ڈاکٹر ہما قسط 20,21


اسکی ٹانگوں کے بیچ میں آکر اسکی چوت پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔۔ اور اسکی چوت کو چاٹنے لگی۔۔ ہما کچھ اس انداز میں صوفے پر اپنے گھٹنوں کے بل جھکی ہوئی تھی کہ اسکی گلابی چوت زمان کی طرف تھی۔۔ زمان کی نظریں بھی ہما کی چوت کے گلابی لبوں پر جم گئیں۔۔ جن پر ابھی بھی زیب کے زبان کا گیلا پن چمک رہا تھا۔۔ ہما زیب کی چوت پر انگلی پھیرتے ہوئے اسکی چوت کو اپنی زبان کی نوک سے چاٹ رہی تھی کہ اچانک وہ اچھل پڑی اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو زمان نے آگے بڑھ کر اپنا منہ ہما کے چوت سے لگا دیا تھا


ہمانے اسے مسکرا کر دیکھا۔۔ اور اپنی ٹانگوں کو تھوڑا پھیلا دیا۔۔ اور اپنی گانڈ کو بھی باہر کو نکال دیا۔۔ زمان نے ہما کی گانڈ پر ہاتھ رکھ کر اسکی چوت کے لبوں کو اپنی زبان سے چاٹنا شروع کر دیا ۔۔ اچانک ہما کو اپنی گانڈ کے سوراخ اور چوت پر کچھ ٹھنڈا ٹھنڈا محسوس ہوا۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو زمان اسکی گانڈ کے درمیان شراب ڈال رہا تھا جو اسکی چوت پر سے بہتی ہوئی نیچے کو آرہی تھی۔۔ جسے اس نے چانا شروع کر دیا۔۔ ہما اسکی اس حرکت کو دیکھ کر مسکرانے لگی۔۔ اسے یہ سب بھی اچھا لگ رہا تھا۔۔ کہ


زمان اسکی چوت پر شراب گرا کر چاٹ رہا تھا۔۔


کچھ دیر کے بعد زمان اٹھا اور اپنا لوڑا ہما کی چوت پر رکھا اور اسے اوپر نیچے رگڑنے لگا۔۔ زمان کا لوڑا ہما کی چوت کے دانے کو رگڑ رہا تھا۔ اور ہما کی سکاریاں نکل رہی تھیں ۔۔۔ بھی مزے کے ساتھ زیب کی چوت کو چاٹنے لگی تھی۔۔۔ آخر زمان نے اپنے لوڑے کو ہما کی چوت کے سوراخ پر رکھ کر اندر دھکا مارا زمان کا آدھا لوڑا ہما کی چکنی چوت کے اندر چلا گیا۔۔ ہما کے منہ سے ایک


سکاری نکلی۔۔ جو زیب کی چوت کے اندر ہی جذب ہو گئی ۔۔۔ ساتھ ہی ہما نے پیچھے کو اپنی گانڈ کو دھکیلا ۔۔۔ اور خود سے زمان کا پورا لوڑا اپنی چوت میں لے لیا۔۔۔ اور بنا اسکے دھکوں کا انتظار کیے۔۔ خود ہی آگے پیچھے کو ہوتی ہوئی زمان سے کے لوڑے سے اپنی چوت چدوانے لگی۔۔ زمان بھی ہما کے اس انداز سے خوش تھا۔۔ کہ آج ہم خود بھی چدائی میں تعاون کر رہی ہے ۔۔ یہ شائد شراب کا اثر تھا۔۔ مگر جو بھی تھا۔۔ زمان کو ہما کی چوت سے غرض تھی نا جس میں اسکا لوڑا پورا اندر باہر ہوتے ہوئے مزے لے رہا تھا۔۔۔ زماننے زیب کی پتلی کمر کو اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور اپنے لوڑے کو اسکی چوت میں اندر باہر کرتے ہوئے اسے چودنے لگا۔۔ ہما بھی پورا پورا مزہ لیتے ہوئے آگے پیچھے کو ہو رہی تھی۔۔ خود اسکی اپنی انگلی زیب کی چوت کے اندر باہر ہو رہی تھی۔۔


دس منٹ تک ہما کو چودنے کے بعد اسکی چوت نے اپنا پانی چھوڑ دیا۔۔ زمان نے ہما کی چوت سے اپنا لوڑا نکالا۔۔ اور اسے پیچھے ہٹا کر نیچے لیٹی ہوئی زیب کے اوپر آگیا۔۔ اور اپنا


لوڑا اسکے منہ سے لگا دیا۔۔ زیب نے بنا کسی دیری کے اسکا لوڑا اپنے منہ میں لیا اور اس پر لگا ہو ا ہما کی چوت کا پانی چاہنے لگی۔۔۔ اور اسے چونے لگی۔۔ پھر زمان نے اپنا لوڑا اس سے چسوانے کے بعد اسکی چوت کے سوراخ پر رکھا۔۔ اور آہستہ آہستہ اندر کرنے لگا۔۔۔ زیب نے اپنی دونوں ٹانگیں ہوا میں اُٹھا رکھی تھیں۔۔ اور زمان اپنا لوڑا اسکی چوت میں اتار تا جارہا تھا۔۔ پاس ہی بیٹھی ہوئی ہما ان دونوں کی چدائی دیکھ رہی تھی ۔۔۔ اور اپنی چوت کو اپنی ہی انگلی سے سہلارہی تھی ۔۔۔


