استانی جی قسط 4

 



کافی دیر تک ارمینہ میرے ساتھ لپٹ کر مجھے چومتی رہی پھر وہ بیڈ سےنیچے اتری اور واش روم کی طرف جاتے ہوئے ایک پرانا سا کپڑا میری طرف پھینکتے ہوئے بولی ۔ ۔ ۔۔ یہ لو اور اس سے اپنے وہاں (لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) پر لگا ملبہ صاف کر لو ۔۔ اور میں نے اس سے کپڑالیکر لن اور اس کے آس پاس لگی اپنی اور ارمینہ کی لگی ہوئی منی اچھی طرح صاف کی اور پھر وہ کپڑاپھینک کر جلدی سے پاس پڑے ہوئے اپنے کپڑےاٹھا کر پہن لیئے۔۔۔ اتنی دیر میں ارمینہ بھی واش روم سے واپس آ گئی تھی آتے ساتھ ہی اس نے بیڈ پر رکھی اپنی شلوار پہنی جبکہ قمیض اس نے پہلے ہی پہن رکھی تھی اس کے بعد وہ میری طرف مُڑی اور مجھے اپنے گلے سے لگا کر بولی ۔ ۔ ۔ جان جی ۔۔۔جی تو بہت چاہ رہا ہے کہ تمھارے ساتھ مزید مستیاں کروں ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن مجبوری ہے ۔۔کہ ۔ ۔ ۔۔ گھر والوں کے آنے کا ٹائم بھی ہو گیا ہے اس لئے باقی مستیاں پھرکبھی کریں گے اورپھر اس نے مجھ ہاتھ ملایا اور میں نے اس کے لال گال پر ایک چمی دی اور گھر آ گیا ۔اور راستے میں اس کے بارے میں ہی سوچتا رہا کہ بظاہر وہ کس قدر ریزرو قسم کی لڑکی ہے ۔۔۔ پھر مجھے اس کے سینے کی گولائیاں اور دیگر چیزیں یاد آنا شروع ہو گئیں ۔۔۔ اور اسی اثنا میں ۔۔ میں گھر پہنچ گیا ۔۔۔۔۔اور جاتے ساتھ ہی سیدھا واش روم میں نہانے کے لیئے میں چلا گیا ۔ اور ارمینہ کی تنگ چوت اور خاص کر اس کےلال لال گالوں کا تصور کرتے ہوئے نہانے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ پھر پتہ نہیں کیسے اچانک ہی میرے زہن میں ربے کا خیال آ گیا اور اس کے ساتھ ہی یاد آیا کہ ۔۔۔ مجھے تو لائیبریری بھی جانا تھا ۔ ربے کی سوچ آتے ہی ارمینہ کا تصور جانے کہاں چلا گیا ۔۔۔ اور اس کی جگہ میرے ذہن میں ربے کا منحوسچہرہ آ گیا ۔۔جسے سوچ کر میں خاصہ بے مزہ ہوا ۔۔ اور پھر میں جلدی سے نہا کر ۔۔۔ اس کی دکان کی طرف بھاگا اور راستے میں دعا کرتا رہا کہ اس کی دکان کھلی ہو۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس بہن چود کا موڈ بھی اچھا ہو -

اور جیسے ہی میں ربے کی دکان کے قریب پچاتھ تودُور سے مجھے اس کی دکان بند نظر آئی ۔ ۔ ۔۔ یہ دیکھ کر میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا ۔۔۔ لیکن جب میں نے غور سے دیکھا تو اس کی دکان پر ایک بڑا سا کاغذ چپکا ہوا نظر آیا ۔۔ اور میں چلتے چلتے اس کی دکان پر لگے نوٹس کے پاس پہنچا ۔اور اسے پڑھنے لگا ۔۔۔۔ دوستو ۔۔۔ یقین کرو وہ نوٹس پڑھ کر مجھے ایک عجیب سی کمینی خوشی ہوئی ۔۔۔ اس پر لکھا تھا۔۔

"بوجہ وفات والد صاحب دکان 15 دن کے لیئے بند رہے گی '"

اور نیچے فٹ نوٹ میں ربے نے اپنے گاؤں کا پتہ بھی لکھا تھا جو ضلع ساہیوال کے قریب کا کوئی گاؤں تھا ۔۔ نوٹس پڑھ کر میں نےساتھ والے دکان دار سے پوچھا کہ ربے کے والد صاحب کب فوت ہوئے ہیں ؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگا کہ یہ آج صبع کی بات ہے- اس کے بعد میں اپنے پرانے محلے چلا گیا اور یار دوستوں کے ساتھ خوب گپ شپ لڑا کر رات کو واپس گھر آ گیا ۔۔

