ڈاکٹر ہما قسط 15,16
کی چوت کی خوشبو سونگھ چکا ہے۔۔ اور اسکی شلوار سے اپنی مٹھ بھی ماری ہے۔۔ ہما نے جب رشید کو پان چباتے ہوئے دیکھا تو ایک لمحے کے لیے اسے خیال آیا کہ کہیں یہ اسکے پان کا نشان تو نہیں ہے۔۔ ہو بھی سکتا ہے کہ اس کمینے نے اندر جا کر میرے کپڑوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہو۔۔ ہما کی نظروں میں خود بخود ہی اسکے لیے غصہ آگیا۔۔ مگر وہ اسے کچھ نہ بولی۔۔ آخر کہتی بھی کیا۔۔ کیونکہ اسے خود یقین نہیں تھا۔۔
رات کے 2 بجے تو سب طرف سکون ہی سکون ہو گیا۔۔ رشید بھی حسب معمول کہیں پڑ کر سو چکا تھا۔۔ مگر ڈاکٹر ہما، زمان اور زیب جاگ رہے تھے۔۔ زمان نے ہما کا ہاتھ پکڑا اور آج پھر سیکنڈ فلور کی طرف لے جانے لگا۔۔ ہمانے کوئی اعتراض نہیں کیا اور مسکراتی ہوئی اسکے ساتھ چل پڑی۔۔ لفٹ کے اندر جاتے ہی زمان نے ہما کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔۔ ہما کسمسائی۔۔ تھوڑا صبر تو کرونا۔۔ میں کہیں بھاگی تو نہیں جارہی نا۔۔ تمھارے ساتھ ہی جارہی ہوں نا۔۔ مگر زمان کہاں اسے چھوڑنے والا تھا۔۔ اتنی سی دیر کے لیے
بھی اسکو چومتا رہا۔۔
اندر کمرے میں جاتے ہی اس نے ایک بار پھر سے ہما کو اپنی
بانہوں میں لیا اور اسکی کمر کو سہلاتے ہوئے اسکی گانڈ کو
دبانے لگا۔۔ پھر اس نے ہما کی شرٹ کو پکڑ کر اوپر کو
اُٹھاتے ہوئے اسے اتار دیا۔ ہما کا اوپری جسم ننگا ہو گیا۔۔
اسکے ممے آدھے اسکی برا میں سے چھلک رہے تھے۔۔ جیسے
ہی زمان کی نظر ان پر پڑی تو وہ نیچے جھک کر اسکی چھاتیوں
اور انکے درمیان کی لکیر کو چومنے لگا۔۔ ہمانے بھی اسکا سراپنے سینے پر دبا لیا۔۔ اور لذت سے آنکھیں بند کر لیں۔۔ زمان نے ہما کی برا کے ایک کپ کو نیچے کھینچا اور اسکا ایک مماننگا کر لیا۔۔ اور اسکے گلابی نپل کو منہ میں لے کر چوسنے لگا۔۔ پھر اپنے دانتوں کے بیچ میں لیا اور انکو آہستہ آہستہ کاٹنے لگا۔۔ ہما کا مزے سے برا حال ہو رہا تھا۔۔ کچھ ہی دیر کے بعد ہمانے بھی اپنا ایک بازو زمان کی گردن کے پیچھے ڈالا اور دوسرا ہاتھ نیچے لے جاکر اسکے لوڑے کو پکڑ لیا۔۔ اور اسکی پینٹ کے اوپر سے ہی اسکو سہلانے لگی۔۔ جب اسکی تسلی نہیں ہوئی تو اس نے زمان کی پینٹ کی بیلٹ کھولی
اور اسکی پینٹ کو نیچے سرکا دیا۔۔ اور اپنا ہاتھ اسکے انڈرویئر کے اندر ڈال کر اسکے لوڑے کو پکڑ کر باہر کھینچ نکالا۔۔ اور اپنی مٹھی میں لے کر اسکے اکڑے ہوئے لوڑے کو مسلنے لگی۔۔
