سوتیلا باپ قسط 1،2

 

 یہ کہانی ہے ممبئی میں رہنے والی ماں بیٹی کہ 

 ماں کا نام ہے رشم، عمر 38 سال، بھرا ہوا جسم، گوری - چٹٹي 

میں پڑنے والی، عمر **، چھاتیوں کے thاور اس کی بیٹی كاويا، 12

ابھار اب ابھرنے شروع ہی ہوئے ہیں، پر اس کے لمبے نپل دور 

 سے ہی د کھائی دے جاتے ہیں 

كاويا جیسی ہی اسکول سے گھر آئی، اس کی ماں رشم نے اسے 

 .اپنے پاس بٹھا لیا

ویسے تو ایسے مل کر بیٹھنا ماں بیٹ ی کا روز کا کام تھا پر آج شاید 

کچھ خاص ب ات تھی، کیوک اپنی ماں رشم کو كاويا نے اتنا پریشان 

 .کبھی نہیں دیکھا تھا 

اپنے والد کو پانچ سال پہلے ایک ح ادثہمیں کھو دینے کے بعد اس 

نے اپنی ماں کو کبھی خوش نہیں دیکھا تھا، وہ ہمیشہ گم - سم 

سی رہتی تھی، پاپا کے بدلے انہیں اسی کمپنی میں آفس 

كور ڈنےٹر کہ جاب مل گئی تھی جس کی وجہ سے ان کے گھر کا 

خرچ جیسے -تیسے چل رہا تھا، وہ گھر کا بھی سارا کام کرتی اوراس کی دیکھ بھال کرتی، کھانا ک ھاتی اور سو جاتی .. بس یہی 

 .معمول تھا اس کی ماں کہ 

پر گزشتہ کچھ دنوں سے انمے کافی تبدیلی آئے تھے، وہ تھوڑا 

سج دھج کر آفس جانے لگی تھ ی، نغمے بھی گنگناتي رہتی 

تھی، ہنسنے بھی لگی تھی اور یہ سارے تبدیلی كاويا کو کافی 

 .اچھے لگ رہے تھے 

كاويا کے اسکول سے آنے کے بعد دون وں ماں بیٹی قیامت ایک 

 ... دوسرے سے گپپے مارتی 

پر آج پھر سے اپنی ماں کو پریشان دیکھ کر كاويا کے من میں ڈر سا 

 .بیٹھ گیا کہ کہی کوئی پرابلم تو نہیں ہے 

ویسے پرابلم دور کر نے کہ اس کی خود کہ کوئی عمر نہیں ہے، 

میں پڑنے والی كاويابھال اپنی ماں کہ پریشانیوں کو thصرف 12

 .کس طرح دور کرے گی 

 '' !! كاويا: " کیا ہوا مم ؟؟ آپ اتنی پریشان کیوں ہو 

 '' رشم: "كاويا، وو .. .. مجھے تجھ ایک ضروری بات کرنی تھی

 "كاويا: "ہاں مم بولو نہرشم تھوڑی دیر تک چپ رہی اور پھر ایک دم سے بولی: "میں 

 '' شادی کر رہی ہ 

رشم کہ بات سن کر تھوڑی دیر تک تو كاويا کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ 

 کیا کرے 

 .. اس کی ماں کی شادی کر رہی ہے، اس عمر میں 

کہ عمر ویسے تو زیادہ نہیں ہوتی پر ان کی ایک جوان بیٹی 38

 .. ہے، ایسا کیسے کر سکتی ہے وہ 

پر پھر اس نے اپنی ماں کے نظریہ سے سوچا، ابھی تو ان کے 

س امنے پوری زندگی پڑی ہے، وہ خود ایک دن پرایے گھر چلی

جائے گی، پھر پیچھے سے اس کی ماں کی توجہ کون رکھے گا، اس 

بات کہ فکر تو ہمیشہ اسے رہتی تھی اور ج ب آج اس کا حل سامنے 

 .. آیا ہے تو وہ ایسے کیوں بہیو کر رہی ہے 

اس نے ساری نےگےٹو باتوں کو اپنے سر سے جھٹک دیااور 

چہرے پر خوشی کے اظہار التے ہوئے بولی: "وا و، یہ تو بہت 

اچھی بات ہے ماں، کون ہے وہ، میرا مطلب، میرے ہونے والے 

پاپا، کس کی شادی کر رہی ہو، کب کر رہی ہو، کس طرح ڈسايڈ کیا 

 '' آپ نے یہ سب، بتاؤ نہ ؟؟ 

كاويا کے چہرے پر آئی خوشی اور اتنے سارے سوال اور اس کی 

ا تسكتتا دیکھ کر رشم نے چین کہ س انس لی، وہ ڈر رہ ی تھی کہ اسکی بیٹی کیا سوچےگي اپنی ماں کے بارے میں، پر اس نے 