اگلی صبع تیار ہو کر جب میں سکول جانے کے لیئے گھر سے نکلا تو میں کشمکش کا شکار ہو رہا تھا کہ ارصلا کو لینے اس کے گھر جاؤں کہ نہ جاؤں ۔۔ کیونکہ ارصلا نے مجھے بتایا تھا کہ اس کی بڑی باجی اسے چھٹی کروا دے گی پھر سوچا کہ یہ بات تو ارصلا نے مجھے کل بھی بتائی تھی لیکن ارمینہ نے اس کو چھٹی نہ کرنے دی تھی ارمینہ کا نام ذہن میں آتے ہی میرے انگ انگ میں اک جل ترنگ سا بجنے لگا اور میں خود سے یہ کہتا ہوا ارمینہ کے گھر کی طرف چل پڑا کہ ارصلا سکول جائے یا نہ جائے ۔میری بلا سے ۔ میرے جانے سے ارمینہ کا دیدار تو ہو جائے گا نا ۔۔ یہ سوچ کر میں نے نے ارصلا کے گھر کا پردہ ہٹایا اور اندر داخل ہو گیا ۔۔۔ سامنے ہی ماسی پٹھانی کھڑی تھی میں نے اسے سلام کیا اور ارصلا کے بارے میں پوچھا تو وہ بڑی شفقت سے بولی ۔۔۔ بیٹا ارصلا کا موڈ تو چھٹی کا ہے پر تم ارمینہ کو تو جانتے ہی ۔۔۔۔ وہ اسے ایسا نہیں کرنے دے رہی ۔۔۔ اس لیئے ارصلا روٹھ کر چھت پر چلا گیا ہے اور ارمینہ بھی اس کے ساتھ ہی چھت پر موجود ہے اور وہ دونوں چھت پر اسی بات کا فیصلہ کر رہے ہیں ۔۔۔۔ کہ سکول سے چھٹی کی جائے یا نہ ۔۔۔۔ پھر وہ مجھ سے کہنے لگی بیٹا آپ بھی اوپر جا کر اپنے دوست کو کچھ سمجھاؤ۔ ماسی کی بات سُن کر میں ان کی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا اور جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھنے لگا ابھی میں آدھی ہی سیڑھیاں چڑھا تھا کہ اچانک مجھے اوپر سےارمینہ آتی دکھائ دی اسے آتے دیکھ کر مجھےشرارت سوجھی اور میں ایک دم سیڑھیوں کے درمیان کھڑا ہو گیا اور جیسے ہی ارمینہ میرے قریب آئی میں نے اپنا سر نیچے کیا اور ارمینہ کی خوبصورت چھاتیوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا ۔۔۔۔ارمینہ کی نرم نرم چھاتیاں میرے ہاتھوں میں تھیں اور میں انہیں بڑے پیار سے دبا رہا تھا ۔۔ حیرت انگیز بات یہ ہے ارمینہ نے میری چھاتیاں پکڑنے پر نہ تو کوئی مزاحمت کی تھی اور نہ ہی وہ منہ سے کچھ بولی ۔۔۔۔۔ مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے اپنی چھاتیوں کو برا سے نہیں ڈھکا ہوا تھا سو۔ ۔ ۔ ۔ اس کی پتلی سی قمیض کے اوپر سے ہی میں نے اسکے گول گول اور نرم مموں کو پکڑ کرخوب دبایا ۔۔اور پھر ۔۔۔۔۔۔پھر دوسرے ہی لمحے میں اپنا ایک ہاتھ اس کی دونوں ٹانگوں کے بیچ لے گیا اور اس کی چوت سے اپنا ہاتھ ٹچ کر دیا ۔۔۔ یہ سب میں نے اتنی جلدی میں اور آناً فانناً کیا کہ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اس سے قبل کہ وہ مجھ سے کچھ کہتی یا کوئ ری ایکشن دیتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔میں جلدی سے سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اوپر کی طرف بھاگ گیا ۔۔۔۔

