ڈاکٹر ہما قسط 13,14


چلاتے ہوئے اسکی چوت کو چاٹنا شروع کر دیا۔۔ کبھی اپنی زبان کو اسکی چوت کے اندر لے جاتا۔۔ اور اندر سے چاٹنے لگتا۔۔ اور کبھی اسکی چوت کے دانے کو اپنی زبان کی نوک سے سہلانے لگتا۔۔ زیب کا لذت کے مارے براحال ہو رہا تھا۔۔ وہ زمان کے سر کو اپنی چوت پر دبارہی تھی۔۔ اسکے بالوں کو کھینچ رہی تھی ۔۔ اور اپنی ٹانگوں کو اسکے پیچھے لپیٹ رہی تھی۔۔ اسکے منہ سے سکاریاں نکل رہی تھیں۔۔۔


زمان کھڑا ہوا۔۔ اور اپنی پینٹ کھولنے لگا۔۔ پینٹ کو اپنے


جسم سے نیچے سرکانے کے بعد اپنا انڈرویئر بھی اتار دیا۔۔ اسکالو ڑا زیب کے سامنے لہرانے لگا۔۔ زیب فورا ہی اُٹھ کر بیٹھ گئی۔۔ بنا اسکے لنڈ کو چھوئے اسکی ٹوپی کو چوما۔۔ اور پھر اپنا منہ کھول دیا۔۔ زمان نے آہستہ سے اپنا لنڈ اسکے منہ کے اندر رکھ دیا۔۔ زیب نے اسکی ٹوپی کے نچلے حصے پر اپنی زبان پھیرنی شروع کر دی۔۔ زبان کی نوک سے لنڈ کے نچلے حصے کو سہلانے لگی۔۔ زمان نے بھی آہستہ آہستہ اپنا لوڑازیب کے منہ کے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔۔ خود کو آگے پیچھے کرتے ہوئے۔۔ زیب نے اپنے ہونٹوں کو


اسکے لوڑے کے گرد بند کر لیا اور اسکے لنڈ کو چوسنے لگی۔۔ اپنے منہ کو آگے پیچھے کرتی ہوئی۔۔ اسکا دوسرا ہاتھ زمان کے ٹٹوں کو سہلانے لگا۔۔ ان سے کھیلنے لگا۔۔ زمان نے اپنا ہاتھ زیب کے سر پر رکھا اور اپنا لوڑا اسکے منہ کے اندر باہر کرنے لگا۔۔ لنڈ کی ٹوپی زیب کے حلق سے جا کر مکراتی۔۔


چند منٹ تک زیب کو اپنا لوڑا چسوانے کے بعد زمان نے


اسے صوفے پر ہی سیدھا کیا۔۔ اور اسکی ٹانگوں کو پھیلا کراپنے لوڑے کو اسکی چوت پر رگڑنے لگا۔ اوپر نیچے کو گھنے لگا۔۔ اسکی چوت کے دانے کو سہلانے لگا۔۔ زیب کے تھوک سے زمان کا لوڑا گیلا ہو رہا تھا۔۔ اب اسکی چوت کا پانی بھی اسکے لوڑے کو گیلا کرنے لگا۔۔


زیب۔۔ ڈال دو اندراب پلیز ۔۔ اور نہیں تڑپاؤ۔۔۔


زمان مسکرایا۔ ۔ اور اپنے لوڑے پر دباؤ بڑھاتے ہوئے اپنے لوڑے کی ٹوپی کو اسکی چوت کے اندر سر کا دیا۔۔


زیب کے منہ سے ایک سرکاری نکل گئی۔۔ اب زمان نے بنار کے اپنا لوڑا اسکے چوت کے اندر پورے کا پورا اتار دیا۔۔ دونوں کے بال ایکدوسرے سے بیچ ہونے لگے ۔۔ زمان نے اپنا لوڑا اب زیب کی چوت میں اندر باہر کرتے ہوئے اسے چود نا شروع کر دیا۔۔ زیب بھی اپنی ٹانگیں اٹھائے اس سے چدوار ہی تھی۔۔ اسکے منہ سے آہ۔۔ آہ او و و و و و کی آوازیں نکل رہی تھیں۔۔۔ زمان کا موٹا لوڑا جڑ تک زیب کی چوت کے اندر باہر ہو رہا تھا۔۔ زمان نے زیب کی ٹانگوں کو ہوا میں اٹھا کر دھنا دھن اسے


