ڈاکٹر ہما قسط 48,49


انور - نہیں - نہیں - ایسی تو کوئی بات نہیں ہے ۔ پر تم نے ایسا کیوں لگا.


زیب مسکرانی - وہ اس لیے لگا کہ آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو مجھے اس حالت میں دیکھ کر مجھ سے مجھے چھونے کی اجازت نہ مانگ رہا ہوتا ... بلکہ اب تک


انور اسکی بات سن کر مسکرایا اور اپنی جگہ سے اٹھا اور زیب کی کرسی کے پیچھے اگر اس پر جھکا اور پیچھے سے اسے اپنی بانہوں میں بھر


لیا۔ اسکے دونوں ہاتھ اسکے مموں پر آگئے - انور نے اپنے ہونٹ زیب کی گردن پر رکھے اور اسکو چومنے لگا. زیب کے منہ سے بھی سسکاریاں نکلنے لگیں ... انور نے اسکے ممون کو آہستہ آہستہ سہلانا اور دبانا شروع کر دیا پھر اچانک سے انور نے زیب کو اپنی بانہوں میں اٹھا لیا اور اسے اپنے بیڈروم میں لے جانے لگا۔ زیب نے بھی اپنے بازو انور کی گردن میں ڈال دیئے اور مسکراتی ہوئی اسکی انکھوں میں دیکھنے لگی - بیڈروم کی طرف جاتے ہوئے انور نے اسکے جسم پر لیتا ہوا تولیہ بھی گرا دیا. اب زیب


اسکی بانہوں میں صرف برا اور پینتی میں تھی - اور انور اسکے نازک سے جسم کو اپنی بانہوں میں اٹھا کر اپنے بیڈروم میں لے جا رہا تھا ۔ اسکے گالوں کو چومتے ہوئے -


اپنے بیڈروم میں لے جا کر انور نے زیب کو اپنے بیڈ پر پھینک دیا۔ زیب کا جسم نرم نرم گدے پر اچھلا .. اور وہ زور زور سے ہنسنے لگی - زیب صرف سرخ رنگ کی برا اور پینٹی میں انور کے سامنے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی . اسکا جسم انور کے سامنے ننگا تها ... انور کچھ دیر تک اسکے جسم کو


دیکھتا رہا اسے ایسی حالت میں دیکھتے ہوئے دیکھ کر زیب بولی ...

زیب بس دیکھتے ہی رہیں گے کیا۔

زیب کی بات سن کر انور ایک بی جست میں بیڈ پر چڑھ گیا زیب کے ننگے جسم کے اوپر -- ایک ہی جھٹکے سے زیب کی برا کو اتار کر اسکے مموں کو ننگا کر دیا۔ زیب کے ممے ہما کے مقابلے میں چھوٹے تھے مگر ثانت ویسے ہی تھے - انور زیب کے دونوں ہاتھوں کو پکڑا اور اسکے سر کے اوپر لے جاکر اپنے نے

ایک ہاتھ میں دونوں ہاتھ پکڑ کر بیڈ پر دبا دینے اور زیب کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا - کیوں مس زیب جی .. اب تو ٹھیک ہے اب تو میں وبی کر رہا ہوں نا جو کسی بھی مرد کر کرنا چاہیے -


زیب مسکرانی - اور تھوڑا اونچی آواز میں بولی - اب تو مجھے آپ سے ڈر لگ رہا ہے ۔ بچاؤ - بچاؤ کوئی ہے میری سننے والا تو مجھے بچاؤ اس درندے سے ۔


انور مسکرایا.. تم کو اس درندے سے


بچانے والا کوئی نہیں ہے یہاں میری جان - یہ کہہ کر انور نے اپنے ہونٹ زیب کے ہونٹوں پر رکھ دینے اور اسکو ہونٹوں کو چومنے لگا .. اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنے لگا۔۔ زیب بھی اسکا ساتھ دینے لگی ۔ زیب نے اپنی زبان انور کے منہ میں ڈال دی اور انور نے اسے چوسنا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی اپنے ایک ہاتھ سے زیب کی چھاتیوں کو دبانے لگا۔۔ اسکے نپلز کو دبانے لگا۔ انور کے پاجامے میں اسکا لوڑا اگر چکا تها. .. جو کہ زیب کے پیٹ سے ٹکرا رہا تھا ... انور نے بھی اپنے لوڑے کو زیب کے پیٹ پر رگڑنا


