امی آنٹی اور ان کا یار پارٹ 1



ہائے تو کیسے ہیں آپ سب میں آپ سب کا دوست ساحل راجپوت زندگی بہت کچھ دکھاتی ہے کھبی دن کے اجالے میں کھبی راتوں کے اندھیروں میں سب ہی دیکھنے سننے کرنے کا موقع ملتا کچھ تو حادثہ سمجھ کر بھول جاتے ہیں کچھ میری طرح جرت کر کے سچ کو اپنا لیتے ہیں

اور سچ بتانے میں حرج ہی کیا ہے اور وہ بھی آج سوشل میڈیا کے دور میں جہاں کوئی کسی کو جانتا تو نہیں پر پیار ضرور کرتے ہیں جیسے میں آپ کو اور شاید آپ مجھ سے  بس اس لیے دل کی باتیں کہ دیتا ہوں

بات شروع کرتے ہیں شگفتہ آنٹی سے آنٹی امی کی بہت پرانی سہیلیوں میں سے ایک ہیں دو چار سال پہلے ہی اپنی فیملی کے ساتھ فیصل آباد شفٹ ہو گئی لیکن اب بھی امی سے رابطے میں ہیں کافی باتیں ہوتی دونوں میں لیکن جب کی بات بتانے لگا ہوں تب ہمارے محلے میں ہی تھی اور کافی سال یہاں ہی رہی عمر میں امی کے جتنی ہی ہیں ان کا شوہر ایک اچھا کاروباری آدمی ہے  اور آنٹی خود ایک خوبصورت جوان بھرے جسم والی خاتون ہیں جن کا قد تقریبا ساڑھے پانچ فٹ ہوگا باہر کو نکلی ہوئی گانڈ اور موٹے تازے ممے اور گندمی رنگ کی تھی یہ بات بالکل غلط نہیں ہوگی وہ سٹیج ڈانسر میگا جیسی تھی کیونکہ انکل کافی پیسے والے تھے تو اس وجہ سے ان کے بناوٹ بڑی اچھی رہتی تھی اور ڈریسنگ بھی کمال کرتی تھی لیکن امی کی وہ اس وجہ سے سہیلی تھی کیونکہ ایک تو امی کا ان کے گھر جانا بہت تھا اور دوسرا ان کے شوہر کا ابو کے ساتھ اچھا تعلق تھا تو اس وجہ سے ہمارے گھروں میں آنا جانا لگا رہتا تھا لیکن بات یہ ہے کہ جب عورتیں اکٹھی ہو جائیں تو پھر کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے جو نہیں ہونا چاہیے تھا عام لوگوں کی زندگی کی طرح پھر ایسا ہونے لگا کہ امی اور آنٹی دونوں ہی شاپنگ کرنے جاتی دونوں ہی کسی بھی کام کے لیے جاتی تو اکٹھی جاتی جس سے دوسرے محلے کی عورتیں اکثر سوچا کرتی تھی کہ ان کی دوستی بڑی گہری ہے انٹی میں ایک خاص بات تھی کہ وہ جس مرد کو آنکھ بھر کے دیکھ لیتی اسے پہچان لیتی تو یہ کیا چاہتا ہے ایسا ہی کچھ ہوا کہ ہمارے محلے میں ایک گھر ایا جو کافی پرسنلٹی والے لوگ تھے اور اس سے بڑھ کر یہ بات کہ دو مہینوں میں وہ گھر بھی دوسرے گھروں کی طرح نارمل ہو گیا اور سب سے ملنے لگے ان کی فیملی میں کچھ ہی لوگ تھے وہ ایک فیملی تھی بچے تھے تین ان کے لیکن اس مرد کا ایک بھائی تھا جس کی بیوی کچھ ہی دیر پہلے فوت ہوئی تھی فوت ہونے کے بعد ہی وہ اسلام اباد سے یہاں لاہور شفٹ ہوئے تھے اور انہوں نے یہاں پر ایک لوہے کا کاروبار شروع کیا ہوا تھا لیکن جب وہ کبھی بھی آنٹی کو یا امی کو دیکھتا تو آنٹی امی سے کہتی شازو بندہ بڑا ٹائٹ ہے بیچارہ جوانی میں ہی رنڈوا ہو گیا 

امی۔اب جو قسمت میں تھا وہی ہونا 

آنٹی۔ہاں یہ تو ہے اکیلا انسان پھر پریشان ہی رہتا ہے ایسے ہی مہینہ اور گزر گیا ایک دن آنٹی ہمارے گھر آئی امی نہا کر کپڑے تبدیل کر کے بیٹھی تھی آنٹی نے امی سے کہا خیر ہے آج 