زمان نے ہما کے مموں پر سے اپنا منہ ہٹایا۔۔ اور ایک بار پھر ہما کے ہونٹوں کو چومنے لگا۔۔ پھر اسکے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے نیچے کو بٹھانے لگا۔۔ ہما اسکا مطلب سمجھ رہی تھی۔۔ وہ بھی بنا مزاحمت کیسے نیچے بیٹھ گئی۔۔ اب زمان کا
اکڑا ہو النڈ ہما کے چہرے کے سامنے لہرا رہا تھا۔۔ ہمانے مسکر اگر زمان کی آنکھوں میں دیکھا اور اسکے گورے چٹے لوڑے کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔ اور اپنے ہونٹ آگے لے جا کر اسکے ٹوپے کو چوم لیا۔۔ پھر اپنی زبان باہر نکال کر اسے چاٹنے لگی۔۔ ہمانے زمان کے لوڑے کی ٹوپی کو چاٹنے کے بعد اسے نیچے سے اوپر تک اپنی زبان سے چاٹنا شروع کر دیا۔۔ اسکے لوڑے کو اپنے تھوک سے گیلا کرنے لگی۔۔ کبھی اسے منہ کے اندر لیتی اور اپنا سر آگے پیچھے کو کرتی
ہوئی اسکا لوڑا اپنے منہ میں اندر باہر کرنے لگتی۔۔ اسکےحلق اور منہ سے اسکا گاڑھا گاڑھا تھوک نکل نکل کر اسکے لوڑے پر لگ رہا تھا۔۔ اور ہما کی مستی بھی بڑھتی جارہی تھی ۔۔ وہ بار بار اسکے لوڑے کو اپنے منہ میں لیتی اور اسے چوستی۔۔ کبھی کبھی زمان دھکا لگاتا تو اسکالوڑا ہما کے حلق سے بھی ٹکراتا۔۔ تھوڑی ہی دیر میں دونوں اپنے اپنے لباس سے بے نیاز ہو کر چدائی میں مصروف ہو گئے۔۔ آج پھر ہما کو بے حد مزہ آیا تھا۔۔
ہما کو چودنے کے بعد زمان نے کپڑے پہنے اور کمرے سے
نکل کر نیچے آگیا۔۔ کچھ دیر تک آرام کرنے کے بعد ہمانے بھی اُٹھ کر اپنے کپڑے پہنے اور اپنا حلیہ درست کر کے باہر نکل آئی۔۔ جیسے ہی وہ لفٹ کی طرف بڑھی تو اسے برامدے کے آخر میں رشید کھڑا نظر آیا۔۔ جیسے ہی ہم کی نظر اس پر پڑی تو وہ ٹھٹک گئی۔۔ گھبر اگئی۔۔ اسکے چہرے کا رنگ ہی جیسے اُڑ گیا۔۔ اور دور کھڑ ارشید ہما کو دیکھ کر اپنے پہلے پہلے دانت نکال کر مسکر اتار ہا۔۔ ہما نے اپنی ہمت اکٹھی کی اور جلدی سے لفٹ میں داخل ہو کر نیچے اتر آئی ۔۔ اسکا دل بڑی بری طرح سے دھڑک رہا تھا ایک انجانے
خوف ہے۔۔
زیب نے ڈاکٹر ہما کی اڑی اڑی رنگت اور گھبرایا ہوا چہرہ
دیکھا تو فورا اس سے پوچھنے لگی۔۔
زیب۔۔ کیا ہو اڈا کٹر ہما۔۔ آپ اتنی گھبرائی ہوئی کیوں
ہیں۔۔