زيب . کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ بتا کر انور نے اسکے گورے گورے سینے کو چوما ... اور پھر اسکے مموں کے درمیانی حصے کو چومنے لگا۔ زیب کے تنے ہوئے ممے کو مختلف جگہوں سے چومتے ہوئے اسکے براؤن نپل پر آگیا. اپنی زبان کی نوک سے زیب کی چھاتی کے نپل کو سہلانے لگا ۔۔ اسے چاٹنے لگا . اسے اپنے تھوک سے سے گیلا کرنے لگا - پھر اپنے ہونٹوں میں لیا اور سے چوسنے لگا۔ لذت کے مارے زیب کی آنکھیں بند ہونے لگیں .... وہ


شروع کردیا


انور کے سر کے بالوں میں ہاتھ


پھیرنے لگی - انور اسکے دونوں نیلز کو باری باری چوس رہا تھا ... اور نیچے سے اپنا لوڑا اسکی رانوں اور چوت پر رگڑ رہا تھا -


کچھ ہی دیر میں زیب نے پلتی کھائی اور انور کے اوپر آگئی - اور جھک


کر اپنے ہونٹ انور کے ہونٹوں پر رکھے اور اسکو چومنے لگی - اسکے ہونٹوں کو اپنی زبان سے چاٹنے لگی ۔ اپنی زبان اسکے منہ میں گھسانے لگی انور اسکی تمام حرکتوں کو دیکھ رہا


تھا .... اور گرم ہوتا جا رہا تھا - پھر

زیب نے انور کے دونوں ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیا اور انکو چوسنے لگی - ان پر اپنی زبان پھیرتی ہوئی -


چند منت بعد زیب سیدھی ہو کر انور کے رانوں پر بیٹھ گئی ۔ اپنے ہاتھ انور کی شرت کے گریبان پر رکھے ۔۔ اور ایک جھٹکے اسے اسکی شرٹ کے بتنوں کو توڑ کا اسکی شرٹ کھول دی شرٹ کے نیچے انور کا جسم ننگا تھا ۔ زیب نے اپنے دونوں ہاتھوں کو انور کے دونوں نیلز پر رکھا ۔ اور اسکے چھوٹے چھوٹے سخت نپلز کو اپنی انگلیوں میں مسلنے لگی - انور اس


درد بهری لذت پر تژپ انها .... اور ساتھ ہی اسکے منہ سے سسکاری بھی نکل گئی - زیب انور کے سینے کے بالوں کو سہلا رہی تھی اور اسکے نپلز کو مسل رہی تھی - زیب انور کے سینے پر جھکی اور اپنے لمبے لمبے ناخن کے ساتھ انور کے نپلز کو کریدنے لگی بلکے بلکے لذت امیز درد کے ساتھ انور تڑپ انها - انور کو درد میں دیکھ زیب مسکرائی اور اسکے نپلز کو اپنی زبان سے چاٹ کر اسکا درد کم کرنے لگی ۔ اپنے ہونٹوں سے تھوڑا سا تھوک انور کے نپل پر گرایا اور پھر اپنی انگلیوں سے اسے ملنے لگی ۔


انور کو الگ ہی لا لذت مل ربي تهى آج ... ایسا مزه جو كبهى بما . ا کے ساتھ نہیں آیا تها -


تھوڑی دیر تک انور کے نپلز سے کھیلنے کے بعد زیب نیچے کو جائے لگی - نیچے اسکی رانوں کے درمیان میں اگر انور کے پاجامے کے اوپر سے ہی اسکے لوڑے کو اپنی مٹھی میں لیا اور دبانے لگی ۔ پھر اسکا پاجامہ نیچے کو سرکا دیا اور انور کا اکڑا ہوا لوڑا اسکے سامنے لہرانے لگا۔ جھٹکے لینے لگا۔ زیب نے اسکا لوڑا پکڑا اور اسکی ٹوپی کو چوم لیا


پھر اسے منہ میں لے کر چوسنا شروع کردیا۔ اپنے سر کو اوپر نیچے کو کرتی ہوئی لوڑے کو چوسنے لگی ۔۔ انور کا لوڑا اسکے حلق تک جا رہا تھا حلق سے ٹکراتا تو وہ اپنے منہ کو پیچھے لے جاکر لوڑا منہ سے نکال لیتی .. کچھ ہی دیر میں انور کا لوڑا زیب کے تھوک سے لتھڑ چکا تھا ... گارها گازها تهوک اس پر لگا ہوا تھا .... تھوک کی ایک تار سی بن کر اسکے منہ سے لوڑے تک جاتی جب وہ اسے منہ سے باہر نکالتی -


