استانی جی قسط نمبر 1


ہیلو دوستو کیسے ہو آپ ؟؟ ۔۔ کہانی لکھنے سے قبل  

  میں آپ سے ایک بڑے مزے کی بات شئیر کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ کراۓ کے گھر میں رہنے کے بھی اپنے ہی مزے ہیں ۔۔۔ وہ یوں کہ ایک گھر سے جب آپ دوسرے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں تو نئئ جگہ پر نئے لوگ ملتے ہیں نئئ دوستیاں بنتی ہیں ۔۔۔۔ اور ۔۔ نئئ۔۔۔۔ نئئ ۔۔۔۔۔ (امید ہے کہ آپ لوگ میری بات سمجھ گئے ہوں گے ) دوستو جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میں نے اپنی ساری زند گی ان پھدیوں کے پیچھے ہی برباد کی ہے اور آپ لوگ یہ بات بھی خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مجھے میچور لیڈیز بڑی پسند ہیں بلکہ میں ان پر مرتا ہوں ۔۔۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ میچور لیڈیز سیکس کی ماسٹر ہوتی ہیں نخرہ نہیں کرتیں اور کھل کر مزہ لیتی اور کھل کر مزہ دیتی ہیں ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ میری زندگی میں زیادہ تر آنٹیاں ہی آئیں ہیں ۔۔۔ بلکہ بائ چانس اوائیل عمر سے ہی میرا پالا ان عورتوں سے پڑا تھا ۔۔۔ یعنی کہ میری سیکس لائف کی شروعات ہی اس قسم کی عورتوں کو چودنے سے ہوئ تھی ۔ اور اُس عمر میں یہ عورتیں مجھے اس قدر زیادہ تعداد میں ملیں کہ ۔۔۔۔ پھر سیکس کے لیے میچور عورتیں ہی میرا ٹیسٹ بن گئ ہیں ۔۔۔ آج جو سٹوری میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں یہ بھی انہی دنوں کی ہے --- جب آتش تو ابھی لڑکپن کی سرحدیں عبور کر رہا تھا لیکن آتش کا لن اس سے پہلے ہی یہ ساری سرحدیں عبور کر کے فُل جوان ہو چکا تھا – اور پیار دو پیار لو کا کھیل شروع کر چکا تھا 

  دوستو یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب ہمارے مالک مکان نے سال سے قبل ہی مکان کا کرایہ بڑھا دیا تھا اور اتنا بڑھایا ۔۔۔ کہ مجبوراً ہمیں وہ مکان خالی کرنا پڑا ۔۔ اور بڑے ہی شارٹ نوٹس پر ہمیں ایک نیا گھر کراۓ پر لینا پڑا اور ہم پہلی سے پہلے وہاں شفٹ ہو گۓ ۔۔ کچھ دن تو مکان کی سیٹنگ میں لگ گئے ۔۔ جب سارا کام سیٹ ہو گیا تو پھر ایک دن میں اپنے پرانے محلے میں دوستوں سے ملنے گیا (جو کہ زیادہ دُور نہ تھا ) محلے میں داخل ہوتے ہی مجھے انجم مل گیا جو کہ میری طرح ہی ایک ٹھرکی روح تھا چانچہ اس نے باتوں باتوں میں مجھ ے بتایا کہ اس کے پاس "وہی وہانوی" کا مشہور ناول " استانی جی " آیا ہے جو بڑا زبردست اور سیکس سے بھر پور ہے اور وہ اس کو پڑھ کر اب تک تین چار دفعہ مُٹھ مار چکا ہے اس کی یہ بات سن کر میں نے بھی اس سے ناول پڑھنے کے لیئے مانگا تو اس نے پہلے تو صاف انکار کر دیا ۔ لیکن پھر کافی منت ترلوں کے بعد وہ بمشکل اس بات پر راضی ہوا کہ میں اسے شام تک ہر حال واپس کر دوں گا کیونکہ وہ جس لائیبرئیری والے سے لایا تھا اسے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ بڑا سخت اور حرامی بندہ تھا کیونکہ جب بھی ہم اس کو ناول واپس کرنے جایا کرتے تھے تو وہ ناول کا ایک ایک صفحہ چیک کیا کرتا تھا اور اگر کسی نے ناول کے بیچ میں سے کوئ صفحہ پھاڑا ہوتا تھا تو وہ ہم سے پوری کتاب کے پیسے چارج کرتا تھا اور بے عزتی الگ سے کرتا تھا اور ہم اس سے اس لئے بھی ڈرتے تھے کہ اس کا بھائ تھانے کوتوالی میں حوالدار لگا ہوا تھا جس کی وہ ہم کو ہر وقت تڑیاں لگاتا رہتا تھا ہاں تو انجم نے مجھے بتایا کہ یار چونکہ یہ ناول اس لایئبریری میں ابھی آیا ہے اس لئے اس حرامی نے کہا تھا کہ اسے ہر حال میں آج شام تک واپس کرنا ہو گا پھر کہنے لگا اور یار تُو تو جانتا ہی ہے کہ وہ اس معا ملے میں کس قدر مادر چود واقعہ ہوا ہے-