سمجھداری سے اس کی بات سمجھ کر رشم کے سر سے ایک بوجھ 

.. اتار دیا تھا

 رشم نے بتانا شروع کیا 

دیکھ كاويا، تو تو جانتی ہے، تیرے پاپا کے جانے کے بعد سے "

ہمارے گھر کہ حالت کیسی تھی، اگر مجھے اسی کمپنی میں یہ 

نو کری نہ ملی ہوتی تو شاید ہماری حالت اس سے بھی بری 

ہوتی، تیرا اسکول، گھر کا خرچ، کچھ بھی طریقے سے نہیں ہو 

پاتا، اور یہ سب ہوا ہے کمپنی کے مالک سمیر سر کہ وجہ سے، 

انہوں نے اگر صحیح وقت پر سہارا نہیں دیا ہو تا تو آج یہ سب 

نہیں ہوتا، اور گزشتہ ہفتے ہی انہو ں نے مجھ سے شادی کرنے 

کہ بات ک ہی ہے، ان کا طالق ہو چکا ہے، اور وہ اپنے گھر پر اکیلے 

رہتے ہے، پر میں نے انہیں صاف کہہ دیا تھا ک ہ جب تک میری 

بیٹی اس شادی کے لئے راضی نہیں ہوگی، میں یہ شادی نہیں 

کروں گی، پر آجتو نے اپنی رضامندی جتاكر میرے سر سے اتنا 

 '' ... بڑا بوجھ اتار دیا ہے، تھےكس بیٹا

اور پھر ماں كاويا سے لپٹ کر اپنی بھاوناو پر قابو پاتے ہوئے 

 .. سبكنے لگی 

اور كاويا اپنی ماں ک ہ باتیں سننے کے بعد اپنی آنکھیں چوڑی 

 کرکے آپ نے والے دنوں کے خواب بننے لگی،اس نے بھی دیک ھا تھا سمیر سر کو، قریب 45 کہ عمر تھی ان کی، 

ان ہنستے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا كاويا نے، ہمیشہ 

سيريس رہتے تھے، ایک بار ان کے گھر میں ہوئی پارٹی میں 

كاويا اپنی ماں کے ساتھ ان کے بنگلے پر گئی تھی، اتنا الشان گھر 

اس نے صرف پھلمو میں ہی دیکھا تھا، گھ ر کے پیچھے کہ طرف 

سوئمنگ پول بھی تھا، اور تقریبا دس کمرے تھے پورے بنگلے 

 .میں، اوررہنے واال صرف ایک 

كاويا سے ملتے ہوئے بھی سمیر سر کے چہرے پر کوئی خوشی 

نہیں تھی، اس لئے پہلی نظر میں ہی كاويا کو اپنی ماں کا باس 

 .ایک كھڈوس انسان لگا تھا 

پر آج وہی كھڈوس انس ان اس کا والد بننے جا ر ہا ہے، اور وہ اپنی 

ماں کے ساتھ اسی گھر میں رہے گی جسے دیکھ کر اسکی 

آںکھے چںدھیا گی تھی، وہ بھی نئے - 2 پھےشن کرے گی، 

 .. شوپگ پر جایا کرے گی، اپنی امیر سہیلیو ں کہ طرح 

اور امیر سہیلیوں کی دیکھ آتے ہی اس کے دماغ میں سب سے 

پہلے اپنی خاص سہیلی شویتا کا دھیان آیا، وہ سب سے پہلے یہ 

 باتیں اسے بتانا چاہتی تھ ی 

اس نے اپنی ماں سے کہا: "ماں، مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ 