چود نا شروع کر دیا۔۔ کچھ دیر کے بعد اسے صوفے پر ہی


گھوڑی بنایا۔۔ اور پیچھے سے اپنا لوڑا اسکی چوت کے سوراخ


پر رکھا۔۔ اور اسکی گانڈ کو پکڑ کر اپنا لنڈ اسکی چوت کے اندر


ڈال دیا۔۔ زیب نے ایک لمبی آ000000 کے ساتھ اسکا پورا


لوڑا اپنی چوت میں لے لیا۔۔ زمان نے اب اسکی کمر کو اپنے


دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر پیچھے سے گھسے مارنے لگا۔۔ ایک


ہی دن میں دو نئی چوتیں پا کر زمان کا لوڑا پا گل ہو رہا تھا۔۔۔


کبھی زمان اسکی کمر کو چھوڑ کر اپنے ہاتھ آگے لے جا کر اسکے


مموں کو پکڑ کر دھکے مارنے لگتا۔۔ قریب 15 منٹ تکزمان اسکی چدائی کر تا رہا۔۔ اس دوران زیب کی چوت نے دوبار پانی چھوڑ دیا۔۔ اور آخر کار زمان کے لنڈ نے بھی اپنا پانی زیب کی چوت میں نکال دیا۔۔ دونوں صوفے پر ایکدوسرے کی بانہوں میں لیٹ گئے۔۔


زمان اسکے نپل سے کھیلتے ہوئے بولا۔۔ تم بھی کنواری نہیں ہو۔۔؟؟؟ وہ نرسز کے بارے میں ٹھیک ہی کہتے ہیں نا پھر کہ نرس کنواری نہیں ہوتی۔۔


زیب مسکرائی۔۔ کیوں۔۔ آجکل تو آپکی لیڈی ڈاکٹر ز بھی کنواری نہیں ہو تیں جناب۔۔


زمان مسکرایا۔۔ ہاں یہ تو ہے۔۔


زیب۔۔ ویسے زمان صاحب ۔۔ آج کے دور میں تو کنواری ۔۔ سیل پیک چوت تو بس قسمت والوں کو ہی ملتی ہے۔۔


دونوں مسکرانے لگے ۔۔ تھوڑی دیر ریسٹ کرنے کے بعد


زمان نے ایک بار پھر زیب کو چودا اور پھر وہ اسے ہوسٹل چھوڑ آیا۔


ہاسپٹل جانے کے لئے آج تو ہما سپیشل تیار ہو رہی تھی۔۔ اس نے ایک خوبصورت سا شلوار قمیض نکال کر پہنا۔۔


جس کا گلا بھی تھوڑا گہر ا ہی تھا۔۔ اور بنا جھکے ہی اسکی چھاتیوں


کی درمیانی لکیر نظر آتی تھی۔۔ اور جھکنے پر تو اسکے مموں کا


کچھ حصہ بھی آسانی کی دیکھا جا سکتا تھا۔۔ نیچے سے اس نے


ٹائٹ سابرینڈ ڈیر اپنا تھا۔۔ ہاف کپ۔۔ جسکی لائٹنگاسکی پیلی شرٹ کے اوپر سے صاف دکھ رہی تھی۔۔ اور صاف پتہ چلتا تھا کہ اسکی برانے اسکے آدھے مموں کو ڈھانپا ہوا ہے۔۔ روٹین سے زیادہ اس نے میک اپ بھی کیا تھا ۔۔ اور آج تو ہما قیامت ہی لگ رہی تھی۔۔ اسکے ہونٹوں کی سرخی دیکھ کر کسی کا بھی دل انکو چومنے کے لیے مچلنے سے نہیں رہ سکتا تھا۔۔ تیار ہو کر خود کو آئینے میں دیکھا تو ہما مسکرادی۔۔ اور خود سے ہی بولی ۔۔ ہما ڈار لنگ۔۔ آج تو تم چدنے سے نہیں بچ سکتی۔۔ اور ہم خود کو نسا بچنا چاہتی تھی ۔ اب وہ جس راہ پر چل نکلی تھی وہ اسکو انجوائے کرنے


لگی تھی۔۔


رات کو جب انور نے ہما کو ہاسپٹل میں ڈراپ کیا تو ہما کے ذہن میں ایسے ہی خیال آیا کہ اسکا شوہر خود اسے ایک دوسرے مرد کے ساتھ سیکس کرنے کے لیے چھوڑ کر جا رہا تھا۔۔ ایک لمحے کے لیے ہما کو تھوڑی شرمندگی محسوس ہوئی اور خود کو غلط پایا۔۔ لیکن پھر اسے خیال آیا کہ انور بھی تو ذرا سا موقع ملنے پر یہی سب کچھ کرنے والا ہے نا۔۔ تو پھر میں ایسا کیوں نا کروں ۔۔ یہ خیال آتے ہی اس نے اپنی


