ڈاکٹر ہما قسط 24,25


رات کو جب ہماڈیوٹی پر آنے کے لیے تیار ہونے لگی تو ۔۔۔ اس کے کانوں میں رشید کی آواز گونجھی ۔۔ وہ آج ٹائٹس نہیں پہننا چاہتی تھی۔۔۔ مگر۔۔۔ رشید کے خوف سے اس نے اپنی لائٹ گلابی رنگ کی لیکی نکال کر چھین لی۔۔۔ اور اوپر سے ایک لانگ شرٹ ۔۔۔ ہاسپٹل پہنچی تو جیسے ہی رشید نے اسکو دیکھا تو معنی خیز انداز میں مسکرادیا۔۔۔ اور ہماشر میلی سی مسکراہٹ کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔۔۔ پتہ نہیں کیوں اسے بھی اس میں مزہ آنے لگا تھا۔۔۔ رشید کی چھیڑ چھاڑ میں ۔۔۔ جب ہما اپنے آفس میں جا کر کپڑے بدل کر باہر


آئی تو آپریشن تھیٹر میں جاتے ہوئے اسکو پھر رشید ملا۔۔ دوسرے کپڑوں میں دیکھ کر وہ مسکرایا۔ ۔ جیسے اسے بتا رہا ہو کہ اب وہ پھر جا کر اسکے کپڑوں سے مزے لے گا۔۔۔ ہما نے آپریشن تھیڑ کے دروازے سے مڑ کر دیکھا تو رشید اسکے آفس میں ہی داخل ہو رہا تھا ۔۔۔ اور اس نے بھی مر کر ہما کو دیکھا اور دونوں کی نظر میں ملیں تو ہما اندر چلی گئی ۔۔۔ جیسے رشید کو سب کچھ کرنے کی اجازت دے گئی


ہو۔۔


رشید نے جا کر ہما کی لیگی اٹھائی تو وہ بہت ہی چھوٹی ہو گئی تھی سکڑ کر۔۔۔ اسکو دیکھ کر رشید کو آج کچھ زیادہ ہی مستی چڑھ گئی۔۔۔ اس نے اپنا لوڑا نکالا۔ اور اسے ہما کی لیکی پر اسکی چوت والی جگہ پر رکھ کر رگڑنے لگا۔۔ پھر اسی حصے کو اپنے لوڑے پر لپیٹ کر مٹھ مارنے لگا۔۔۔ ہما کی شرٹ کو سونگھتے ہوئے۔۔۔ پھر اسے منہ میں لے کر چوسنے لگا۔۔۔ آج اسکو کچھ زیادہ ہی جنون چڑھا ہو اتھا۔۔ ہما کی لیگی میں سے ہما کی چوت کی خوشبو کو سو لکھتے ہوئے۔۔۔ اس نے ہما کی لیگی


کی چوت والے حصے کو اپنے دانتوں سے کاٹنا شروع کر


دیا۔۔ اور اسے احساس تب ہوا جب ہما کی لیگی درمیان سے تھوڑی پھٹ گئی۔۔ اور اس میں اچھا خاصا بڑا سوراخ ہو گیا۔۔۔ رشید کو پتہ تو چل گیا۔۔ مگر اب کچھ ہو تو سکتا نہیں تھا۔۔ اس نے ہما کے کپڑوں کو واپس رکھا اور باہر آگیا۔۔۔