دوسری شادی کر رہی ہے، آپ انہیں ابھی فون کر کے ہاں بول دو، 

 '' اور تب تک میں یہ بات شویتا کو بتا کر آتی ہ

اتنا کہہ کر وہ بغیر اپنے کپڑے بدلے گھر سے باہر کہ طرف بھاگ

 گئی 

شویتا کے پاپا پولیس میں ایک اونچی پوسٹ پر تھے اور وہ پاس کہ 

 .ہی ایک سوسائٹی می ں کاف ی بڑے فلیٹ میں رہتے تھے 

جیسے ہی وہ سڑک تک پہنچی، س امنے سےاسے وکی آتا ہوا 

دک ھائی دیا، وہ اس کی گلی میں ہی رہتا تھا اور آتے جاتے 

ہمیشہ كاو يا کو گندی نظروں سے دیکھ کر بھدی - 2 باتیں کہہ کر 

 اسے چھےڑتا تھا 

 '' وکی: " ہاے میری پھلجھڑي، کہا چلی اپنی توپیں لے کر 

 اس کا اشارہ كاويا کے نوک دار نپپلس کہ طرف تھا 

كاويا ویسے تو اس سے کبھی بولتی نہیں تھی، پر آج اس نے اسے 

مزہ چكھانے کا من بنا لیا: "جہاں جا رہی ہ و ہاں پر نہ تو ایسی 

 '' گندگی ہوگی اور اور نہ ہی تیرے جیسے کتے 

ہمیشہ چپ رہنے والی كاويا کے منہ سے ایسی باتیں سن کر وکی 

بھی حیران رہ گیا، وہ کچھ بول پتہ اس سے پہلے ہی كاويا وہاں 

 سے نکل گئیشویتا کے گھر پہنچ کر وہ اس سے لپٹ گی اور ایک ہی سانس میں 

 اسے پوری بات بتا ڈالی 

شویتا اپنی عمر کے حساب سے کافی پہلے جوان ہو چکی تھی، 

اس کی عمر 18 سال تھی، اور اپنے نشیلی اور جوان جسم کا 

استعمال کب اور کہا کرنا ہے، اسے اچھی طرح معلوم تھا،پر وہ 

 تھی اب تک کنواری 

شویتا بھی اس کی بات سن کر بہت خوش ہوئی اور پھر وہ دونوں

سہیلیاں مل کر باتیں کرنے لگی کہ کیا 2- ہوگا آنے والے دنوں 

.میں 

شویتا اپنی عمر کے حساب سے کافی پہلے جوان ہو چکی تھی، 

اس کی عمر 18 سال تھی، اور اپنے نشیلی اور جوان جسم کا 

استعمال کب اور کہا کرنا ہے، اسے اچھی طرح معلوم تھا، پر وہ 

 تھی اب تک کنواری 

شویتا بھیاس کی با ت سن کر بہت خوش ہوئی اور پھر وہ دون وں 

سہیلیاں مل کر باتیں کرنے لگی کہ کیا 2- ہوگا آنے والے دنوں 

 .میں 

********** 

 اب آگے 

**********كاويا کے جانے کے بعد رشم آئینے کے سامنے جا کر کھڑی ہو 

گی، اس نے اپنے پورے جسم کو نهارا، اور پھر نہ جانے کیا سوچ کر

اس نے اپنی ساڈی اتارني شروع کر دی، بالس میں پھنسے ہوئے 

اس کے موٹے مممے باہر نکلنے کہ فریاد کر رہیں تھے، اس نے ان 

کی بات مانتے ہوئے اپنے بالس کے ہک بھی کھو ل دئے اور اس 

کے بعد اپنی برا کو بھی اتار پھینکا، اپنے ہی پسینے کہ بو اس 

کے نتھنو میں سما گئی، جو اسے ہمیشہ سے بہت اچھی لگتی 

تھی، انپھےكٹ اس کا شوہر بھی اس کی بو کا دیوانا تھا، رشم کو 

ا بھی بھی یاد ہے کہ اسے چ ودتے ہوئے وہ اس کے دونوں ہاتھوں 

کو اوپر کر کے جب جھٹکے مارتا تھا تو اپنا منہ اس کی بغل میں 

ڈال کر وہ زور سے ساںسے لیتا تھا، اور وہ بو سوگھكر وہ اور بھ ی 

 زیادہ جوش و خروش کے ساتھ اس کی چدائی کرتا 