شرمندگی کو جھٹک کر دور کیا اور پھر ہاسپٹل کے اندر چلی


گئی۔۔


زیب آچکی ہوئی تھی۔۔ جیسے ہی اس نے ہما کو دیکھا تو اپنے


ہونٹ سکیڑ کر سیٹی بجائی۔۔ جسے سن کر ہما شر ماگئی ۔۔


زیب۔۔ ڈاکٹر ہما۔۔ آج تو لگتا ہے کہ مکمل تیاری کر کے


آئی ہوئی ہیں ڈاکٹر زمان کو پورے پورے مزے دینے کے


۔۔ میر ا تو دل کر رہا ہے کہ ان سے پہلے میں خود آپکے ان


رسیلے ہونٹوں کا رس چوس لوں۔۔


ہما اسکے خطرناک ارادوں کو دیکھ کر فورا وہاں سے کھسک گئی ۔۔ اور اپنے کمرے میں آگئی ۔۔ ڈاکٹر زمان شاید ابھی نہیں آیا تھا۔۔ وہ اپنے آفس میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی کہ رشید صفائی کرنے کے لیے آگیا۔۔ رشید بھی اس ہاسپٹل کا ایک کریکٹر تھا۔۔ 40-35 سال کا ہٹا کٹا مر د تھا۔۔ در میانه قد ۔ لیکن مضبوط بھاری بھر کم جسم ۔ کالا سیاہ رنگ۔۔ ایک کان میں چاندی کی بالی پہنی ہوئی تھی۔۔ پان


اور سگریٹ اسکی عادت تھی۔۔۔ موٹے کالے ہونٹ۔۔ اور سیاہ چہرہ۔۔ بہت ہی بدصورت آدمی تھا یہ رشید ۔۔ جیسا اسکا حلیہ تھا ویسی ہی اسکی نوکری تھی۔۔ ہاسپٹل میں کلینز کی نوکری کرتا تھا۔ یعنی جمعدار ۔۔ سرکاری جاب بھی تھی یہاں نائٹ پر پارٹ ٹائم ڈیوٹی کرتا تھا۔۔ سرکاری ہسپتالوں کا یہ نچلا عملہ تو بس شکاری ہی ہوتا ہے۔۔ جیسے ہی کوئی خوبصورت لڑکی نظر آئی اسکے ارد گرد منڈلانے لگتے ہیں اور اکثر اوقات تو یہ لوگ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اپنا شکار قابو کرنے میں ۔۔ رشید بھی ایسی ہی چیز تھا۔۔ بہت ہی


ٹھر کی اور ہوس سے بھرا ہوا۔۔ کسی بھی لڑکی کو تاڑنے


سے باز نہیں رہتا تھا۔۔ چاہے وہ کوئی نرس ہو یا کوئی لیڈی


ڈاکٹر ۔۔ اور ڈاکٹر ہما تو اس کی پسندیدہ لڑکی تھی۔۔ وہ ہمیشہ


ہی اسکی خوبصورتی پر اپنی لاڈ ٹیکا تا رہتا تھا۔۔ ہما کو بھی اس


بات کا احساس تھا۔۔ اسی لیے وہ اسکو نا پسند کرتی تھی۔۔


اسے دیکھتے ہی اسکے ماتھے پر بل پڑ جاتے تھے ۔۔ کیونکہ


اسکی نظریں اسکے جسم کو ناچتی رہتی تھیں۔۔ اسی وجہ سے ہما


اس سے نفرت کرتی تھی۔۔اب بھی کمرے میں صفائی کرنے آیا تو ہما کو دیکھنے لگا۔۔ اسے بھی احساس ہوا کہ آج ہماہر روز سے کچھ زیادہ ہی خوبصورت لگ رہی ہے۔۔ اسکی نظریں بار بار ہما کی تنگی ہو رہی ہوئی گوری گوری پنڈلیوں پر جارہی تھیں۔۔ صفائی کرتے ہوئے وہ رہ نہیں پایا اور بول ہی پڑا۔۔ میڈم جی۔۔ آج تو آپ بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔


ہمانے چونک کر اسکی طرف دیکھا۔۔ اور ناگواری سے بولی ۔۔ تم کو اس سے کیا مطلب ؟؟؟ تم اپنے کام سے کام