ہم واپس آئی اور اپنے کپڑے تبدیل کرنے لگی تو آج بھی اس نے دیکھا کہ اسکی لیگی اسکی چوت والے حصے سے بھٹی ہوئی ہے۔۔ ہما کو یہ دیکھ کر ایک جھونکا سالگا۔ سوچنے لگئی کہوہ اب کیا کرئے ۔۔۔ اور کوئی حل تو تھا نہیں۔۔۔ اس نے وہی لیگی پہن لی ۔۔ اوپر سے اپنی شرٹ پہن لی ۔۔۔ اسے پھٹی ہوئی لیکی پہن کر عجیب سا احساس ہو رہا تھا۔۔۔ نیچے اس نے گلابی رنگ کی پینٹی بھی پہنی ہوئی تھی۔۔ مگر پھر بھی اسے اپنی چوت پر اے سی کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ وہو میں تیل کے پیچھے ہی اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔ تاکہ کسی سامنے والی کی نظر اسکی رانوں کے درمیان نہ جائے ۔۔ اور اسکو اس بات کا پتہ نہ لگ سکے کہ اسکی لیکی پھٹی ہوئی ہے۔۔۔


تھوڑی دیر کے بعد رشید چائے لے کر آگیا۔۔۔ اسکے چہرے پر شرمندگی کے آثار تھے۔۔۔ اس نے اپنی نظریں جھکائی ہوئی تھیں۔۔ تھوڑا تو ڈر ہی رہا تھا کہ اس نے تو ہما کی لیگی ہی پھاڑ دی ہے ۔۔ ہما کو بھی اسے دیکھ کر غصہ آیا۔۔ وہ اسکی طرف گھور کر دیکھنے لگی۔۔۔ مگر جیسے ہی رشید کی نظر ہما سے ملی تو اس نے ایک بار پھر سے اپنی نظر جھکالی۔۔۔ ہما کو اسکی اس حرکت پر تھوڑی ہنسی آگئی ۔۔۔ مگر وہ اپنی ہنسی پر کنٹرل کر گئی ۔۔۔ رشید نے چائے ٹیبل پر


رکھی اور فورا باہر جانے لگا۔ ہما بول پڑی۔۔


ہما۔۔ رک جاؤ ر شید۔۔


رشید رک گیا۔ جی میڈم جی۔۔


ہما۔۔ تم اپنی حرکتوں سے باز نہیں آؤ گے۔۔۔ آج کتنی خاط حرکت کی ہے تم نے۔۔ کیوں کرتے ہو تم ایسا ۔۔


ہما ئیمیل کے پیچھے سے اُٹھی اور سامنے صوفے پر آکر بیٹھ گئی


رشید ۔ دو مجھے معاف کر دیں میڈم جی۔۔ بس برداشت


نہیں ہوتا نا۔۔۔


رشید کی نظریں بار بار ہما کی رانوں کی طرف جارہی تھیں


جیسے وہ درمیان میں دیکھنا چاور ہاہو ۔۔ ہما کی پھٹی ہوئی لیگی


کو۔ہما کو تھوڑی مستی سوجی تو اس نے صوفے پر بیٹھے ہوئے ہی اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا دیں۔۔ جان بوجھ کر۔۔ اور اسکی ٹانگوں کے درمیان سے اسکی پھٹی ہوئی لیکی نظر آنے لگی ۔۔۔ اس کے اندر سے ہما کی گلابی رنگ کی پینٹی بھی جھانکنے لگی ۔۔۔ جیسے ہی رشید کی نظر اس پر پڑی تو اسکے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔


ہمانے اسے اپنی رانوں کے درمیان جھانکتے ہوئے دیکھا تو


اپنی ٹانگوں کو بند کر لیا۔۔۔ بد تمیز کیا دیکھ رہے ہو اب ۔۔۔ دیکھ لیانا کہ کتنا غلط کام کیا ہے تم نے۔۔۔ اب میں گھر کیسے جاؤں گی ۔۔۔ اور کسی نے دیکھ لیا تو کیا کہوں گی کہ اسے رشید نے پھاڑا ہے۔۔۔


رشید سوری میڈم جی ۔۔۔ تھوڑا دوبارہ دکھائیں نا دیکھوں کہ زیادہ تو نہیں پھاڑ دی میں آپ کی ۔۔۔