جب انور کا لوڑا چوس کر زیب کیتسلی ہو گئی تو وہ اٹھ کر انور کے اوپر آگئی ۔ اپنے پیروں کے بل بیٹھ کر زیب نے اسکا لوڑا پکڑ کر اپنی چوت کے سوراخ پر ٹکایا اور آہستہ آہستہ نیچے کو بیٹھتی ہوئی اسکے لن کو اپنی چوت کے اندر لینے لگی - انور کا گورا چتا لوڑا زیب کی چوت میں اترنے لگا۔ گرم گرم لن اپنی چوت میں جاتے ہی زیب کو مزہ آگیا۔ وہ انور کے سینے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر اوپر نیچے کو ہوتے ہوئے انور سے اپنی چوت چدوانے لگی - انور بھی زیب کے مموں سے کھیل رہا تھا ... اور کبھی کبھی نیچے سے اوپر کی طرف دھکا


بهی مار دیتا تها -


کچھ دیر ایسے ہی زیب اوپر سے چدواتی رہی ۔ پھر انور نے اسے بانہوں میں بھر کر پلٹ دیا اور بنا لوڑا اسکی چوت سے نکالے اس کے اوپر آگیا۔ زیب کے جسم کے اوپر لیٹنے ہوئے انور نے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھے اور اسے چومنے دھکے لگانے لگا۔ ہوئے پیچھے سے زیب نے بھی اپنی ٹانگیں اسکے چوتڑوں کے گرد کس لیں اور انور کے لوڑے کو اپنی چوت کی گہرائیوں تک لے جانے لگی - دونوں کو ہی خوب


مزه آربا تها - انور نے سیدھا ہو کر زیب کی دونوں ٹانگوں کو کھولا اور چوڑا کر کے دھکے لگانے لگا۔ کمرے میں تھپ تھپ .. تهپ کی آوازیں گونج رہی تھیں - اور انور زیب کی چوت چود رہا تها .. اسی دوران زیب کی چوت نے دوسری بار پانی چهوڑ دیا اور انور کے لوڑے کو دبانے لگی ۔ آخر انور کے لوڑے سے بھی منی نکل کر زیب کی چوت کو بھرنے لگی ۔ اور انور نڈھال ہو کر زیب کے اوپر لیٹ گیا۔ زیب نے اسی دوران اپنی اور انور کی کچھ تصویریں بھی بنا لیں ہما کو دکھانے کے لیے ۔


دوسری طرف .. بما باسپٹل میں پہنچی تو اسے پتہ چلا کہ آج زیب ڈیوٹی پر نہیں ہے بلکہ کوئی دوسری نرس کی ڈیوٹی ہے ۔ جو عمر میں ہما سے بڑی تھی ۔ اور ظاہر ہے کہ اسکے ساتھ زیب جیسی فرینکنیس نہیں تھی ۔ اس لیے ہما اپنے آفس میں ہی بیٹھی تھی ۔ تھوڑی دیر میں رشید کمرے میں آیا اور صفائی کرنے لگا۔ اپنا کام کرتے ہوئے وہ بار بار مسکرا کر ہما کو دیکھنے لگا۔ ہما بھی اسکو دیکھ رہی تهی - کچھ دیر بعد بولی

بما .. رشید کیا بات ہے تم ایسے کیوں ہنس رہے ہو ۔


رشید بنسا کچھ نہیں میثم - بس میں سوچ رہا تھا کہ آج آپ نے ڈاکٹر زمان اور ڈاکٹر فرخ کے ساتھ خوب مزے کیے ہیں نا ۔


ہما نے چونک کر اسکی طرف دیکھا . اور پھر بولی - تم باز نہیں آتے نا میری جاسوسی کرنے سے ۔


رشید بولا ... سوری میڈم ۔ ویسے میں نے آپ کو کچھ کہا تو نہیں نا - بس


پوچھ ہی رہا ہوں نا کہ کتنے مزے کیے آپ نے ۔


بما چڑ کر بولی ۔ تم کو کیا اس سے ۔ تم اپنا کام کرو جا کر - وہ جانے لگا تو بما بولی - یہ ڈاکٹر زمان آج کیوں نہیں آئے ابھی تک ڈیوٹی پر -