زیب کی چوت میں ہی زمان فارغ ہوا۔۔ کچھ دیر انھوں نے ریسٹ کیا۔۔ اور پھر سے ایک راؤنڈ شروع ہو گیا۔۔ زمان نے تسلی کے ساتھ دونوں کی جی بھر کر چدائی کی۔۔ تینوں فارغ ہو کر بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے۔۔ زیب زمان کی رانوں پر سر رکھ کر لیٹی ہوئی تھی۔۔ اور زمان کے لوڑے سے کھیلتی ہوئی۔۔ اسکو چوم رہی تھی۔۔ اور کبھی کبھی منہ میں لے کر چوس بھی لیتی تھی۔۔ اور ہما انکے قریب ہی لیٹی ہوئی تھی۔۔ اتنے میں اسکا موبائل بج اٹھا۔۔ اس نے دیکھا


تو انور کی کال تھی۔۔ ایک لمحے کے لیے تو وہ گھبرائی۔۔ اور پھر ان دونوں کو چپ رہنے کا اشارہ کر کے وہ بیڈ سے اتری اور تھوڑا دور پڑے ہوئے صوفے پر سنگی ہی بیٹھ کر فون سننے لگی۔۔


انور ہیلو کب تک واپس آرہے ہو آپ لوگ۔۔ ابھی تک فارغ نہیں ہوئے تم لوگ۔۔


ہما مسکرائی۔۔ یار میں تو فارغ ہو چکی ہوں مگر یہ زیب کا ہیدل نہیں بھر رہا ابھی تک۔۔


ہما کی اس ذیل مطلب والی بات سن کر وہ دونوں بھی بننے لگے۔۔


انور۔۔ اچھا چلو ٹھیک ہے۔۔ جیسے ہی زیب فارغ ہو آجاؤ واپس۔۔


ہما۔۔ ہاں۔ ہاں۔ آپ فکر نہیں کرو۔۔ ہم جلد ہی واپس


آرہے ہیں۔۔


فون بند کیا تو دیکھا کے ایک دو میسیج بھی آئے ہوئے تھے۔۔ ہما انکو دیکھنے لگی۔۔ ایک میسیج نے اسے چونکا دیا۔۔ وہ رشید کا میسج تھا۔۔ ہما نے اسے کھولا تو لکھا تھا۔۔ میڈم جی۔۔ خوب مزے ہو رہے ہیں ناڈاکٹر زمان صاحب کے گھر پر ۔۔۔ یہ میسج پڑھ کر ہوا تو جیسے اچھل ہی پڑی۔۔ فورا ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔۔ مگر وہاں کوئی ہوتا تو نظر آتا نا۔۔ ہما گھبراگئی تھی۔۔ اس نے اب زیب کو بھی جلدی سے چلنے کو بولا۔۔


زیب کچھ دیر اور رکنا چاہتی تھی۔۔ ایک اور راؤنڈ کے لیے ۔۔ مگر ہم نے اسکی ایک نہ چلنے دی۔۔ اور اسے جلدی سے تیار ہونے کو کہا اور خود بھی باہر کے کمرے سے اپنے کپڑے لا کر پہنے لگی۔۔ اور پھر آئینے کے سامنے خود کو ٹھیک ٹھاک کیا۔۔ اور زیب بھی تیار ہو گئی۔۔۔ زمان کے گھر پر قریب 4 گھنٹے رکنے اور چدائی کرنے کے بعد ہما اور زیب واپس روانہ ہو ئیں۔۔ ہماراستے میں بھی وہ ادھر ادھر دیکھتی آرہی تھی کہ کہیں رشید تو اسکا پیچھا نہیں کر رہا۔۔ زیب نے پوچھا بھی کہ وہ گھبرائی ہوئی کیوں ہے۔۔ مگر ہما


نے اسے ٹال دیا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔ ہمانے زیب کو اسکے ہوسٹل چھوڑا اور خود اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔۔۔۔


گھر سے کچھ فاصلے پر رک کر ہما نے کچھ سوچ کر رشید کا نمبر


ملایا۔ کال جاتی رہی۔۔ مگر اس نے کال ریسیو نہیں کی۔۔


ایسے ہی ہمانے 5 بار رشید کو کال کی مگر اس نے کال نہیں


ریسیو کی۔۔ ہما کی گھبراہٹ اور پریشانی بڑھ رہی تھی اور تھی۔۔


اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر رشید اسکی کال اٹینڈ کیوں


نہیں کر رہا۔۔ آخر وہ چاہتا کیا ہے ۔۔۔ آخر ہما نے گاڑی آگے بڑھائی اور گھر پہنچ گئی۔۔ اوپر اپنے فلیٹ پر پہنچی تو اسکے فلیٹ کا دروازہ کھلا ہو اتھا۔ وہ تھوڑا حیران ہوئی ۔۔۔ پھر اندر داخل ہوئی تو اندر کا منظر دیکھ کر اسکے پیروں کے نیچے سے تو جیسے زمین ہی نکل گئی۔۔ وہ جہاں کھڑی تھی وہیں کھڑی رہ گئی ۔۔۔ اسکار رنگ پیلا پڑ گیا۔۔ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔ اور ہاتھ میں پکڑا ہوا اسکا پرس نیچے فرش پر گر کیا ۔۔ اسکی جان ہی جیسے اسکے جسم سے نکل گئی ہوں