 وہ سب باتیں یاد کرتے - 2 اس کی چوت گیل ی ہونے لگی 

اس نے اپنا پیٹیکوٹ بھی اتار دیا، اور پھر كچچ ھي بھی، پوری 

 نںگی ہو گئی وہ ایک دم س ے 

مکمل طور پر ننگی ہونے کے بعد وہ گھوم گھوم کر اپنے پورے 

جسم کا مواينا کرنے لگی ا ور پھر خود ہی باتیں کرنے لگی: "اوہو 

... کتنی موٹی ہو گئی ہ میں، پیٹ بھی نکل آیاہے، برےسٹ 

بھی موٹے ہو گئے ہے، لٹک بھی گئے، اور پیچھے سے تو، اوہو'' انہے اب جلد ہی کم کرنا ہوگا 

وہ ایک ایسی لڑکی کہ طرح بہیو کر رہی تھی جو شادی سے پہلے 

وزن کم کرنے کہ فکر میں غرق ہو، ویسے یہ فکر ہ ونا فطری ہی تھا 

رشم کے لئے، وہ پہلے ایسی نہیں تھی، شادی سےپہلے بھی 

اور بعد تک بھی ، جب تک اس کا شوہر زندہ تھا وہ ہمیشہ فٹ 

رہتی تھی، جم بھی جاتی تھی، اس نے تقریبا دس سالوں تک جم 

میں جا کر یروبک اور كارڈو کرکے اپنے پورے جسم کو فلمی 

هےرو نو کہ طرح لچکدار اور کامل بنا لیا تھا، پر گزشتہ پانچ سالو نے 

اس کی زندگی کو مکمل طو ر پر تبدیل کر دیا، كاويا کہ دیکھ بھال اور 

آفس کے کام کہ وجہ سے اسے اپنے لئے وقت ہی نہیں ملتا تھا، 

پر اب جبکہ اس کی دوبارہ شادی ہونے والی ہے، اس نے تہیہ کر لیا 

کہ وہ جلد ہی ا س تھلتھلےپن سے چھٹکارا پايےگي، جم جائے 

 .گی، ڈاٹگ کرے گی، پر آپ کے جسم کو پہلے جیسا ب نا کر رہے گی 

 آخر سمیر سر بھی تو دیکھے کہ وہ چیز کیا ہے 

سمیر سر کی توجہ آتے ہی اس کے دل کہ دھڑکنے ایک دم سے 

بڑھنے لگی، اسے ان کی گہری نظروں کہ یاد آ گی جو اس نے کئی 

بار م ح سوس کہ تھی، اور جسے محسوس کر کے اس کا ر وم روم کھڑا 

 ہو جاتا تھا 

ان کے بارے میں یاد کرکے اچانک اس کے ہاتھ اپنی چوت کہ طرف 

سرک گئے، وہ بیڈ پر لیٹ گئی اور اس کی آنکھیں بند کر ک ے اپنیچوت کو سہ النے لگی 

آج پانچ سالو بعد اس نے اپنی چوت کہ تالش خبر لی تھی، اس لئے 

اس کی چ وت بھی اپنا گلہ منہ کھولے اس کی مالکن کا کھلے دل

سے استقبال کر رہی تھی 

رشم نے اپنی چوت کے تیتلی جیسے پروں کو پھیالیا اور اپنی 

 ایک اوںگلی اندر کھسکا دی 

 اور سسک پ ڑی 

 '' اههههههههههه ههه سمیر امممممممم ''

الل چوت کے اندر سے سرسبز پانی بری طرح سے ب ہتا ہوا باہر کہ 

طرف آ ر ہا تھا، جسے رشم اپن ی اںگلیوں سے اکٹھا کرکے اپنی 

 چوت کے چہرے پر مل رہی تھی 

 اس کے دماغ میں اپنے آپ کو ایک غیر حقیقی فلم چلنے لگی 

رشم اپنی آفس کہ کرسی پر بیٹھی تھی، پوری نںگی، آفس میں 

 کوئی بھی نہیں تھا 

 اس کے ٹیبل کا فون بجا اور سمیر سر نے اسے اندر بالیا

Comments

Popular posts from this blog

سچی کہانی۔۔ قسط نمبر 1

"*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 3

*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 4