      اب میرے ساتھ پرابلم یہ تھی کہ میں نے شام کو ہر صورت ٹیوشن پڑھنے جانا ہوتا تھا اور بات ایسی تھی کہ میں ٹیوشن سے چھٹی کرنے کا سوچ بھی سکتا تھا کیونکہ میڈم زیبا عرف استانی جی ( جی ہاں محلے میں وہ اسی نام سے مشہور تھیں ) چھٹی کرنے پر بڑا مارتی تھی ویسے بھی وہ اتنی سخت تھیں کہ میں تو کیا پورے محلے کے لڑکے ، لڑکیاں جوبھی ان سے ٹیوشن پڑھتے تھے اور جو نہیں بھی پڑھتے تھے وہ سب نہ صرف ان سے ڈرتے تھے بلکہ ہم جیسوں کی تو ان کا نام سے ہی جان جایا کرتی تھی چھوٹوں کے ساتھ ساتھ محلے کے بڑے بھی استانی جی کا بڑا احترام کرتے تھے اور ان کی کوئ بات نہ ٹالتے تھے ۔ اس لئے محلے کا کوئ بھی لڑکا میڈم زیبا کی ٹیوشن سے چاہ کر بھی چھٹی نہ کر سکتا تھا ۔

        دوستو اب میں آپ کو میڈم زیبا کے بارے میں کچھ بتاتا ہوں جس وقت کی یہ بات اس وقت وہ کوئ 45 /50 کے پیٹے میں ہوں گی – ان کا جسم تھوڑا موٹا اور اس کے ساتھ ان کا تھوڑا سا پیٹ بھی بڑھا ہوا تھا ۔ لیکن قد لمبا ہونے کی وجہ سے ان کے پیٹ کا اتنا پتہ نہیں چلتا تھا ۔۔ اس کے ساتھ چھاتیاں ان کی کافی بڑی بڑی تھیں گال گورے اور سُرخی مائل ، ہونٹ البتہ باریک اور پتلے پتلے تھے جو ان کے مزاج کی سختی کا پتہ دیتے تھے مجموعی طور پر اس عمر میں بھی میڈم زیبا عرف استانی جی اس عمر میں بھی بڑی خوبصورت اور گریس فُل تھیں۔ مجموعی طور پر میڈم زیبا بڑی اچھی عورت تھی پر ۔۔۔۔۔ جب معاملہ پڑھائ کا آتا تھا تو پتہ نہیں کیوں ان کو جن چڑھ جاتا تھا اور وہ بہت زیادہ سختی کرتی تھیں اور اس وقت ان کا غصہ دیکھنے والا ہوتا تھا لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ وہی شفیق عورت ہے جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی بڑے پیار سے پڑھائ رہی تھی ان کے خاوند کی باڑہ مارکیٹ راولپنڈی میں کپڑے کی دکان تھی وہ صبع دس بجے کام پر جاتا اور پھر رات گئے ہی واپس آیا کرتا تھا ان کا بڑا بیٹا بھی باپ کے ساتھ دکان پر ہی ہوتا تھا جبکہ دوسرا بیٹا ایبٹ آباد پبلک سکول ۔۔ ایبٹ آباد میں پڑھتا تھا اور وہیں ہوسٹل میں رہتا تھا اور بس ویک اینڈ پر ہی گھر آتا تھا –