جیسے ہی میں چھت پر پہنچا ۔ ۔۔ ۔۔ تو سامنے ہی ارصلا کھڑا تھا اور اس کے ساتھ ۔۔۔۔۔ اوہ ۔۔۔ اس کے ساتھ ارمینہ کھڑی تھی ۔۔۔۔۔ ارمینہ کو ارصلا کے ساتھ کھڑے دیکھ کر کچھ دیر تو میں ششدر کھڑا اس کو دیکھتا رہا اور پھر یاد آیا کہ اگر ارمینہ یہاں کھڑی ہے تو وہ ۔۔۔ وہ ۔۔ لڑکی جس کے میں نے ابھی ابھی ممے دبائے ہیں ۔۔۔ تو وہ کون تھی ۔۔۔۔۔ ہو نہ ہو وہ ۔۔۔۔ ارصلا اور ارمینہ کی بڑی بہن مرینہ ہو گی ۔۔۔تو۔۔ تو ۔۔تو ۔۔کیا میں نے ارمینہ کی جگہ مرینہ کے ممے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔ اُٖف ف ف ففف ۔۔ یہ بات سوچتے ہی میری ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑ گئی اور میری ٹانگیں جواب دیں گئیں ۔۔ اور کانوں میں سیٹیاں سی بجنے لگیں اور میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ ۔ ۔ خیر میں گرتا پڑتا ان کے پاس پہنچا اور ان کے پاس چپ چاپ کھڑا ہو گیا ۔۔۔ ارمینہ جو میری طرف ہی دیکھ رہی تھی ۔۔مجھے دیکھ کر ۔۔ تھوڑا فکر مندی سے بولی ۔ خیر تو ہے نا ؟؟ کافی پریشان لگ رہے ہو ؟؟ ۔۔ تو میں جواباً ایک نے پھیکی سی مسکراہٹ سے کہا ۔ جی ۔۔ میں ۔۔ ۔میں ۔ ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی اگر تم ٹھیک ہو تو یہ تمھارے چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں ؟ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا ارصلا کہنے لگا بھائی آپ جاؤ میں آج چھٹی کروں گا ۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر ارمینہ اس سے کہنے لگی ۔۔۔۔ ارصلا پلیز ۔ ۔ !!! تم پہلے ہی پڑھائی میں کافی کمزور ہو ۔۔۔ لیکن ارصلا نے اس کی بات سنی ان سنی کرتےہوئے بولا ۔۔۔جب مرینہ باجی نے بھی چھٹی کا کہہ دیا ہے توآپ کو کیا تکلیف ہے ؟؟؟؟؟؟ ۔ ۔تو ارمینہ بولی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو چندا ۔۔ابھی ارمینہ نے اپنی بات پوری نہیں کی تھی کی پیچھے سے ماسی کی آواز آئی وہ ارمینہ سے کہہ رہی تھی کہ۔ ۔ ۔ ۔ بیٹا کیوں ضد کر رہی ہو ارصلا کو چھٹی کرنے دو نا ۔۔۔۔۔ بھلا ایک دن کی چھٹی سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہو کر بولی ۔۔ بیٹا آپ کے آنے کا بہت شکریہ ۔۔۔ ارصلا آج چھٹی کرے گا تمہیں سکول سے دیری ہو رہی ہو گی تم جاؤ ۔۔ اور میں ماسی کی بات سُن کر واپس مڑا اور تیزی سے ان کے گھر سے باہر نکل گیا کیونکہ میرے دل میں مرینہ کا شدید خوف تھا۔۔ سکول جاتے ہوئے سارے راستے میں ، میں اسی حادثے کے بارے میں سوچتا اور خود کو کوستا رہا ۔۔۔۔ لیکن اب پچھتائے ۔۔۔ کیا ہو سکتا تھا ۔۔۔

