ڈاکٹر ہما قسط 101,102


میں ڈر کے مارے کانپنے لگی ۔۔ نہیں نہیں - پلیز - مجھے جانے دو ایسا ظلم نہیں کرو میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی - بس مجھے جا لینے دو۔


مرلی میری طرف بڑھتے ہوئے بولا بتا تو تم کسی کو یہاں سے جا کر بلکل بھی نہیں سکو گی .. اور اگر زیادہ بی نخره کیا تو ہو سکتا ہے کہ یہاں سے جا ہی نہ سکو - بابابابابابااه .


میں چلاتی ہوئی پیچھے کو بٹنے لگی ۔ اور صوفے کے پیچھے سے چکر لے


کر دروازے کی طرف بھاگی - اور پتہ نہیں کیسے میں بجلی کی سی تیزی کے ساتھ دروازے تک پہنچ گئی ۔ اور جلدی سے دروازے کو کھولنے لگی ۔ میں نے دروازے کے ہینڈل کو گھمایا۔ اور میری قسمت سے دروازہ کھل گیا۔ اور میں کمرے سے نکل کر بھاگی .


رک جا رسال... اگر بهاگی تو جان سے مار دوں گا۔ پیچھے سے مجھے مرلی کے چلانے کی آواز آئی۔ مگر میں بھلا کیوں رکتی ۔ میں کمرے سے نکل کر صوفے کی طرف بھاگی اپنے کپڑے اٹھا کر ننگی بی اس بال کمرے


سے نکلی - کیونکہ کپڑے پہننے کا وقت ہی نہیں تھا میرے پاس باہر نکل کر میں اپنی کار کی طرف بھاگی ... مگر... جو گارڈ باہر موجود تھا - وه میری طرف بھاگا بھاگ نکلنے کی کوئی امید تو مجھے بھی نہیں تھی اور وہی ہوا۔ اس نے مجھے پکڑ لیا۔۔ میرے بازو سے پکڑ لیا۔۔ اب میں پارکنگ ایریا میں صرف اپنی پینٹی پہنے ہوئے اس گارڈ کی گرفت میں کهڑی مزاحمت کر رہی تھی - خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تهی - بلکل ننگی بی حالت تھی میری - میں اسکی منتیں کرنے لگی - پلیز مجھے


جانے دو۔ خدا کے لیے مجھے جانے دو... مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اتنے میں اندر سے مرلی باہر آگیا۔ اور میری طرف بڑھنے لگا۔۔ اسکو دیکھتے بی میری حالت خراب ہونے لگی ۔ اور میری ٹانگوں سے جیسے جان ہی نکلنے لگی تھی۔


مرلی مسکراتا ہوا میرے پاس آیا۔


دوسرے گارڈ سے میرا ہاتھ پکڑ کر


مجھے اپنے قبضے میں کیا۔ اور مجھے واپس اندر کی طرف گھسیٹنے لگا۔ میں اسکی منتیں کرنے لگی ۔


بھی رک گئی تھی -- میرا پورے کا پورا جسم ڈھیلا پڑ نے لگا تھا ..... مجھے یقین ہو گیا کہ اب میں مر رہی ہوں ان درندوں کے ہاتھوں ... اور میری آنکھیں بند ہونے لگیں ... کیونکہ بند یا کھلی ہونے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا .. کیونکہ اب مجھے کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا . اور دماغ نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا تھا ... عین اسی وقت - مرلی نے میری گردن چهوڑی - اور مجھے دھکا دے کر صوفے پر گرا دیا۔


مجھے تو جیسے نئی زندگی مل گئی ہو


میں زور زور سے کھانسنے لگی ۔ لمبے لمبے سانس لینے لگی ... نڈھال ہو کر صوفے پر گر گئی ... میرے جسم میں تو جیسے بلکل ہی جان نہیں تھی ۔۔ ان درندوں نے میرے جان لینے میں کوئی کسر نہیں رہنے دی تھی ... اگر صرف چند لمحے مرلی میری گردن کو نہ چھوڑتا تو میں یقینان مر چکی ہوتی ... تبھی مجھے مرلی کی آواز سنائی دی - صرف آواز - کیونکہ میری آنکھوں کے آگے ابھی بھی اندھیرا تھا


مرلی - بہن چود .. رونا بند کر دے


ورنہ بہت برا ہو گا۔ اگر رونا بند نہیں کرے گی نا تو اور بھی بندوں کو اندر بلا لوں گا۔ اور پھر سب مل کر تجھے چودیں گے ۔ اور تیری چوت کا بھوسڑا بنا دیں گے ۔ اور آخر میں اسی طرح سے تیری جان لے لیں گے ۔۔ اب یہ تجھے سوچنا ہے کہ تجھے اپنی جان عزیز ہے یا اپنی پھدی


اسکی دهمکی سن کر میں فوران ہی چپ کر گئی - بس سبکنے لگی ۔۔ آہستہ آہستہ سے ۔ اور اپنے ہاتھوں سے اپنے آنسو پونچھنے لگی ۔ جو مسلسل بہہ


رہے تھے ۔ میں مرنے کے خوف سے


خود کو سنبھالنے لگی ۔۔ کہ جیسے بھی ہو انکی بات مان کر یہاں سے نکل جاؤں - اور یہ مجھے بھی اندازہ ہو


رہا تھا کہ اسکی مجھے کیا قیمت


چکانی پڑے گی .... مگر یہ اندازہ نہیں


تھا کہ وہ قیمت کتنی بھاری ہو گی ..