سامنے لاؤنج میں ہی صوفے پر انور بیٹھا ہوا تھا۔۔ اور اسکے سامنے ایک دوسرے صوفے پر ۔۔ رشید بیٹھا ہو اتھا۔۔ جسے دیکھ کر جما کی جان نکل گئی تھی ۔۔ اور وہ اسے دیکھ کر مسکرارہا تھا۔۔ ہما کو لگا کے جیسے رشید نے انور کو سب کچھ بتا دیا ہے۔۔ ہما آہستہ آہستہ اندر آئی تو رشید اسکو دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔۔ اور اسکو سلام کیا۔۔


رشید - سلام میڈم جی۔۔۔ میں ادھر سے گذر رہا تھا تو سوچا صاحب کو سلام کرتا جاؤں۔۔ صاحب بتارہے تھے


کہ آپ شاپنگ پر گئی ہوئی ہیں زیب باجی کے ساتھ ۔۔ رشید کچھ اس انداز میں یہ بات کر رہا تھا کہ جیسے ہما کو جتا رہا ہو کہ وہ سب جانتا ہے۔۔


ہمانے شرمندگی سے نظریں جھکائیں۔۔ اور انور کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔۔ ہاں۔۔ مگر تم کیوں آئے ہو۔۔


رشید بس ایسے ہی میڈم جی۔۔ کوئی کام ہو تو بتا دیں۔۔


ہما۔۔ نہیں نہیں کوئی کام نہیں ہے۔۔۔


ہم بار بار انور کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔ مگر وہ پر سکون بیٹھا


ہوا تھا۔۔ اس سے اسے تسلی ہوئی کہ رشید نے کوئی بھی ایسی ویسی بات نہیں کی ہے اسکے ساتھ میرے اور زمان کے بارے میں۔۔


انور بولا ۔۔ یار آپ آہی گئی ہو تو رشید کو کچھ ٹھنڈ اپنی پلا دولا


کے۔۔ظاہر ہے کہ ہما کو جانا ہی پڑتا تھاتا۔۔ وہ اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔۔ اور الماری میں سے شیشے کے گلاس نکالنے لگی۔۔۔ ابھی وہ فریج سے کولڈ ڈرنک نکال ہی رہی تھی کہ اسے آہٹ سنائی دی اس نے مڑ کر دیکھا تو چن کے دروازہ میں رشید کھڑا مسکرارہا تھا۔۔۔ ہما کا دل یکدم سے ڈر گیا۔۔۔ اس نے خود کو سنبھالا ۔۔ اور اپنی آواز میں تھوڑی سختی لاتی ہوئی بولی۔۔۔ یہاں کیوں آئے ہو۔۔ وہیں بیٹھو جا کر۔۔


رشید میڈم جی میں تو یہ پوچھنے آپکے پاس کچن میں آیا ہوں کہ آپ مجھے بار بار فون کیوں کر رہی تھیں


ہما۔۔ جو تم نے میسج میں بکو اس کی تھی اس کے بارے میں پوچھتا تھا تم سے۔۔ تمھیں شرم نہیں آتی کیا ایسی غلط باتیں کرتے ہوئے۔۔۔


رشید ۔۔ وہ بات لغلط تھی کیا۔۔۔ جو میں نے آپ کو میسج کیا


ہمانے اپنی نظریں چرا لیں۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا جواب دے۔۔


آخر ہمت کر کے بولی۔۔۔ ہاں غلط بات ہے تمھاری۔۔ میں


تو شاپنگ کے لیے گئی ہوئی تھی۔۔۔ میں ایسی ویسی نہیں


ہوں جیسا تم میرے بارے میں سوچ رہے ہو۔۔


رشید ٹھیک ہے میڈم جی۔۔۔ میں جا کر انور صاحب کو


بتا دیتا ہوں کہ آپ کہاں تھیں زیب کے ساتھ ۔۔ یہ کہہ


کر رشید مز اواپس جانے کے لیے۔۔


ہما ڈر گئی کہ اب یہ جا کر انور کو سب کچھ بتادے گا۔۔۔ وہ


بولی۔۔ رشید ۔۔ رکو۔۔


رشید رک گیا۔۔ اور مسکر اکر ہما کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔ جی


تو میڈم جی بتائیں پھر میری خبر غلط تھی یا ٹھیک۔۔


جاری ہے ۔۔

Comments

Popular posts from this blog

سچی کہانی۔۔ قسط نمبر 1

"*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 3

*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 4