میڈم زیبا کا گھرانا ایک پڑھا لکھا ، علم دوست اور خوشحال گھرانا تھا ۔۔۔ ان کے ساتھ مسلہ یہ تھا کہ وہ سارا دن گھر پر اکیلے پڑے بور ہوتی تھیں اس لئے اپنی بوریت کو دور کرنے کے لئے وہ بچوں کو فری ٹیوشن پڑھاتی تھیں اور اس مقصد کے لئے وہ خود محلے کے گھروں میں جا کر بچوں کو اپنے پاس لانے کے لئے کہتی تھی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کو پڑھانے کا بڑا شوق تھا اسی لئے وہ ٹیوشن کی مد بچوں سے میں کوئ پائ پیسہ نہ لیتی تھیں تبھی تو محلے کے سارے بچے ان سے پڑھنے آتے تھے ۔۔اور وہ پڑھاتی بھی بہت اچھا تھیں اور جیسا کہ پہلے بتایا ہے کہ پڑھائ کے معاملے میں وہ کسی رُو رعایت کی قائل نہ تھیں اور جہاں ضرورت پڑتی وہ خوب پھینٹی لگاتی تھیں اس سلسلے میں محلے والوں نے ان کو فری ہینڈ دے رکھا تھا ۔۔۔ ویسے تو وہ ہمیں اکیلے ہی پڑھایا کرتی تھیں لیکن ان کی ایک دوست جو ان کی قریبی رشتے دار بھی تھیں امتحانوں کے دنوں میں بچوں کے ٹیسٹ وغیرہ لینے میں ان کی ہیلپ کرتی رہتی تھیں یا میڈم بزی ہوں تو وہ ہم کو پڑھا دیتی تھیں ورنہ عام طور پر وہ چپ چاپ میڈم زیبا کو پڑھاتے ہوۓ دیکھتی رہتی تھیں میڈم زیبا کی طرح یہ بھی بہت پڑھی لکھی تھی اور ان کا گھر ان کے ساتھ ہی واقعہ تھا میڈم زیبا کی طرح یہ بھی کافی خوشحال خاتون تھیں اور چونکہ گھر میں پڑے پڑے بور ہوتیں تھیں اس لئے ان کا زیادہ ٹائم میڈم کے گھر ہی گزارتی تھیں ۔ نام ان کا ندا تھا اور وہ ایک بیوہ خاتون تھیں اور انہوں نے اپنے خاوند کے مرنے کے بعد دوسری شادی نہ کی تھی بلکہ اپنے اکلوتے بیٹے پر ہی ساری توجہ دی تھی جو کافی پڑھ لکھ تو گیا لیکن نوکری کی بجاۓ وہ اپنی دکان پر بیٹھتا تھا اور سہ بی صبع جاتا اور رات کو ہی واپس آتا تھا میڈم زیبا کے بر عکس ندا میم بڑی ہی سویٹ اور ہمدرد خاتون تھیں وہ عمر میں زیبا میڈم سے کافی کم تھیں میرا خیال ہے وہ اس وقت 35،40 کی ہوں گی لیکن ایک دوسرے کے ساتھ اُن کا رویہ ایسا تھا کہ جیسے وہ ہم عمر ہوں العرض دونوں میں بڑی ہی اچھی انڈرسٹینڈنگ تھی دونوں ہی بڑی پیاری اور رشتے دار ہونے کے ساتھ ساتھ بڑی گہری دوست بھی تھیں فارغ ٹائم میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی باتیں کرتی رہیتں بس ایک فرق یہ تھا کہ میڈم زیبا کے برعکس ندا میم بڑی ہی فرینڈلی اور نرم مزاج کی عورت تھیں ہم سب نے اگر کوئ بات کہنی ہو تو ان ہی سے کہتے تھے ۔۔۔ کیونکہ ان کے علاوہ میڈم زیبا کے سامنے بات کرنے کی کسی اور میں ہمت نہ تھی ۔۔۔