رشید پتہ نہیں میڈم جی - آپ کال کر کے پوچھ لیں ۔


ہما نے اپنا موبائل اٹھایا اور زمان کو کال کرنے لگی ۔


بما - اوه بو .. میرا تو بیلنس بی ختم ہو گیا ہے ۔ جاؤ کارڈ لے کر آؤ۔


رشید نے اپنا موبائل نکال اور ہما کے سامنے کردیا میڈم آپ میرے موبائل سے کال کر لیں - ہما نے جھجکتے ہوئے اس سے موبائل لے لیا اور زمان کا نمبر ملانے لگی ۔


بما .. نمبر مصروف جا رہا ہے اسکا۔


رشید میدم آپ ٹرائی کریں میں اتنی دیر میں کارڈ لاتا ہوں ۔ رشید کمرے سے باہر چلا گیا تو ہما اسکا موبائل


دیکھنے لگی ۔ سوئیپر ہونے کے


باوجود بھی اسکے پاس مہنگا موبائل


تھا... بما دیکھنے لگی ۔ اس میں رشید


نے ننگی فلمیں بھری ہوئی تھیں - اور


پتہ نہیں کس کس کے موبائل نمبرز


تھے ۔ کوئی دس منٹ کے بعد رشید


واپس آگیا.. تو بما ابھی بھی موبائل دیکھ


رہی تھی -


رشید میدم جی کیا دیکھ رہی ہیں ۔


بما - جو تم نے اس میں بھرا ہوا ہے وہ


دیکھ رہی ہوں .. تم مردوں کو بس یہی


کام ہوتا ہے کیا۔۔رشید ہنستا ہوا آگے بڑھا اور ہما کی کرسی کے پیچھے آکر اپنے ہاتھ آگے لا کر اسکے مموں پر رکھ کر انکو سہلاتے ہوئے بولا - بس میڈم جی ٹائم پاس کرنے کے لیے ہی ہے اور کیا ۔


ہمانے اسکے ہاتھوں کو نہ روکا اور بولی - ایسی فلمیں دیکھ دیکھ کر ہی تو بھی تم خراب ہوتے ہو اور ہر کسی کے ساتھ ایسی ہی گندی حرکتیں کرتے ہو


رشید نے جھک کر ہما کے گال کو


چوما اور بولا ... جس کسی کے ساتھ ایسی حرکت کرتے ہیں اسکو بھی تو مزہ آتا ہی ہے نا ۔ ہے نا میڈم جی -


ہما نے اسکا ہاتھ اپنے بوبس پر سے بتایا - اور بولی - چلو جاؤ اب بابر - وه نرس آگئی نا تو بہت برا ہو گا۔


رشید منہ لٹکا کر باہر کی طرف چل پڑا اور ہما مسکراتی ہوئی اسکو جاتا


ہوا دیکھتی رہی . ایک رات جب ہما اور زمان دونوں ہی ڈیوٹی پر تھے تو ڈاکٹر


فرخ بھی ہاسپٹل میں آگیا۔۔ اس وقت رات کے 2 بج


رہے تھے۔۔ کچھ دیر کے لیے سب بیٹھ کر گپ شپ کرتے رہے۔ ۔ رشید آفس میں چائے لے کر آیا تو سب کی نظر بچا


کر اس نے ہما کی طرف دیکھا۔۔ اور فرخ کی طرف اشارہ


کرتے ہوئے ہما کو آنکھ مار دی۔۔ خود بخود ہی ہما کے چہرے پر شرمیلی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔ تھوڑی دیر بعد فرخ پولا


فرخ آؤ یار باہر چل کر کچھ کھا پی کر آتے ہیں۔۔


پہلے تو ہما نہیں مانی لیکن دونوں کے بہت اصرار پر وہ انکے


ساتھ چل پڑی۔۔ زمان نے اپنی گاڑی نکالی۔۔ ہما پچھلی


سیٹ پر بیٹھ گئی تو فرخ بھی پچھلی سیٹ پر ہی آگیا۔۔ ہما اسکا مطلب سمجھ گئی۔۔ مسکرا کر بولی۔۔


ہما۔۔ تم اگلی سیٹ پر جاؤ نا۔۔ پیچھے کیوں آگئے ہو۔۔


گاڑی جیسے ہی چلی تو فرخ نے ہما کو اپنی بانہوں میں کھینچ کر


اپنی گود میں لٹا لیا اور اسکے چہرے پر جھک گیا۔۔ میری

Comments

Popular posts from this blog

سچی کہانی۔۔ قسط نمبر 1

"*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 3

*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 4