ہما۔۔ نہیں نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔زیب مسکرائی۔۔ کہیں ڈاکٹر زمان نے کچھ زیادہ ہی زور سے گھے تو نہیں مار دیئے۔۔
اسکی اس بات پر ہما مسکرائی اور اسکے بازو پر ایک ہلکی سی چیپت ماری۔۔ بڑی بے شرم ہو تم نا۔۔
زیب مسکرا کر ہما کی گانڈ کو سہلاتی ہوئی بولی۔۔ یہ بھی ٹھیک کہی آپ نے ۔۔ ڈاکٹر زمان سے چدوا کر آپ خود آ رہی ہو اور بے شرم میں ہو گئی ۔۔ اچھا انصاف ہے جی آپ
کا۔۔
اسکے اس انداز سے بات کرنے پر ہماہنے لگی۔۔ اسے رشید والی بات بھولنے لگی۔۔ اور وہ نارمل ہونے لگی
زیب۔۔ ڈاکٹر ہما۔۔ ویسے میرے پاس بھی ایک بات ہے آپکو بتانے والی۔۔
ہما۔۔ ہاں ہاں بتاؤ جلدی۔۔
زیب تھوڑا جھجکنے کی اداکاری کرتی ہوئی ۔۔ وہ آج صبح میں نے بھی کر لیا۔۔
ہما خوش ہوتی ہوئی ۔۔ واؤ۔۔ زبر دست۔۔ اپنے منگیتر کے ساتھ۔۔۔
زیب۔۔ نہیں۔۔ کسی اور کے ساتھ۔۔
ہما۔۔ جلدی بتاؤ نا کس کے ساتھ کیا ہے تم نے۔۔
زیب۔۔ آپ ناراض تو نہیں ہو نگی نا۔۔
ہما حیرانگی ہے۔۔ بھلا میں کیوں ناراض ہونے لگی۔۔ جلدی بتاؤ کون ہے وہ لکی جس نے تمھاری لی ہے۔۔
زیب۔۔ وہ بھی وہی ہے جس نے آپ کی لی ہے ڈاکٹر ہما۔۔
ہمانے ایک لمحے کے لیے سوچا۔۔ او و و و و و و و و و و۔۔۔ واوووووووووو۔۔۔۔ یعنی کہ زمان کے ساتھ زبردست۔۔۔۔۔۔
زیب۔۔ جی ڈاکٹر ہما۔۔ ڈاکٹر زمان کے ساتھ ۔۔ آپ ناراض نہیں ہو ئیں کیا۔۔
ہما اسے اپنے بانہوں میں بھرتی ہوئی بولی۔۔ ارے میں بھلا کیوں ناراض ہونے لگی۔۔ مزے کرنے پر تو سب کا ہی حق
ہے نا۔۔ جیسے تم مجھے کہتی ہوتی ہو ۔۔
یہ کہتے ہوئے ہما نے زیب کے ہونٹوں کو چوم لیا۔۔ زیب نے بھی ہما کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔۔ اور اسکو چومنے لگی
چند لمحوں کے بعد ہمانے اسے پیچھے ہٹایا۔۔ اور بولی۔۔ چلو
اب مجھے بتاؤ کیسے ہوا یہ سب اور کہاں۔۔زیب نے ہما کو ساری بات تفصیل سے بتادی۔۔
ہما۔۔ تو تم اسکے گھر پر گئی تھی اسکے ساتھ۔۔
زیب نے ہاں میں سر ہلایا۔۔
ہما کو ایک بار پھر سے رشید کا خیال آیا۔۔ ہاں باہر ہی ٹھیک ہے ویسے۔۔ یہاں روز روز کرنے سے کسی کو پتہ بھی تو چل سکتا ہے نا۔۔
زیب۔۔ ڈاکٹر ہما۔۔ آپ چلو گی ڈاکٹر زمان کے گھر پر۔۔
ہما۔۔ سوچوں گی یار ۔۔
زیب نے ہما کے نپل پر چٹکی گائی۔۔ چوت میں تو ابھی بھی آپکے لے کھجلی ہو رہی ہو گی اور نخرے دیکھو ذرا آپ۔۔
ہما اس بات پر ہنسنے لگی۔۔ اور دونوں ایکبار پھر ایک