ہما اسکی ذو معنی بات سن کر مصنوعی غصے سے بولی۔۔۔ شرم


نہیں آتی تم کو ایسی گندی باتیں کرتے ہوئے۔۔ جاؤ نکلو اب کمرے سے ۔۔۔


رشید جاتے ہوئے دروازے پر رک کر پیچھے دیکھنے لگا تو ہما


نے جان بوجھ کر اپنی ٹانگوں کو ایک بار پھر سے کھول دیا تھا


رشید کی طرف نہ دیکھتے ہوئے۔۔۔ مگر رشید تھوڑی


دیر تک اسکی چوت اور اسکی پینٹی کو ہی دیکھتا رہا۔۔۔


ہما۔ گئے نہیں ابھی تم ۔۔۔ جاؤ مجھے سوتا ہے ۔۔۔


رشید ۔۔ ہاں میڈم جی آج زمان صاحب نہیں ہیں تو آپ


اپنی نیند ہی پوری کر لیں۔۔۔


ہمانے اسے گھورا اور وہ اپنے لال دانت نکالتا ہوا باہر نکل


گیا۔۔


صبح أنه كر بما اپنے گھر واپس آگئی


انور کے ساتھ ... تھوڑی دیر کے بعد


انور اپنے آفس چلا گیا تو ہما نے نیا کر


ایک گاؤن پہن لیا۔ اسکے نیچے اس


نے صرف ایک کالے رنگ کی برا اور


پینٹی پہنی ہوئی تھی ۔ وہ اپنے کمرے میں لیٹ گئی - اور ٹی وی دیکھنے لگی .. ہما کو خود پر حیرت ہو رہی تھی کہ وہ یہ سب کچھ کیوں کر رہی ہے ۔ ڈاکٹر زمان تک تو سب ٹھیک تھا کہ وہ اسی کے سٹیٹس کا ایک فرد ہے ڈاکٹر ہے ، جوان ہے ، خوبصورت ہے اور شاندار جسم کا مالک ہے ۔ تو اگر وہ اسکے ساتھ کچھ جسمانی تعلقات رکھ بھی رہی ہے تو ایسا کوئی حرج تو نہیں ہے ۔ مگر یہ کیا کہ وہ رشید جیسے گندے انسان کو بھی کھلی چھوٹ دے رہی ہے ۔ اسے اپنے کپڑوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دے


رہی ہے ۔ انکو چھونے ، چومنے اور ان پر اپنا تھوک لگانے کی اجازت دے رہی ہے ۔ اور پھر اسکی اتنی ہمت ہو رہی ہے کہ وہ اسکو حکم دے رہا ہے کہ وہ وہی کپڑے پہنے ۔ اپنی باتوں کا وه خود بی جواب دینے لگی خود کو... کہ یہ سب کچھ وہ اپنی مرضی سے تو نہیں کر رہی نا .. یہ تو وہ اسکو بلیک میل کر کے کروا رہا ہے ۔ اسکو سب کچھ پتہ چل چکا ہے اسکے اور زمان کے ناجائز تعلقات کے بارے میں ۔۔ تو اسی لیے وہ اس پر حاوی ہو رہا ہے ۔ لیکن آج میں نے کیا کیا ۔ میں نے خود بی جان بوجھ کر اسکو اپنی پینٹی


دکھائی - ایسا اس نے تو نہیں کہا تھا نا


پھر میں نے ایسا کیوں کیا ۔۔ کیا مجھے بھی مزہ آرہا ہے ۔ وہ کمینہ ہے بھی تو ایسا نا کہ دیکھو تو سہی اتنی ہمت کہ میری لیگی بی پھاڑ کر رکھ دی اس کمینے کو موقع ملے تو وہ تو ایسے ہی میری چوت بھی پھاڑ کر رکه دے .. اپنی اس بات پر بما خود بی ہنسنے لگی .. میں یہ کیا سوچنے لگی ہوں ۔ میں بھلا کیوں اسکو کچھ کرنے دوں گی اپنے ساتھ - میں کیوں بھلا اس کو چودنے دوں گی اپنی چوت - اراده تو اس کمینے کا کچھ ایسا ہی ہے. کیسے میرے جسم کو دیکھ دیکھ کر