سکول پہنچ کر بھی یہ واقعہ میرے دماغ سے چپکا رہا اور میرے سارے وجود پر ایک عجیب انجانا سا خوف طاری رہا اسی لیئے چھٹی کر کے میں سیدھا گھر گیا اور پھر وہاں سے اپنے پرانے محلے چلا گیا اور شام کو واپس آیا تو گھر والوں نے بتلایا کہ ارصلا دو تین چکر لگا چکا ہے ۔۔۔چونکہ صبع والی بات کے حوالے سے میرے دل میں چور تھا اس لیئے ان کی یہ بات سُن کر میری تو گانڈ ہی پھٹ گئی چنانچہ جلدی سے کوئی بہانہ بنا کر گھر سے باہر چلاگیا کہ اب میں رات کو ہی گھر آؤں گا ۔۔۔ ابھی میں اپنے گھر سے باہر ہی نکلا تھا کہ سامنے سے مجھے ماسی پٹھانی آتی ہوئی دکھائی دی ۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی بولی ۔۔۔ ارے بیٹا کہاں رہ گئے تھے تم ۔۔۔؟ میں نے تین چار دفعہ ارصلا کو بھیجا لیکن پتہ چلا کہ تم گھر پر نہیں ہو اور اب میں خود آئی تو تم کہیں جا رہے ہو ۔۔ اس کی بات سن کر پتہ نہیں میں کیا سمجھا اور بولا ۔۔ وہ ۔۔وہ ۔۔ ماسی ۔۔ میں ایک کام سے گیا تھا ۔۔۔ تو وہ بولی چلو کوئی بات نہیں ۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر بڑی شفقت سے کہنے لگی ۔تم کافی پریشان سے لگ رہے ہو ۔۔۔ بیٹا خیریت تو ہے نا ؟ ۔۔۔پھر کہنے لگی اگر کوئی ایسی بات ہے تو مجھے بتاؤ ؟ اور اب میں اس کو کیا بتاتا کہ صبع اس کی چھوٹی بیٹی کے بھلیکھے میں ،میں اس کی بڑی بیٹی کے ممے دبا بیٹھا ہوں ۔اور ا س کی چوت پر بھی ہاتھ لگا بیٹھا ہوں ۔۔ اور اب ڈر کے مارے میری گانڈ پھٹی جا رہی ہے ۔۔لیکن نہ کہہ سکا اور کہا تو بس اتنا کہ نہیں ماسی ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔ اور پھر میں نے ان سے کہا حکم کریں ۔۔ماسی کہ میں نے سنا ہے کہ آپ مجھے یاد کر رہیں تھیں ۔۔۔ ؟؟ تو وہ سر ہلا کر بولی ہاں بیٹا اصل میں بات یہ ہے کہ مرینہ کو ایک بڑے ہی ضروری کام سے ہمارے رشتے دار کے گھر جانا ہے اور اس کے دا جی (والد صاحب) کے پاس ٹائم نہیں ہے جبکہ میں نہ تو خود وہاں جانا چاہتی اور نہ ہی کسی بیٹے یا بیٹی کو اس کے ساتھ ان رشتے داروں کے گھر بھیجنا چاہتی ہوں اور مصیبت یہ ہے کہ اس کے دا جی اس کو اکیلا بھی نہیں جانے دے رہے تو ایسے میں ایک تم ہی مجھے نظر آئے جو کہ جس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ تم بائیک بھی چلانا جانتے ہو اس لیئے میں تمہیں مرمینہ کے ساتھ لال کُڑتی تک بھیجنا چاہ رہی تھی ۔۔۔مرینہ کے ساتھ جانے کا سُن کر بے اختیار مجھے پنجابی کا ایک محاورہ یاد آ گیا کہ "موسیٰ ڈریا موت کولوں تے موت اگے کھڑی "۔۔۔۔۔۔۔ یعنی میں صبع سے جس خاتون سے بچتا پھر رہا تھا تقدیر مجھے اسی کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ چنانچہ اب میں نے آخری چارے کے طور پر ماسی کے سامنے تھوڑا سا ہیچر میچر کیا لیکن شاید ان کا بھی کام کام ضروری تھا ۔۔ اس نے میری ایک نہ سُن ی اور ۔۔۔ مرتا کیا نہ کرتا ۔۔۔ میں ماسی کے ساتھ اس کے گھر کی طرف چل پڑا۔۔۔۔۔۔