رکھو۔۔


رشید ۔۔ وہ میڈم جی میں تو ویسے ہی کہہ رہا تھا۔۔۔ جو بچ بات ہے میں نے کہہ دی بس۔۔


ہما۔۔ اپنی اوقات میں رہا کرو۔۔ سمجھے۔۔ اور آئندہ میں تمھارے منہ سے ایسی بات نہ سنوں


رشید چپ کر گیا۔۔ اور اپنا کام کرنے لگا۔۔ مگر اسکی


ہوسناک ٹھر کی نظریں کہاں باز آنے والی تھیں۔۔ وہ ابھی بھی بار بار ہما کے جسم کو ہی تاڑ رہی تھی۔۔ آخر اس کا کام


مکمل ہوا اور وہ کمرے سے نکل گیا۔۔ تھوڑی دیر میں ہما کو


ایک


سینئر ڈاکٹر کے ساتھ آپریشن تھیٹر جانا پڑ گیا۔۔ اس


نے اپنے آفس میں اپنے کپڑے اتارے اور انکو کھونٹی پر


لڑکا کر آپریشن تھیٹر کا لباس پہن لیا اور اندر چلی گئی۔۔ رشید


نے بھی ہما کو آپریشن تھیٹڑ جاتے ہوئے دیکھا تو ماحول


ساز گار دیکھ کر وہ ہما کے آفس میں کھسک آیا۔۔ وہاں اسے


ہما کا لباس نظر آیا۔۔ وہ فورا آگے بڑھا۔۔ اور اسے کھونٹیپر سے اتار لیا۔۔ اسے اپنے ہاتھوں میں لے کر انکی خوشبو سونگھنے لگا۔۔ ہما کے لباس کی خوشبو کو سونگھتے ہی رشید کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔۔ بہت ہی پیاری اور مست خوشبو آرہی تھی۔۔ ہما کے جسم کی خوشبو بھی اس میں تھی اور اسکے پر فیوم کی بھی۔۔


رشید نے ہما کی شلوار کو پکڑا اور اسکی چوت والے حصے کو اپنی ناک سے لگا کر سونگھنے لگا۔۔ وہاں پر تو صرف ہما کی چوت کی خوشبو تھی۔۔ بھینی بھینی۔۔ مست کر دینے والی


۔۔ جتنا وہ سونگھتا جاتا اتنی ہی اسکی ہوس بڑھتی جاتی ۔۔ اسکا لوڑا بھی اکڑنے لگا تھا۔۔ اس نے اپنا لوڑا باہر نکالا اور ہما کی شلوار کو اپنے کالے لوڑے پر لپیٹ کر اسے رگڑنے لگا۔۔ ملائم تم شلوار کی رگڑائی سے اسے بے حد مزہ آرہا تھا۔۔ لوڑے پر سے کپڑا پھلتا جا رہا تھا۔۔۔ اور رشید دوسرے ہاتھ سے ہما کی قمیض کو سونگھ رہا تھا۔۔ اسے احساس تھا کہ اگر اسکا پانی ڈاکٹر ہما کے کپڑوں پر لگ گیا تو اسکے لیے اچھا نہیں ہو گا۔۔ آخر اس نے خود پر قابو پایا اور پھر ہما کے کپڑے واپس لٹکا کر کمرے سے باہر نکل گیا۔۔ ہما واپس آئی


اور آکر اپنے کپڑے پہننے لگی تو اسے احساس ہوا کہ اسکے


کپڑوں پر کافی سلوٹیں پڑی ہوئی ہیں۔۔ ہما کو کچھ سمجھ نہیں آئی۔۔ وہ اپنے کپڑوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔۔ اپنی شلوار پر ایک جگہ اسکو ایک چھوٹا سا سرخ سرخ نشان نظر آیا۔۔ وہ حیران ہوئی اور اسے دیکھنے لگی کہ یہ کس چیز کا نشان ہو سکتا ہے۔۔ کوئی بلڈ ہے یا کچھ اور ۔۔ جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو اس نے خاموشی سے اپنے کپڑے پہنے اور باہر آگئی۔۔ باہر آئی تو رشید پھر اسکو دیکھ رہا تھا۔۔ اسکا لوڑا یہ سوچ کر ہی ٹائٹ ہونے لگا کہ ابھی کچھ دیر پہلے وہ ڈاکٹر ہما

جاری ہے ۔۔

Comments

Popular posts from this blog

سچی کہانی۔۔ قسط نمبر 1

"*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 3

*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 4