دوسرے کی بانہوں میں سما گئیں۔۔ اتنے میں زمان اندر داخل ہوا۔۔ اور دونوں کو ایکدوسری کی بانہوں میں دیکھ کر مسکرانے لگا۔۔ دروازہ بند کر کے انکی طرف بڑھا۔۔ دونوں الگ ہو چکی تھیں۔۔ زمان نے دونوں کے درمیان صوفے پر اپنے لیے جگہ بنائی اور انکے بیچ میں بیٹھ گیا۔۔ اور اپنے بازو دونوں طرف پھیلا کر دونوں کو اپنے ساتھ چپکا لیا۔۔ نہ ہمانے کوئی مزاحمت کی اور نہ ہی زیب نے۔۔
زمان نے اپنے ہونٹ ہما کی طرف کیے اور اسکے ہونٹوں کو
چوم لیا۔ ۔ ہما بھی اسکا ساتھ دینے لگی۔۔ اور دونوں ہی ایکدوسرے کو کس کرنے لگے ۔۔۔ زیب دونوں کو دیکھ رہی تھی۔۔ اور اسکا ہاتھ زمان کی ران کو سہلا رہا تھا۔۔۔ کچھ دیر تک ہما کو کس کرنے کے بعد زمان نے اپنا منہ اس سے ہٹایا اور اب زیب کی طرف متوجہ ہو گیا۔۔ اور اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ کر اسے چومنے لگا۔۔ ہما نے اپنا ہاتھ بڑھا کر زیب کے ممے پر رکھ دیا۔۔ اور اسے آہستہ آہستہ دبانے لگی۔۔ اسکی نظریں بار بار دروازے کی طرف جارہی تھیں۔۔ کہ کوئی آنہ جائے۔۔
زمان نے زیب کی یونیفارم کی شرٹ کے بٹن کھولے۔۔ اور اپنا ہاتھ اندر ڈال کر اسکے ممے کو سہلانے لگا۔۔ زیب کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔۔ ہما بھی زمان کے ساتھ چپکی ہوئی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔۔ اسکا ہاتھ اب زمان کی پینٹ کے اوپر سے ہی اسکے لوڑے پر تھا۔۔ جو اکڑا ہوا تھا اور وہ اسے سہلانے لگی۔۔ زیب نے بھی اپنا ہاتھ زمان کے لوڑے پر رکھا اور اسکی زپ کھول کر اسکا لنڈ باہر نکال لیا۔۔ زمان کا لوڑا ننگا ہوتے ہی ہمانے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔۔ اور ہاتھ کو اوپر نیچے کرتے ہوئے اسکو سہلانے
لگی۔۔ زمان نے اپنا ہاتھ ہما کے سر کے پیچھے رکھا اور اسکا سر نیچے کو کھینچ لیا۔۔ ہما نے بنا کوئی مزاحمت کیسے اپنا منہ نیچے لے جا کر زمان کے لوڑے کو چوم لیا۔۔ اور اسکے ٹوپ پر زبان پھیر نے لگی۔۔ اتنے میں زمان نے زیب کا چہرہ بھی اپنے لوڑے پر ہی جھکا دیا۔۔ اس نے بھی اپنا ہا تھ زمان کی ران پر رکھا اور اسکے لوڑے کے نچلے حصے کو اپنی زبان سے چاٹنے لگی۔۔ نیچے سے اوپر تک۔۔۔ اور اوپر سے نیچے تک۔۔ ہمانے زمان کے لوڑے کی ٹوپی کو چومتے ہوئے
اسے اپنے منہ میں لیا اور چوسنے لگی۔۔ پھر اسے اپنے منہ
جاری ہے ۔۔
Comments
Post a Comment