امی۔جی خیر ہے میں ویسے نہیں کپڑے بدل سکتی 

آنٹی ۔نہیں نہیں بدلو کیوں نہیں میں نے سوچا شاید کپڑے اتروا کر بدلے ہیں

امی۔ شگفتہ اب کہا روز روز اترے گے اب تو بس جب موقع ملتا تب ہی 

آنٹی ۔ تو بنا لیتے ہیں موقع اس میں کیا 

امی۔نہیں یار کل میری بہن آرہی ہے وہ کہ رہی تھی بچوں کو بھی ساتھ لے کر جاؤ گی گھوم پھر لے گے پھر سہی 

آنٹی تو سارے بچے جا رہے ہیں تم بھی جاؤ گی 

امی۔نہیں میں نے کہا جانا لڑکیوں کو ہی بھیجنا ساحل کو اپنے پاس رکھو گی اکیلی پھر رات کو نہیں رہ سکتی

آنٹی ۔کیوں نہیں میں ہوں نا اسے بھی بھیج دو 

امی۔خیر تو ہے نا اِرادے ٹھیک نہیں لگ رہے اور ساتھ ہی آنٹی کی گانڈ پر ہاتھ پھیر کر بولی کہی رگڑا شگڑا تو نہیں لگوانے کا موڈ 

آنٹی۔وہ تو بن ہی جاتا ہے پھر تو اگر ساتھ ہو تو 

امی۔میں تو ہر وقت تیرے ساتھ ہوں جان ہو میری تم 

آنٹی۔تو بھیج دو پھر ساحل کو بھی ساتھ 

امی۔بیوقوف نا بنو وہ ہوگا تو اور آسانی ہوگی اس بچارے نے تو سونا ہی ہے گھر ہم چکر لگا لے گے جہاں تو کہے تیری آگ ٹھنڈی کروا دوگی 

آنٹی۔میری چھوڑ تیری بھی ہو جائے گی 

امی۔اور وہ کیسے جی 

آنٹی ۔وہ مجھ پر چھوڑ دے بس اتنا بتا مجھے نا تو نہیں کرے گی نا 

امی۔بات کیا کچھ بتا تو 

آنٹی ۔پہلے جو میں نے کہا وہ بول جب بچے چلے جائیں گے تو سب بتا دوں گی بس اتنا بتا مجھے نا نہیں کرنی جو کہو کرے گی نا 

امی۔پہلے تیرے ہر کام آئی ہو اب بھی آؤ گی پر کوئی کام اچھا ہی ہو مروا نا دینا 

آنٹی ۔اہو پہلے کھبی مری ہے تو بس تیری مروائی ہی ہے اور اس سے تیرا کام بھی ہوجاتا مجھے بھی مزا مل جاتا

امی۔یار کھل کے بتا نا کیا بات ہے 

آنٹی۔نہیں میں اب چلتی ہوں بس یہی پکا کرنا تھا تو مجھے نا نہیں مرے گی جس دن بچے چلے جائیں گے پھر بتاؤ گی اس سے پہلے نہیں چاہے تم گانڈ بھی مروا لو 

امی۔ہاہاہاہا بیشرم مار لے تو اگر ماری جاتی تو اچھا ٹھیک ہے پر مجھے پریشان کر دیا تم نے بھلا بتا ہی دیتی 

آنٹی ۔نہیں میری جان کہا نا کوئی خطرے والی بات نہیں اچھا اب میں چلتی ہوں اور امی سے مل کر آنٹی چلی گئی نورمل دن گزرا خالہ آئی ایک دن رہی اور میری بہنوں کو ساتھ لے کر جانے کی تیاری کرنے لگی رات تیاری کی اور اگلے دن سب چلے گئے میں اور امی اور میرا چھوٹا  بھائی جو اس وقت پانچ سال کا تھا وہی گھر تھے ناشتہ کیا پھر امی نے گھر کی صفائی کی فری ہو کر امی نے مجھے کہا جاؤ آنٹی شگفتہ کو بلاؤ میں گیا تو پتا چلا گھر نہیں دونوں میاں بیوی امی نے فون کیا آنٹی کو کہا ہو آنٹی نے بتایا میں ہوٹل آئی ہوں میرے شوہر تو کام کی وجہ سے ملتان گئے ہیں

امی۔تو تم اکیلی کیا کرنے گئی 

آنٹی ۔نہیں آکر بتاتی ہوں اکیلی نہیں ہوں 

امی۔ہمممم پارٹیاں چل رہی ہے 

آنٹی۔اچھا اب آکر بتاتی ہوں یار اور فون بند کردیا امی بھی نورمل کام کاج میں لگ گئی میں tv  دیکھنے لگا

امی نے کھانے کی تیاری کی اور پھر بازار چلی گئی مجھے گھر چھوڑ کر شام ہو گئی تھی کہ آنٹی گھر آئی میں اکیلا ہی تھا آنٹی بڑی تھکی تھکی لگ رہی تھی امی کا پوچھا میں نے بتایا بازار گئی ہیں انٹی نے کہا پانی پلاؤ مجھے پانی دیا اور پھر tv دیکھنے لگا آنٹی نے امی کو فون کیا تو امی بھی تھوڑی دیر بعد ہی آ گئی دونوں بیٹھ گئی میں نے امی کو بھی پانی دیا پانی پینے کے بعد امی اور آنٹی دونوں کمرے سے باہر برآمدے میں بیٹھ گئی میں اندر ہی پر ان کی باتیں صاف سنائی دے رہی تھی امی نے پوچھا کہا تھی 