ہم جب نئے نئے اس محلے میں آۓ تھے تو ایک دن ندا اور میڈم زیبا ہمیں ویل کم کرنے کے لیئے ہمارے گھر آئیں تھیں ۔۔۔۔ اور پھر باتوں باتوں میں انہوں نے امی کو بتایا تھا کہ وہ محلے کے بچوں کو مفت ٹیوشن پڑھاتی ہیں ۔۔۔ مفت کا نام سُن کر امی نے ان سے مجھے بھی پڑھانے کی درخواست کر دی تھی جو انہوں نے بخوشی منظور کر لی تھی لیکن ساتھ شرط یہ رکھی تھی کہ وہ مجھے اپنے طریقے سے پڑھائیں گی ان کی بات سمجھ کر امی نے ا ن کو اجازت دے دی اور کہا کہ جو مرضی ہے کریں میرے بیٹے کو بس لائق بنا دیں اور یوں شفٹنگ کے ساتھ ہی میری ٹیوشن بھی لگ گئ تھی اور میں نے وہاں آنا جانا شروع کر دیا ۔۔۔ ان دنوں چونکہ میں بڑا آوارہ پھرا کرتا تھا اور امی میری اس حرکت سے بڑی تنگ تھیں اس لئے انہوں نے میڈموں کو خاص تاکید کی تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو جاۓ مجھے چھٹی ہر گز نہ کرنے دی جاۓ ۔۔۔۔ اور امی کی یہ بات میڈم زیبا نے خاص طور پر اپنے پلو سے باندھ لی تھی اور مجھے خاص طور پر اپنے زیرِ سایہ اپنی کڑی نگرانی میں رکھا ہوا تھا ۔ اسی لیئے میں کسی بھی حال میں ٹیوشن سے چھٹی نہ کر سکتا تھا ۔۔۔ چنانچہ میں نے وہی وہانوی کا ناول گھر میں پڑھنا شروع کر دیا جو کہ واقعہ ہی بڑا زبردست اور سیکسی تھا لیکن ٹیوشن کا ٹائم ہو گیا تھا اور میرا ناول چھوڑنے کو قطعاً دل نہ کر رہا تھا اور دوسری طرف مسلہ یہ بھی تھا کہ مجھے یہ ناول شام کو ہر حال میں واپس کرنا تھا چنانچہ کافی سوچ و بچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ ناول کو اپنے ساتھ ٹیوشن پر لے جاتا ہوں اور وہاں موقع دیکھ کر ناول کا بقایا حصہ پڑھ لوں گا یہ سوچ کر میں نے اپنے بستے میں وہ ناول رکھا اور ٹیوشن پڑھنے چلا گیا ۔۔۔ یہاں میں یہ بتا دوں کہ میڈم سے ٹیوشن پڑھنے والے ہم کوئ 10 / 12 سٹوڈنٹ تھے جن میں دو چار لڑکیاں بھی شامل تھیں ۔۔ جانچہ وہاں جا کر میں نے جلدی سے اپنا ہوم ورک ختم کر کے میڈم کو چیک بھی کروا دیا ۔۔ اور چونکہ مجھ پتہ تھا کہ میڈم کسی بھی حال میں مجھے قبل از وقت چھٹی نہ دے گی اس لیئے میں چُپ چاپ کمرے کے ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا اور جب دیکھا کہ میڈم دوسرے بچوں کے ساتھ بزی ہو گئیں ہیں تو میں نے موقع غنیمت جان کر پلان کے مطابق اپنی انگریزی کی کتاب نکالی اور اس کو کھول لیا پھر ا دھر ادھر دیکھ کر چپکے سے اس کے اندر استانی جی والا ناول رکھا اور ایک دفعہ پھر چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔۔ سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف نظر آۓ سو ہر طرف سے مطمئن ہو کرمیں نے ناول پڑھنا شروع کر دیا ۔۔۔ دوستو اگر آپ لوگوں نے وہی وہانوی کی یہ بُک پڑھی ہے تو آپ اچھی طرح سے جانتے ہوں گے کہ یہ ان کا سب سے زیادہ ہاٹ (اس زمانے کے لحاظ سے) ،سیکسی اورجزبات کو برانگیخت کرنے والا ناول تھا اوپر سے اس وقت میری بالی عمر ۔۔۔ یہ سونے پر سہاگہ والا کام تھا مجھے اچھی طرح سے یاد ہے اُس زمانے میں اگر ہم کہیں سے عورت کی اندامِ نہانی پستان یا شرم گاہ ، اور مرد کا عضو تناسل جیسا لفظ لکھا پڑھ لیتے یا سُن لیتے تھے تو اس لفظ کے سنتے ہی ہمارے سارے جسم میں سنسنی سی دوڑ جایا کرتی تھی اور لن ایک دم سر اٹھا لیا کرتا تھا ۔۔ اور اس پر متزاد یہ کہ ۔۔۔۔۔ کہ میرا مزاج لڑکپن سے ہی عاشقانہ اور بڑا سیسکی تھا ۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میں بڑا ڈوب کر ناول پڑھ رہا تھا اور اس کی سطر سطر سے لطف اُٹھا رہا تھا اور ۔۔۔۔ ظاہر ہے لن صاحب ۔۔۔۔ تو ظاہر ہے کہ وہ بھی شلوار میں تنا ہوا مست ہو کر لہرا رہا تھا اور اوپر سے میرا بڑا سا لن شلوار میں تنا کچھ زیادہ ہی دکھائ دے رہا تھا لیکن فکر کی کوئ بات نہ تھی کہ بندہ آلتی پالتی مارے (کراس بنا کر ) بیٹھا تھا اور لن کے اوپر کتاب دھری تھی لیکن سچی بات تو یہ تھی کہ میں کتاب پڑھنے میں اتنا محو تھا کہ مجھے اس بات کا احساس ہی نہ تھا کہ میں کہاں ہوں ؟؟ اور میرا لن کیا کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

