کے ابھار ۔۔ گول گول سڈول مجھے ہما کی سانسوں سے اوپر نیچے ہو رہے تھے ۔۔۔ ہما کے چہرے پر سکون ہی سکون تھا۔۔ ہما سے بھی یہ سب دیکھ کر نہیں رہا گیا۔۔ وہ کاؤچ پر ہما کے ساتھ آہستہ سے بیٹھ گئی ۔۔ اور نیچے جھکتے ہوئے آہستہ سے اپنے ہونٹ ہما کے ہونٹوں پر رکھ دیئے اور اسکے ہونٹوں کو چومنے لگی۔۔ ہما نیند کی غنودگی میں تھی۔۔ اسکی نیند بھی کھلنے لگی۔۔ مگر اس نے اپنی آنکھیں نہیں کھولیں۔۔ اسکی بند آنکھوں کے
سامنے کچھ دیر پہلے ہوئی اسکی چدائی کا منظر گھوم رہا تھا۔۔ جو اس نے ڈاکٹر زمان کے ساتھ کی تھی۔۔ اسے ابھی بھی یہی لگ رہا تھا کے زمان ہی دوبارہ اسکے ساتھ شروع ہے۔۔ ہما نے بھی اسکی کسنگ کا جواب دیتے ہوئے اسکا ساتھ دینا شروع کر دیا۔۔۔
زیب نے اپنا ایک ہاتھ ہما کی چھاتی پر رکھا اور اسے دباتی
ہوئی۔۔ اسکے نچلے ہونٹ کو چوسنے لگی۔۔ پھر اپنی زبان ہما
کے منہ کے اندر داخل کی اور اسکی زبان کے ساتھچھیڑ خانی کرنے لگی۔۔ ہما کو زیب کے نرم نرم ہونٹ محسوس ہو رہے تھے۔۔ مگر ابھی بھی وہ کوئی فرق محسوس نہیں کر پارہی تھی۔۔ بس وہ بھی زیب کی زبان کو چوسنے لگی۔۔ بند آنکھوں کے ساتھ ہی ہمانے اپنا ایک ہاتھ اٹھایا ۔۔ اور زیب کی کمر پر رکھ دیا۔۔ اور اسکی کمر کو آہستہ آہستہ سہلانے لگی۔۔
یہ کیا۔۔۔ یہ تو۔۔۔ ہما کے دماغ میں ایک کوند اسالی کا جب اسکی کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسکا ہاتھ زیب کی کمر پر اسکی
برا کی ہک اور اسٹریپس سے ٹکرایا۔۔ اس نے پھر سے انکو محسوس کیا۔۔ اور پھر اپنی آنکھیں کھولیں تو حیران رہ گئی کہ اسکے ہونٹوں کو چومنے والا زمان نہیں بلکہ سٹاف زیب تھی۔۔ ہما نے جلدی سے اسکو پیچھے ہٹانا چاہا اور اُٹھنے کی کوشش کرنے لگی تو زیب نے اسکے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے دباتے ہوئے نیچے لیٹے رہنے کا اشارہ کیا۔۔ ہمانے اپنے دونوں ہاتھوں کہ اپنی ننگی چھاتیوں پر رکھ کر انکو چھپانے کی کوشش کی۔۔ تو زیب نے مسکرا کر ہما کے ماتھے پر سے اسکے بالوں کو ہٹاتے ہوئے اسکے ماتھے کو چوما اور بولی
۔۔ ہما جی۔۔ ڈاکٹر زمان کو اپنا سب کچھ دے دیا۔۔ اور ہمیں اپنا اتنا پیارا جسم دیکھنے بھی نہیں دے رہیں۔۔ ہما کے چہرے پر بھی ایک ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔۔
زیب نے ہما کے ہاتھوں کو ہٹایا اور ہما کی چھاتیوں کو ننگا کر لیا
۔۔ اور اپنا ایک ہاتھ ہما کی ایک چھاتی پر رکھ کر اسکو ڈھانپ
لیا۔۔ اور اسے آہستہ آہستہ دبانے لگی۔۔ پھر ہما کے ایک
گلابی نپل کو اپنی انگلی اور انگوٹھے کے بیچ میں لے کر مسلنے
لگی ۔۔۔ سی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ۔۔۔ ہما کی سرکاری اورپھر
جاری ہے ۔۔
Comments
Post a Comment