آنٹی ۔کہا جانا تیرے پاس ہی تھی 

امی۔ہمم لگتا سروس کروا کر آئی ہے

آنٹی۔ہاں جو تم کروا کے آئی ہو 

امی۔قسم سے کچھ نہیں ہوا تیری قسم

آنٹی ۔چل گشتی جھوٹ نا بول 

امی۔مجھ پر یقین نہیں کہا نا کچھ نہیں ہوا بس شاپنگ کی اور آگئی

آنٹی۔مجھے یہ بتا بھلا جو گھر سے لے گیا پیسے خرچ کیئے اسے چھوڑتا ہے بھلا 

امی۔بات تو ٹھیک ہے پر بیچارے کا ٹائم ہی خراب تھا ابھی شاپنگ کر کے پہنچے ہی تھے جہاں اس نے کمرا لیا 10 منٹ گزارے جپھی ڈالی چوما چاٹا بس جیسے میں نے اس کی شلوار اتاری بس دو یا تین چوپے لگائے ہی تھے کہ اس کو فون آگیا اس کے ابو کی طبیعت بہت خراب ہو گئی پھر بچارے کو چوپے کے ساتھ فارغ کیا اور واپس نکل آئے وہ تو منتیں کرنے لگا معافی مانگی کہ یار ایمرجنسی ہے نہیں تو آپ کو خوش کرتا میں نے بھی کہا کوئی نہیں پھر کھبی سہی آپ چلے اب تم تو جانتی ہو میرے چوپے سے کوئی کتنا ٹائم لگا سکتا 

آنٹی ۔ہاں ہاں لن تو ایسے کھاتی ہو جیسے بندا مارنے کی نیت ہو تماری

امی۔تم کہا تھا صبح سے تم بتاؤ نا کہا رنگ رلیاں منا رہی تھی

آنٹی۔میں بھی وہی کرنے گئی تھی جو تم کر کے آئی بس میں پورا کام کر آئی پر تیری بڑی یاد آئی

امی۔کیوں خیر ہے 

آنٹی ۔بندا بڑا زہریلا تھا پسلیاں ہلا دی میری اوپر سے تین شاٹ لگا کہ کہتا پیچھے سے بھی کروا لو میں نے تو ہاتھ جوڑے پھر کھبی 

امی۔ہاہاہا تجھ میں یہی بری بات ہے اپنا کام نکلوا کر دوسروں کو ایسے ہی چھوڑ دیتی 

آنٹی ۔اچھا تیرا خیال ہے بنڈ پھڑوا لیتی اب 

امی۔ہاہاہا نہیں پھٹتی پہلے ہی کھلی ہے اس کا کیا پھٹنا 

آنٹی۔ شازو طاقت ہی بہت تھی اس میں اتنا زور لگاتا تھا دل تک محسوس ہوتا تھا

امی۔بس کر اب اتنی بھی تعریفیں نا کر بندا تھا یا جن 

آنٹی ۔دیکھنے میں تو شریف سیدھا سادہ بندا پر اندر سے جن ہی ہے تیری بھی حالت خراب کر دیتا

امی۔کیا میں نہیں جانتی تیرے اس ٹھوکو کو مجھ سے کون چھپا 

آنٹی ۔نیا ہے پر تیرا عاشق ہے تجھے جانتا بڑی اچھی طرح میں نے بس تیرا نام ہی لیا تو اس کی دھڑکن تیز ہونے لگی تھی 

امی۔کون ہے گشتئے کوئی ایسا نا ہو جو بدنام کر دے آپ تو مرے گی مجھے بھی مروائے گی 

آنٹی۔تو فکر نا کر جانو تو نہیں مرتی بس تیری مرواؤ گی ضرور بڑا بے صبری سے کہ رہا تھا تمہاری مارنے کے لیے

امی۔یار دیکھو ہم دونوں کی فیملیز ہے خیال کرنا کہی غلط نا ہو جائے

آنٹی۔مجھے بچی سمجھتی ہو میں نہیں جانتی کہ کون کیا کر سکتا پریشان نا ہو پورے اعتماد والا ہے دو مہینے سے بات چل رہی میری بس تجھے نہیں بتایا تھا کہ ذرا کام ہو جائے

امی۔اچھا چل اب تو تجھے ٹھنڈ پڑ گئی نا اب بتا کون ہے جس نے میری شہزادی کی پسلیاں ہلا دی

جاری ہے ۔۔۔۔


پیج کو لائک شیئر فالو کریں

Comments

Popular posts from this blog

سچی کہانی۔۔ قسط نمبر 1

کوفت بھی مزہ بھی