        احساس تو تب ہوا جب اچانک میڈم زیبا نے مجھے کان سے پکڑا اور اسے اس قدر زور سے مروڑا ۔۔۔۔ کہ مجھے نانی یاد آ گئ اور میں ہڑبڑا کر اوپر دیکھنے لگا اور زیبا میڈم پر نظر پڑتے ہی میرے فرشتے کوچ کر گئے ۔۔ پھر میڈم نے مجھے کان سے پکڑ ے پکڑے اوپر کو اُٹھایا ۔۔ اسی دوران جب میڈ م زیبا مجھے کان سے پکڑ کر اوپر کو اٹھا رہی تھیں تو عین اسی وقت میڈم ندا نے میرے ہاتھ سے انگریزی کی کتاب کہ جس کے اندر وہ سیکسی ناول بھی تھا چھین لی اور پھر جیسے ہی انہوں نے کتاب کو کھولا تو اس میں تو ان کی نظر سیکسی ناول پر پڑ گئ اور وہ اسے دیکھنے لگیں ۔۔۔۔ اسی وقت میڈم زیبا نے وہ ناول ہاتھ میں پکڑا اور ایک نظر دیکھ کر ہی سمجھ گئیں اور پھر وہ میری طرف مُڑی اور بڑے ہی غصے میں بولیں ۔۔۔ اچھا تو یہ سبق پڑھا جا رہا تھا ۔۔۔ پھر انہوں نے اپنا منہ ندا میڈم کی طرف کیا اور بولی میں بھی کہوں یہ لڑکا اتنا محو ہو کر اپنا سبق تو ہرگز نہیں پڑھ سکتا

Comments

Popular posts from this blog

سچی کہانی۔۔ قسط نمبر 1

"*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 3

*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 4