ماسی کے گھر پہنچ کر اس نے مجھے ڈرائینگ روم میں بیٹھنے کو کہا اور خود دوسرے کمرے میں چلی گئی تھوڑی ہی دیر بعد میرے سامنے مرینہ کھڑی تھی ۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ مرینہ اور ارمینہ کا جسم ، قد کاٹھ بلکل ایک جیسا تھا (تبھی تو صبع میں نے دھوکا کھایا تھا ) چہرہ البتہ دونوں کا مختلف تھا جیسے ارمینہ کے گال قدرتی لال تھے اور مرینہ کے گال گورے تھے ان میں لالگی نہ ہونے کے برابر تھی اسی طرح مرینہ کی آنکھوں میں ایک شرارت ناچتی تھی اور ارمینہ کی آنکھوں میں گہری اداسی نظر آتی تھی اسی طرح مرینہ کا چہرہ بیضوی تھا جبکہ ارمینہ کا قدرے لمبوترا تھا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ مرینہ نے میری طرف ایک گہری نظر سے دیکھا اور ماسی سے بولی اچھا تو اس لڑکے نے میرے ساتھ جانا ہے ؟ تو ماسی سر ہلا کر بولی ۔۔۔ ہاں یہی وہ معشوم (لڑکا) ہے جو تمہارے ساتھ جائے گا اور پھر خود ہی کہنے لگی ۔۔ بچارہ بڑا ہی نیک اور اچھا لڑکا ہے پھر ماسی مجھ سے مخاطب ہو کر بولی بچہ جلدی سے جا کر موٹر سائیکل سٹارٹ کرو ۔۔ اور میں ڈرائینگ روم سے نکل کر ان کے برآمدے میں آ گیا جہاں ان کے دا جی کا موٹر سائیکل کھڑا تھا اور اس پر ایک بڑا سا کپڑا پڑا ہوا تھا میں نے وہ کپڑا وہاں سے ہٹایا اور بائیک کو کک ماری تو وہ پہلی کک پر ہی سٹارٹ ہو گیا چنانچہ میں اس پر بیٹھ گیا اور اسے گرم کرنے کی نیت سے ہلکی ہلکی ریس دینے لگا ۔ کچھ دیر بعد جب مرینہ کمرے سے باہر نکلی تو وہ سر تا پا ایک بڑی سی چادر سے ڈھکی ہوئی تھی اور اس نے اپنے چہرے پر نقاب بھی کیا ہوا تھا ۔ وہ چپ چاپ میرے پیچھے بیٹھ گئی اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی چلو ۔۔! اور میں نے موٹر سائیکل چلا دی ماسی نے پہلے سے ہی دروازہ کھولا ہوا تھا ۔۔۔ میں موٹر سائیکل بھی چلا رہا تھا اور اس بات پر بھی بڑا حیران ہو رہا تھا کہ میں نے اس کے ممے دبائے اور اس نے ابھی تک مجھے کچھ بھی نہیں کہا اور نہ اس نے ابھی تک میری کوئی شکایت وغیرہ لگائی تھی ۔۔۔ اس کی خاموشی مجھے بُری طرح چُبھ رہی تھی ۔۔ اور میں اندیشہ ہائے دور دراز میں کھویا بائیک چلا رہا تھا ۔۔۔ جب ہم لیاقت باغ کے قریب پہنچے تو میں نے پہلی دفعہ مرینہ کی آواز سُنی وہ کہہ رہی تھی کہ ذرا بائیک کو لیاقت باغ کے اندر لے چلو !۔۔۔ اس کی آواز سُن کر میں تھوڑا کنفیوز ہوا اور بولا ۔۔۔ لیکن ماسی جی تو کہ رہی تھیں کہ ہم نے لال کڑتی جانا ہے ؟ تو میری بات سُن کر وہ بولی ۔۔ ہاں ہم نے جانا تو لال کُڑتی ہی ہے ۔۔۔ لیکن فی الحال تم بائیک کو لیاقت باغ لے جاؤ ۔۔شام کا وقت تھا ۔۔ ہلکا ہلکا اندھیرا چھا رہا تھا جب ہم لیاقت باغ کے اندرنسبتاً ایک ویران سےگوشے میں واکنگ ٹریک کے ساتھ لگے بینچ پر جا کر بیٹھ گئے ۔۔ اندر سے تو مجھے کچھ کچھ اندازہ تھا ۔۔۔ کہ چکر کیا ہوسکتا ہے ۔۔۔ لیکن پھر بھی بینچ پر بیٹھتے ہی میں نے اس سے کہا ب ہم یہاں کیوں آئے ہیں باجی ؟؟ ؟ میری بات سُن کر تو وہ جیسے پھٹ پڑی اور بڑے ہی زہر آلود لہجے میں بولی ۔۔

اچھا تو اب یہ بھی مجھے بتانا پڑے گاکہ ہم لوگ یہاں کیوں آئے ہیں ؟ تو میں نے۔۔ جو سب سمجھ چکا تھا ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا ۔۔ سوری ۔۔۔ میں سمجھا نہیں ؟ تو وہ ایک دم غصے میں آ گئی اور کہنے لگی ۔۔۔ ۔۔۔ ابھی بتاتی ہوں بہن چود !! ۔۔۔ اس کے منہ سے اتنی بڑی مردانہ گالی سن کر میرا تو پتِہ پانی ہو گیا ۔۔لیکن میں نے ۔ بڑا ہی مسکین سا منہ بنا کر کہا ۔۔۔ میں نے کیا کیا ہے باجی ؟؟؟؟ ۔۔۔ تو وہ ایک دم غصے سے بولی ۔۔۔ بہن چود کے بچے ۔۔۔ ۔۔۔ صبع تم نے میرے ساتھ کیا حرکت کی تھی ؟؟ ۔۔۔۔ اس کی بات سن کر اور اس کا غصہ دیکھ کر میں نے معافی مانگنے میں ہی عافیت جانی اور بولا ۔۔۔ وہ باجی مجھ سے غلطی ہو گئی تھی پلیز معاف کر دیں اور ساتھ ہی اپنے دونوں ہاتھ جو ڑ دیئے ۔۔ مجھے یوں معافی مانگتے دیکھ کر شاید اس کو کچھ ترس آ گیا اور وہ بولی ٹھیک ہے میں تم کو معاف کر سکتی ہوں ۔۔۔۔ لیکن ایک شرط پر ۔۔ تو میں نے جھٹ سے کہہ دیا باجی مجھے آپ کی ہر شرط منظور ہے ۔۔ میری بات سن کر وہ قدرے تیزی سے بولی پہلے سُن تو لے سالے ۔۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔ یہ جو حرکت صبعتم نے مجھ سے کی تھی ۔۔۔ سچ بتا ۔۔ تم نے مجھے ارمینہ سمجھا تھا نا ؟ اب میں پھنس گیا تھا ۔۔۔۔ سچ بتاتا ۔۔ تو مرتا ۔۔۔ جھوٹ بولتا تو مرتا ۔۔۔ پھر میں نے سوچا کہ جب مرنا ہے تو۔۔۔کیوں نہ میں جھوٹ بولوں کہ اس طرح کم از کم ارمینہ کی تو جان بچ سکتی تھی ۔۔ چنانچہ میں نے مرینہ کی طرف دیکھا اور ۔۔۔ اور بولا۔۔۔ نہیں باجی ۔۔۔ وہ میں ۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں فقرہ مکمل کرتا اس نے مجھے تھپڑ مارنے کے لیئے اپنا ہاتھ اُٹھا یا اور بولی ۔۔۔۔ حرامزادے۔۔۔ !!! سچ سچ بتا ۔۔۔۔ ورنہ ابھی ایک دوں گی نا ۔۔۔تو تم کو نانی یاد آ جائے گی۔ میرے دل میں چونکہ پہلے سے ہی چو رتھا اس لیئے میں اس کی ڈانٹ سُن کر ڈر گیا اور آئیں بائیں شائیں کرنے لگا ۔لیکن جب اس نے دوبارہ کڑک لہجے میں کہا تومیں اور بھی ڈر گیا اور اس سے بولا ۔۔۔ وہ ۔۔باجی ۔۔ وہ باجی ۔۔ اور پھر ایک اور ڈانٹ سن کر میں نے اس کو الف سے یے تک ساری سٹوری سنا دی لیکن یہاں بھی ارمینہ کو چودنے اور کچن میں ہونے والا واقعہ گول کر گیا ۔۔۔ جب میں اس کو سٹوری سنا رہا تھا تو اچانک وہ درمیان میں بولی ۔۔۔ یہ بتاؤ ۔۔ اس کے ساتھ تم نے ابھی تک " وہ والا " والا کام کیا ہے یا نہیں ؟ ؟ تو میں نے کہا کہ نہیں باجی ابھی تو ہماری کہانی شروع ہی ہوئی ہے ۔