مرلی - شاباش - یہ ہوئی نا بات پکی رنڈیوں والی - چل اب خاموشی سے اندر چل و کرم صاحب کے پاس وہ تیرا انتظار کر رہے ہیں.


میں صوفے سے اٹھی انکے ساتھ اندر جانے کے لیے ۔۔۔ مگر یہ کیا۔۔۔ راجو نے ایک زور کا تھپڑ میرے منہ پر

+923215369690


میں ... پلیز مجھے جانے دو پلیز میری جان چھوڑ دو...


مرلی بنسا نہیں نہیں ۔ تم مجھے اور تھپڑ مارو نا - کس نے تمکو روکا ہے اب کیوں نہیں مار رہی.


میں روتی ہوئی اس سے معافی مانگنے لگی -- پلیز مجھے معاف کر دو۔ مجھ سے غلطی ہو گئی ۔ مجھے جانے دو۔ آئندہ میں کبھی ادھر نہیں آؤں گی ...


مگر مرلی پر بھلا کیا اثر ہونا تها .. وه مجھے اندر لے جانے لگا۔۔ گھسیٹتا


ہوا.... مگر میری مزاحمت کی وجہ سے اس نے مجھے ایک جھٹکے میں اپنی گود میں اٹھا لیا.. اور اندر جانے لگا۔ اندر کے دروازے میں راجو کھڑا تھا - ہمارے اندر داخل ہوتے ہی اس نے دروازہ بند کر دیا۔ میں چلا رہی تھی ۔ مگر میری سننے والا کوئی نہیں تھا ..... اتنے میں راجو نے ہماری طرف آیا۔ اسکے ہاتھ میں کچھ رسی و غیره تهی - میرے پاس آیا تو دیکھا کہ اسکے ہاتھ میں کتے کے گلے میں ڈالنے والا پتہ ہے ۔ اس نے وہ پتہ میرے گلے میں کس دیا اور پھر اسکے بک کے ساتھ بندھی ہوئی رسی کو پکڑ کر مجھے


گھسیٹنے لگا۔ مرلی نے مجھے نیچے


اتار دیا اور مجھے نیچے بیٹھنے کو بولا .... میں روتی ہوئی نیچے فرش پر بیٹھ گئی -- میرے گلے میں بندھے ہوئے کتے کی بیلٹ کی دوری راجو کے ہاتھ میں تھی ... میں رونے لگی ۔ چلانے لگی ... مرلی نے مجھے گردن سے پکڑ لیا۔ اور میرا گلا دبانے لگا۔۔ اس نے اتنی زور سے میرا گلا دبایا کہ میری چیخیں تو کیا - میرا سانس بهی بند ہونے لگا۔ درد اور سانس گھٹنے کی وجہ سے میری آنکھوں سے آنسو میری سانس رکنے لگی نکلنے لگے . مجھے لگا کہ اب میں نہیں بچوں


گی یہ آج مجھے اسی طرح ایسے ہی گلا گھونٹ کر مار دیں گے - میں ہاتھ پیر چلانے لگی ... ہوا میں ... ادھر ادھر خود کے چھڑوانے کے لیے ۔۔ میرے منہ سے تو آواز بھی نہیں نکل رہی تھی ... مرلی اپنے طاقتور ہاتھوں سے میرا نازک سا گلا دبا رہا تها .... میرا چهره سرخ ہو چکا تھا ... اور شائد اب نیلا پڑنے لگا تھا .... اور آخر کار میرا سانس بلکل ہی بند ہو گیا. میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔ میرے دماغ کو آکسیجن کی سپلائی رک گئی تهی - میری آنکھیں باہر آنے لگی


تھیں - اب میرے ہاتھ پیروں کی حرکتمارا کتیا کی بچی ... تجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہ کتیا کا پلہ تیرے گلے میں کس لیے ڈالا ہے ۔


میں اسکی بات نہ سمجھی . اور پھر اسکو حیرانی سے دیکھتی رہی ..... اس نے میرے دوسرے گال پر بھی ایک تھپڑ مارا اور بولا -- کتیا کا پٹہ گلے میں پہنا ہے نا تو کتیا بن کے چل ... اور کتیا کی طرح ہی تجھے آج ربنا پڑے گا۔ اور کتیا کی طرح ہی چدنا گا۔ یہ کہتے ہوئے راجو نے میری چھاتی کو اپنی مٹھی میں لیا ... اور اسے انتہائی بے دردی سے ۔ اور بھی ہو


بہت ہی زور سے دبا دیا۔ میری چیخ


نکل گئی ۔ اور میں خود سے ہی نیچے اپنے گھٹنوں کے بل ہو گئی .... راجو کے ہاتھ میں میرے پتے کی رسی تھی وہ آگے آگے چلنے لگا۔۔۔ اور میں . کتیا کی طرح کتیا بنی ہوئی ۔ اپنے گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل چلنے لگی میری پینٹی میں سے نکلتی ہوئی میری گانڈ پیچھے سے ننگی ہو رہی تهی - میرا پورا جسم بی ننگا تھا . میری حالت خراب ہو رہی تهی - میری چھاتی میں ابھی بھی درد ہو رہا تھا .....