رال ٹپکاتا رہتا ہے ۔ ٹپکاتا ہے تو ٹپکاتا رہے ۔ مجھے کیا ۔ میں بھلا کیوں اسکی خواہش پوری کروں گی ... شکل دیکھی ہے اس نے کبھی اپنی .. کتنا تو کالا ہے ۔ اور جسم کیسا بھدا سا ہے اسکا ... موٹا ہے ڈول سا ... اتنا بڑا پیٹ ہے ۔ اور اسکا وه بهی تو ... مطلب اسکا لوڑا بھی تو اسی کی طرح کالا سیاه بی ہوگا نا گنده سا... چهی چهی چھی چھی نہ بابا نہ میں تو کبھی بھی اسکو کچھ نہ کرنے دوں اپنے ساتھ - اور ایسی ہی باتیں سوچتے ہوئے اسکی آنکھ لگ گئی -کافی دیر کے بعد ہما کی آنکھ اسکے قلیت کی بیل کی آواز سے کھلی ... بما جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھی اور اپنے گاؤن کی بیلت ٹھیک کرتی ہوئی جاکر دروازه تھوڑا سا کھولا تو سامنے رشید کهڑا پان چبا رہا تھا بما اسکو دیکھ کر حیران ره گئی ..... دروازه کھول کر بولی -


بما .... تم یہاں کیوں آئے ہو۔


رشید نے ہما کے سوال کا جواب دینے کی بجائے دروازه پورا کھولا اور اندر آگیا... بما تھوڑا گھبرا گئی - رشید


دروازه بند کرتے ہوئے بولا میڈم جی آپ کیوں گھبرا رہی ہیں ۔۔ میں ادھر سے گذر رہا تھا تو سوچا آپ سے ہی ملتا جاؤں اور پوچھ لوں کہ آپکو کوئی کام تو نہیں ہے ۔


بما .. نہیں مجھے کوئی کام نہیں ہے ۔ تم بس جاؤ یہاں سے .


بما پچھلی رات کی اسکی شرارتوں اور حرکتوں کی وجہ سے اسکے ساتھ اکیلے میں رہنے سے گھبرا رہی تھی


وہ اندر آگیا اور صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا ۔ میں تو اب نہیں جاؤں گا۔


بما گهبرا رہی تهی - رشيد تم ایسا کیوں کر رہے ہو۔ پلیز چلے جاؤ .. اگر کسی نے دیکھ لیا تو بہت برا ہو گا۔ کسی نے انور کو بتا دیا تو...


رشید میدم جی بم کونسا یہاں پر کوئی غلط کام کر رہے ہیں ۔ جو آپ ڈر رہی ہو اور انور صاحب کو تو میں خودبتا دیتا ہوں نا ۔ یہ لیں ابھی


یہ کہہ کر رشید نے اپنا موبائل نکالا


اور کوئی کال ملانے لگا. بما گھبرا گئی .. کیا کر رہے ہو ۔


رشید میں انور صاحب کو کال کر رہا ہوں نا میں خود انکو بتا دیتا ہوں کہ میں ہما میڈم کے پاس آیا ہوا ہوں ۔


بما آگے بڑھی - نہیں پلیز - کال نہیں


کرو انور کو رک جاؤ .. بما رشید کی طرف آئی اور جھک کر اس سے اسکا موبائل چھیننے لگی - نیچے جھکنے سے بما کے گاؤن کا گلا تھوڑا اور ڈھیلا ہو گیا اور اسکی چھاتیوں کے درمیان کی لکیر نظر آنے لگی ... رشید...

جاری ہے ۔

Comments

Popular posts from this blog

سچی کہانی۔۔ قسط نمبر 1

"*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 3

*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 4