میری سٹوری سُن کر وہ کسی گہری سوچ میں پڑ گئی اور پھر کافی دیر تک سوچنے کے بعد بولی چلو اب تم مجھے لال کڑتی لے چلو ۔۔۔۔ چانچہ جیسے ہی میں اُٹھا ۔۔۔ اس نے ایک دم مجھے بازو سے پکڑکے نیچے بٹھا دیا اور پھر اسی خونخوار لہجے میں بولی ۔۔۔ دیکھو ۔۔۔!!! ارمینہ کے ساتھ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو میرا اس کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔۔۔ تم نے میرے ساتھ ایسی حرکت کی تھی اس لیئے میں نے تم سے یہ وضاحت مانگی ہے ۔۔۔ پھر وہ اچانک مکا لہرا کر ۔۔۔ بولی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ خبردار ۔۔ یہ جو تیرے اور میرے بیچ بات ہوئی ہے اس کی بِھنک بھی ارمینہ کو نہیں پڑنی چاہیئے ۔۔۔ اور پھر مزید آنکھیں نکال کر بولی ۔۔۔۔ میری بات سمجھ گئے ہو نا ۔۔۔ تو میں نے کہا جی میں آپکی بات اچھی طرح سے سمجھ گیا ہوں ۔۔۔۔ تو اس دفعہ وہ تھوڑا نرم لہجے میں کہنے لگی کہ دیکھو میں تمھارے اور اس کے معاملے میں بلکل نہیں پڑنا چاہتی ۔اور نہ ہی مجھے اس سے کچھ غرض ہے ۔۔ اور پھر مجھے اُٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ یہ بات ابھی اور اسی وقت ختم سمجھو ۔۔۔ آج کے بعدہم اس بارے میں کوئی گفتگو نہیں کریں گے ۔ اس کے بعد ہم لالکڑتی چلے گئے ۔۔۔۔ یہ لالکڑتی سے واپسی کی بات ہے کہ مین سڑک پر اچانک ایک گدھا گاڑی والا میرے سامنے آ گیا اور میں نے بڑی مشکل سے موٹر سائیکل کو ادھر ادھر کے ایک تنگ سے راستے سے بائیک گزاری ۔۔۔ اس وقت تو مرینہ کچھ نہیں بولی لیکن جیسے ہی بائیک تھوڑا آگے بڑھی تو ۔۔ اچانک وہ پیچھے سے کہنے لگی ۔۔ بات سُنو !!۔۔۔ تم وہاں بریک لگا کر رُک بھی سکتے تھے پھر یہ اتنا رسک لینے کی کیا ضرورت تھی ؟ تو میں نے کہا کہ ۔۔۔ وہ باجی اچانک بریک لگانے سے آپ ناراض بھی ہو سکتی تھی اس لئے میں نے یہ رسک لیا تھا ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ بولی ۔۔۔ اس میں ناراض ہونے کی بھلا کون سی بات تھی ؟ میں پیچھے بیٹھی یہ سب کچھ خود بھی تو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ پھر وہ میری بات کی تہہ تک پہنچ کر بولی ۔۔۔ بیٹا ہمیں سب پتہ چلتا ہے کہ کب بریک ضرورتاً لگائی گئی ہے اور کب غیر ضروری طور پر۔۔۔ اس لئے تم اس بات کی فکر نہ کیا کرو۔۔۔ اور ضرورت کے مطابق کام کیا کرو ۔۔ خواہ مخواہ رسک لینے کی کوئی ضرورت نہ ہے ۔۔