میرے پیچھے چلتے ہوئے مرلی نے


میری ننگی گانڈ پر ایک زور دار طمانچہ مارا... اور بولا - کتیا کی بچی اس کچھی کو بھی تو اتار ... سالی ... پورا جسم تو ننگا کیا ہوا ہے تو اس گانڈ


کو اپنے کس باپ سے چھپا رہی ہے کہ کہتے ہوئے اس نے میری پینٹی کو بھی کھینچ کر میری گانڈ سے نیچے کر دیا اور پھر میری ٹانگوں اور پیروں سے نکال کر کہیں پھینک دیا۔ میں نہ دیکھ سکی .. اور دوبارہ سے راجو کے پیچھے چلنے لگی ۔۔ کیونکہ اس نے میرے گلے میں بندھی ہوئی بیلٹ کی رسی کو ایک جھٹکا دیا تھا ... اور میں ایک کتیا کی طرح ہی اسکے پیچھے


پیچھے چلنے لگی ۔۔۔ اپنی قسمت کو روتی ہوئی ...


جیسے ہی اندر داخل ہونے لگے تو


مرلی نے میری ننگی گانڈ پر ایک اور طمانچہ مارا اور میں گرتی ہوئی بچی میں بنا مڑ کر اسکی طرف دیکھے اندر داخل ہو گئی ... راجو مجھے کھینچتا ہوا وکرم کے پاس لے گیا۔ جو اسی طرح سے اسی صوفے پر بیٹھا ہوا تها - ننگے ٹھنڈے فرش پر میرے


نازک گھٹنے مجھے درد کرتے ہوئے


محسوس ہونے لگے تھے ...

+923215369690

جیسے ہی وکرم کے پاس پہنچے تو پیچھے سے مرلی نے میری گانڈ پر ایک زور دار لات ماری ۔ اور میں وکرم کے قدموں میں جا گری -- میں نے فوران ہی وکرم کے پیر پکڑ لیے ۔ اور اس سے معافی مانگنے لگی ۔۔


میں - پلیز مجھے معاف کردیں ۔ پلیز مجھے جانے دیں - میں ایسی عورت نہیں ہوں ۔


وكرم - اوه - بو - کیا ہو گیا۔۔ کیا بہت مارا ہے ان ظالموں نے تم کو ۔


میں نے بے بسی سے ۔ اور ڈرتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔


وکرم کی غصے سے بھری ہوئی آواز سنائی دی - كمينو... تم کو تمیز نہیں ہے کیا کہ کسی عورت سے کیسے بات کرتے ہیں ۔ اتنی خوبصورت اورایسے بڑے گھر کی عورت سے ایسا سلوک کرتے ہیں کیا ۔


مرلی کی آواز سنائی دی ... سر - ہم نے تو کچھ بھی نہیں کہا ۔ ہم نے تو ہاتھ بھی نہیں لگایا انکو یہ جھوٹ بول رہی ہیں ۔


مجھے لگا کہ مرلی وکرم کی ڈانٹ سے ڈر گیا ہے ۔ مجھے تھوڑا حوصلہ ہوا۔


وکرم مجھ سے بولا - نیلو جی .. یہ تو کہتے ہیں کہ آپ جھوٹ بول رہی ہو ۔ اچھا آپ بتاؤ کہ انہوں نے آپ کو کہاں مارا ہے - دکھاؤ تو - پھر میں ان حرامزادوں کی خبر لوں گا۔۔۔


مجھے لگا کہ میری جان بچ جائے گی میں نیچے فرش سے اٹھی ۔۔ اور اپنی گانڈ گھما کر کر و کرم کی طرف کر دی اور اسے دکھایا۔ یہ دیکھیں یہاں


نشان پڑ گیا ہے اسکے مارنے سے ۔


و کرم - چ چ چ چ ج چچ چچ چچ چچ


کرتے ہوئے میری ننگی گانڈ پر اپنا ہاتھ


پھیرنے لگا۔ بہت ہی ظالم ہو تم کمینو


... دیکھو پھول سی گانڈ کو کتنی بری


طرح سے پیٹا ہے تم نے ۔۔۔


میرا سامنے کا جسم ان دونوں کی


طرف تها - جو مجھ سے کچھ ہی


فاصلے پر کھڑے تھے ۔۔ اور میرے


گلے میں بندھی ہوئی رسی ابھی بھی


راجو کے ہاتھ میں تھی - جیسے وکرم


سے نظر بچاتے ہوئے - مرلی نے ہاتھ

Comments

Popular posts from this blog

سچی کہانی۔۔ قسط نمبر 1

"*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 3

*بھائی نے مجھے پکڑا اور چودا"* قسط نمبر 4