ہمیں گھر پہنچے پہنچتے رات کے ۔دس گیارہ بج چکے تھے ۔۔چنانچہ جیسے ہی ہم گھر میں داخل ہوئے تو سامنے ہی ماسی اور ارمینہ کھڑی تھیں ۔۔۔ خیر خیریت کے بعد ماسی نے سب سے پہلے مرینہ سے میرے بارے میں سوال کیا تو مرینہ کہنے لگی ۔۔۔ بہت اچھا لڑکا ہے اور بڑی ہی میچور بائیک چلاتا ہے ۔۔ یہ کہہ کر وہ جلدی سے واش روم میں گُھس گئی اور ماسی کچن میں جاتے ہوئے ارمینہ سے بولی ۔۔۔ ارمینہ بھائی کو باہر چھوڑ کر دروازہ لاک کر لو ۔۔۔ جبکہ ارمینہ وہیں کھڑی رہی پھر میرے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ہولے سے بولی ۔۔۔ بات سنو ۔۔!! مرینہ کے سامنے نہ تو تم نے مجھ سے زیادہ بات کرنی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی ویسی حرکت ۔۔۔ اتنے میں دروازہ آ گیا تو وہ مجھے باہر نکال کر ایک دفعہ پھر مجھ سے مخاطب ہو کر بولی ۔۔۔ میری بات سمجھ گئے ہو نا ؟؟ تو میں نے اس سے کہا جی میں اچھی طرح سے سمجھ گیا ہوں ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ مطمئن ہو گئی اور اس نے ہاتھ ملانے کی غرض سے اپنا ہاتھ آگے بڑھا یا اور بولی۔۔۔ اوکے اب تم جاؤ ۔۔۔ وہ دروازے کے اندر اور میں باہر کھڑا تھا اور میرے پیچھے پردہ لگا ہوا تھا سو کسی کے دیکھنے کا ہر گز کوئی چانس نہ تھا چنانچہ جیسے ہی اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ کی طرف بڑھایا میں نے اس کو اپنی طرف کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور جلدی سے اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیئے اور ایک زبردست ۔۔۔ اور گیلی سی کس دینے لگا ۔۔اس نے ایک جھٹکےسے خود کو مجھ سے الگ کیا اور اپنے ہونٹ کہ جن پر میرا تھوڑا سا تھوک لگا رہ گیا تھا صاف کر کے بولی ۔۔ بد تمیز ۔۔۔ اور دھڑام سے دروازہ بند کے اندر چلی گئی۔۔۔

اگلے ایک دو دن میں روٹین کے مطابق ماسی کے گھر جاتا رہا اور ارصلا کو ساتھ لیکر سکولے جاتا اور لاتا رہا ۔۔ہاں اصلا کو ساتھ لے جاتے وقت اگر مرینہ اُٹھی ہوتی تو ۔مجھ سے بڑی گرم جوشی سے ملتی ۔۔۔ لیکن وہ اس ٹائم سوئی ہوتی تو واپسی پر مجھ سے ضرور گپ شپ کرتی اس کے بر عکس ارمینہ ہمارے آنے کے ٹائم سے پہلے ہی کہیں ادھر ادھر ہو جایا کرتی تھی ۔۔۔ پتہ نہیں وہ اس قدر محتاط کیوں تھی ؟؟؟ جبکہ اس کی بڑی بہن بڑی ہی دبنگ اور کافی کھلی ڈھلی تھی ۔۔دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا ۔ لیکن میرا یہ حال تھا کہ جب تک میں ارمینہ کو دیکھ نہ لوُں مجھے سکون نہ ملتا تھا اس لئے میں شام کو بھی گاہے ان کے گھر چکر لگاتا رہتا تھا ۔۔ جہاں ارمینہ تو نہیں البتہ مرینہ سے گپ شپ ضرورہو جایا کرتی تھی بلکہ اب تو مرینہ سے بہت اچھی دوستی بھی بن گئی تھی ۔۔ لیکن اس کے باوجود اس دن کے بعد ۔۔۔ پھر کبھی اس نے بھولے سے بھی میرے اور ارمینہ کے تعلقات کے بارے میں کوئی بات نہ کی تھی-سالی بات کی بڑی پکی تھی ۔۔

ایک دن کی بات ہے کہ میں ارصلا کے ساتھ اس کے گھر پہنچا تو گرمی کی وجہ سے ہم دونوں کا پیاس سے بُرا حال تھا ۔ ہم گھر میں داخل ہوئے تو حسبِ معمول ماسی نے ہمارا استقبال کیا لیکن مرینہ کہیں دکھائی نہ دی ورنہ عام طور پر مرینہ بھی ماسی کے ساتھ ہی ہوتی تھی چونکہ اس دن گرمی کچھ ذیادہ ہی سخت تھی اس لیئے میرا خیال ہے وہ اندر کمرے میں ہو گی جبکہ ارمینہ کو حسبِ معمول کچن میں ہونا چایئے تھی ۔ ماسی تو ہمیں پیار وغیرہ کر کے باہر نکل گئی کہ اس کا گھر میں بیٹھنا ویسے بھی دشوار ہوتا تھا ۔ گرمی کے دن تھے اور مجھے بڑی سخت پیاس محسوس ہو رہی تھی اور یہی حال ارصلا کا بھی تھا چنانچہ جیسے میں نے پانی کا ذکر کیا ۔تو اس زکر کے ساتھ ہی ۔ ارصلا اور میں نے ٹھنڈا پانی پینے کے لیئے کچن کی طرف دوڑ لگا دی ۔۔۔ ارصلا چونکہ مجھ سے تھوڑا آگے کھڑا تھا سو وہ مجھ سے پہلے کچن میں پہنچ گیا اور جلدی سے گلاس اٹھا کر جو کہ کولر کے پاس ہی پڑا ہوتا تھا پانی ڈالنے لگا اس لئے جب میں کچن میں پہچا تو وہ کولر سے پانی ڈال رہا تھا سو میں اس کے پاس کھڑا ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔۔۔ اسی دوران اچانک ہی میری نظر ارمینہ پر پڑی ۔۔۔ جو ہم سے بے نیاز کوئنٹر پر جھکی غالباً آلو چھیل رہی تھی ۔ چونکہ یہ ہمارا تقریباً روز کا ہی رولا ہوتا تھا اس لیئے عام طور پر اس نے کبھی ہمارا نوٹس نہ لیا تھا اور خاص کر جب سے مرینہ ان کے گھر آئی تھی تو اس کا رویہ مجھ سے کچھ یوں ہو گیا تھا ۔۔کہ جیسے جانتے نہیں ۔۔۔ اس معاملے میں وہ آخری حد تک محتاط خاتون تھی ۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ارصلا تو کولر سے پانی ڈال رہا تھا اور میری نظر اتفاق سے ارمینہ سے ہوتی ہوئی اس کی گانڈ کی طرف چلی گی وہ کچھ اس ادا سے کائنٹر پر جھکی آلو چھیل رہی تھی کہ اس کی موٹی سے گانڈ خاصی سے زیادہ باہر کو نکلی ہوئی تھی اوپر سے غضب یہ تھا کہ اس کی قمیض بھی گانڈ والی جگہ سے ہٹی ہوئی تھی ۔۔ جس کی وجہ سے اس کی بُنڈ کے دونوں پٹ بہت ہی نمایاں نظر آ رہے تھے ۔۔۔ جس کو دیکھ کر میں ۔۔ تو ۔۔۔ پاگل سا ہو گیا ۔اس کی گانڈ کے کریک کو دیکھ کر میرے منہ میں پانی بھر آیا ۔ وہ تو مگن ہو کر اپنا کام کر رہی تھی اور غالباً اسے اس بات کا اندازہ بھی نہ تھا کہ ا س کی گانڈ پیچھے سے کیسا غضب ڈھا رہی ہے ۔۔ ارمینہ کی یہ حالت دیکھ کر بے اختیار میرا ہاتھ اس کی خوبصورت گانڈ کی طرف رینگ گیا ۔۔ لیکن ۔۔۔ اس سے پہلے میں نےکن اکھیوں سےایک نظر ارصلا پر ڈالی تو وہ زمین پر اکڑوں بیٹھا پانی پی رہا تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں غیر محسوس طریقے سے کھسکتاہوا کولر کی اس طرف ہو گیا کہ جہاں پر ارمینہ اپنی بڑی سی گانڈ نکالے آلو چھیل رہی تھی ۔۔۔ اب میں نے ایک نظر ارصلا کی طرف دیکھا تووہ تقریباً پانی پی چکا تھا اور اب دوسرا گلاس بھرنے کی تیاری کر رہا تھا ۔۔۔ سو میں اس کی طرف سے تھوڑا مطمئن ہو گیا اور پھر میں نے اپنا بائیاں ہاتھ آگے کیا ۔۔۔ اور ارصلا کی طرف دیکھتے ہوئےبڑی ہی

Comments

Popular posts from this blog

سچی کہانی۔۔ قسط نمبر 1

"*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 3

*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 4