سچی کہانی قسط نمبر 7
ملائکہ کے پے درپے حملوں سے میں بالکل پریشان ہو چکا تھا مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا بولوں ۔ وہ میرے سامنے کھڑی تھی اور تھوڑی دور امی اور ماہم بیٹھی ہوئی تھیں ۔ میں چائے کی پیالی اور بسکٹ کی طرف دیکھتا اور کبھی ان سب کی طرف کیونکہ صورتحال ہی عجیب بن چکی تھی مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا بولوں۔ ملائکہ نے نیچے جھکتے چائے کی پیالی اٹھا کر میری طرف بڑھائی اور بسکٹ کی پلیٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے ہلکی آواز میں بولی ۔ اب جو زائقہ آپ کو پسند ہے جدھر زبان لگا کہ چاٹتے ہیں وہ زائقہ تو نہیں ہے لیکن پھر بھی کھا لیں ورنہ خالی چاٹنے سے پیٹ نہیں بھرتا ڈرٹو۔ اس کے چہرے پہ عجیب تاثرات تھے جیسے مجھ سے بہت ناراض ہو لیکن وہ طنزیہ انداز میں بات کیے جا رہی تھی اور میں بالکل چپ چاپ اس کی باتیں سن رہا تھا کیونکہ ان باتوں کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اب امی اور ماہم کو یہی لگ رہا تھا کہ وہ مجھے شاپنگ کے لیے راضی کر رہی ہے ۔ مجھے بےبس دیکھ کر ماہم نے آواز لگائی ارے بھائی اتنی پریشانی کیا ہے دس ہزار میں دیتی ہوں جائیں اس کو شاپنگ کروا کہ لائیں۔ میرے بولنے سے پہلے ہی ملائکہ بولی ارے نہیں بھابھی پیسے بھی یہ خود لگائیں گے آپ سے تو بالکل نہیں لینے۔ میں نے بھی تھوک نگلتے ہوئے کہا ہاں ہاں میں خود شاپنگ کروا دوں گا جب بھی کہو ۔ مجھے اپنے اوپر سے بوجھ تھوڑا کم محسوس ہوا لیکن یہ فکر مجھے کھائے جا رہی تھی اب ملائکہ کا رویہ کیسا ہو گا یہ تو مجھے باتیں مار مار کہ ہی مار ڈالے گی۔ ملائکہ بھی مڑ کہ ان کے پاس چلی گئی اور میں چائے سامنے رکھے چپ بیٹھا تھا ۔ پھر مجھے خیال آیا کہ چائے تو پی لوں اور میں نے چائے پینی شروع کر دی اور ایک نظر ان پہ بھی ڈالتا جو آپس میں باتیں کیے جا رہی تھیں میں نے چائے پیتے پیتے ان کی طرف دیکھا تو وہ تینوں آپس میں باتیں ہی کیے جا رہی تھیں میں چائے پینے کے ساتھ ساتھ ان کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا۔ ملائکہ نے مجھے بار بار ادھر دیکھتے میری طرف دیکھا اور پھر پاس بیٹھی ماہم کے گلے میں بازو ڈال کہ اس کے منہ کے ساتھ منہ لگا کہ مجھے آواز دی ۔ بھائی کیا خیال ہے پھر میں نے جیسے اس کی طرف دیکھا تو اس نے آنکھ مارتے ہوئے مجھے اشارہ کیا بھابھی کو بتاوں پھر یا رہنے دوں ۔ مجھے تو لگا کیسے یہ لڑکی مجھے مروائے گی میں نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور اس سے پوچھا کیا بتانا ہے بھلا؟؟ ارے ے ےےےے اس نے اسی طرح آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا وہی جس کا پتہ چلنے کے بعد آپ کی شامت آنا لازمی ہے ۔ لو اب ایسی بھی کیا بات ہو گئی ہے امی نے ماہم کے کچھ بولنے سے پہلے ہی پوچھ لیا ۔ ارے امی بھیا کہہ رہے تھے کہ تم میرے ساتھ شاپنگ پہ جاو گی تو بس دو تین سو کہ چیزیں ہی لے کہ دوں گا اس نے ماہم کے گال کے ساتھ اپنے گال رگرتے ہوئے مجھے آنکھ ماری۔ میں نے سکون کا سانس بھرا اور ہنس کہ چپ ہو گیا کہ چور کی داڑھی میں تنکا مجھے یہی لگ رہا تھا کہ وہ چاٹنے والی ننگا دیکھنے والی بات کرنے والی ہی ہو گی۔ امی نے کہا اب اتنا بھی کنجوس نہیں ہے وہ اور آج تو دیر ہو گئی ہے کل جانا اور زیادہ خرچہ نہ کروا دینا ایسے فضول میں ۔ اب اس کی اپنی بیوی بھی ہے تو اخراجات بھی ہوتے ہیں بندے کے۔ ملائکہ نے امی کی یہ بات ہنسی میں اڑا دی اور بولی کوئی بات نہیں بھائی کو دو بیویوں کے خرچے کی پریکٹس ہونی چاہیے نا تا کہ یہ دوسری شادی سے باز رہیں ۔ اچھا اچھا فضول نہ بولا کرو اور کل چلی جانا بھائی کے ساتھ تم ۔ امی نے گویا بات ختم کر دی۔ پانچ ہزار ملائکہ کو میری طرف سے بھی ملیں گے ماہم نے بھی سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا تو ملائکہ ایک بار پھر اس کے گلے لگ گئی اور اسے چوم کہ بولی میری پیاری بھابھی آپ تو بہت اچھی ہو بس یہ بھیا ہی کھڑوس سے ہیں ۔ اور ہنسنے لگ گئی میں نے بھی تھوڑا سکون کا سانس لیا ۔ تھوڑی دیر میں ابو بھی آ گئے اور ہماری باتیں چلنے لگیں اور آپس میں باتیں کرتے کرتے امی کی نظر میرے سامنے کپ پہ پڑی تو امی نے سختی سے کہا ملائکہ ابھی تک کپ کیوں نہیں اٹھایا بھائی کے سامنے سے۔ وہ تیزی سے اٹھی اور بھاگتی ہوئی میرے قریب آئی اور بولی یار آپ ہی بتا دیتے نا ڈرٹو بھائی یہاں تک اس کی آواز سب تک پہنچی اس کے بعد ہلکی آواز میں بولی گندگی اور غلاظت کے بادشاہ ۔ اور کپ اٹھا کر کچن کی طرف چل دی۔ مجھے اس کا یوں طنز کرنا بہت عجیب لگ رہا تھا مگر میں اور کر بھی کچھ نہیں سکتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ لوگ اٹھ کہ کچن چلی گئیں اور کھانا پکانے لگ گئیں میں بھی ڈر کے مارے باہر ہی بیٹھا رہا ان کی طرف نہ گیا پھر ہم نے کھانا کھایا اور ہم کمرے میں چلے گئے ۔ کمرے میں جاتے ہی مجھے ماہم نے بازوں میں پکڑ لیا اور تھوڑے غصے سے بولی یہ کیا حرکت کی ہے جناب ؟ اب چور کی داڑھی میں تنکا تو نہ تھا مگر دل میں چور تو تھا ہی تو بوکھلاہٹ طاری ہونا بھی فرض قرار پائی مجھے یوں لگا کہ ملائکہ نے ماہم کو بتا دیا ہے اور تمام برے خدشات میرے زہہن میں دوڑنے لگے ۔ میں نے سوچا اب کیا بہانہ کروں اور ادھر میرے چپ رہنے سے ماہم نے پھر مجھے بازووں کا گھیرا تنگ کرتے ہوئے کہا بتائیں نا کیوں کیا ہے ایسا؟؟ ادھر میرے گلے میں آواز پھنس چکی تھی کہ اب کیا بولوں کہ بات ہی کوئی نہ تھی بولنے کو۔ اب اگر بہن نے شاپنگ کا کہہ دیا تھا تو اس پہ اتنا ہونق بننے کی کیا ضرورت ہے یار ۔ماہم نے مجھے بانہوں میں لیتے ہوئے چہرے پہ ایک کس کرتے ہوئے کہا۔ میں نے سوچا ایک حرکت کی ہے اور ایسے لگتا ہے ابھی پکڑا جاؤں گا آخر میرا کیا بنے گا ۔۔ چہرے پہ مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا ارے مجھے یہ تھا کہ میں اسے اکیلی کو لے جاوں تو شائد تمہیں اچھا نا لگے اس لیے تھوڑا کنفیوز تھا نا اور میں نے اس کے ہونٹ چوم لیے۔ آپ بھی بالکل پاگل ہو اسکے ساتھ جانے سے میں کیوں برا مناوں گی بھلا؟ اس نے مجھ سے چپکتے ہوئے کہا مجھے اچھا لگے گا آپ بہن کو پہلے کی طرح بلکہ پہلے سے زیادہ پیار کرو آپ کے پیار میں کمی آئی تو اسے اور امی کو یہی لگے کا میری وجہ سے کمی ہے اس لیے آپ مجھ سے بھی زیادہ اسے توجہ دیا کرو۔ میں مسکرا دیا اور دل میں سوچا جو توجہ اسے دے رہا ہوں تمہیں پتہ چلے تو میرا سر ہی توڑ دو گی لیکن اوپر سے مسکراتے ہوئے کہا جو حکم میری رانی اور اس کی کمر کے گرد بازوں کا گھیرا سخت کرتے اسے تھوڑا اوپر اٹھا لیا اور کہا جیسے میری رانی کہے گی ویسا ہی ہو گا۔۔ اس نے میری ناک کو چٹکی میں پکڑ کہ ہلایا اور ہنستے ہوئے بولی بالکل جناب کل پھر اسے شاپنگ کے لیے لے کہ جانا ہے اور دس ہزار آپ دو گے اور پانچ میں او کے،؟؟ میں نے کہا بالکل جناب ایسا ہی ہو گا۔ اور تم بھی ہمارے ساتھ چلوگی۔۔ اونہو اس نے سر کو نفی میں ہلایا نہ جی بہن کے ساتھ جانا اور وہ کوئی آدم خور نہیں جو آپ کو کھا جائے گی میرے ساتھ جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے یہ خطرہ تھا کہ اگر ہم اکیلے گئے تو میں اس کا سامنا کیسے کروں گا لیکن میری بات کو ماہم نے ریجیکٹ کر دیا اور وہ جانے پہ بالکل بھی راضی نہ ہوئی میں نے بھی ضد نہ کی اور اسے چومتے دباتے بیڈ تک پہنچ گیا۔ کیونکہ دن میں اچھے سے فارغ ہو چکا تھااس لیے میرا لن تو کھڑا تھا مگرمجھے سیکس کی خواہش ماہم سے بالکل نہیں ہو رہی تھی ۔ میں اس سے باتیں کرتا رہا اور پھر ہم سو گئے ۔ صبح اٹھ کہ پھر دفتر اور وہی روٹین مگر دن بھر مجھے یہی سوچ ستاتی رہی کہ اس کا سامنا کیسے کروں گا اب گھر بھی تو جانا تھا سو مرتا کیا نا کرتا گھر کی طرف چل پڑا ۔ گھر میں جیسے ہی میں داخل ہوا تو سامنے وہی دشمن جان کپڑے تار سے اتار رہی تھی مجھے گھر داخل ہوتے ہی جیسے دیکھا تو وہیں سے اونچی آواز میں بولی اوہ لوٹ کر بدھو گھر کو آئے اور پھرہنسنے لگ گئی۔ میں چلتے چلتے اس کےپاس پہنچا اور کہا ہاں تو میں اور کدھر جاتا گھر ہی آنا تھا نا۔ جی سب سمجھتی ہوں تبھی جناب نے دروازہ بھی بہت آرام سے کھولا اور بند کیا ہے مگر روز روز چانس نہیں ملا کرتے یہ کہتے ہوئے وہ مسکرائی اور کپڑے لیکر کمرے کی طرف چل پڑی۔ اسکے کمرے کی طرف جانے سے میری نظر اس کی تھرتھراتی مٹکتی گانڈ پہ پڑی اور وہیں کی ہو کہ رہ گئی اس کی گانڈ ہر قدم کے ساتھ اچھلتی اور اوپر نیچے ہوتی تھی۔ کمرے کے دروازے پہ پہنچ کہ وہ رکی اور میری طرف مڑی میں جو اس کی گانڈ کے نظارے میں کھویا ہوا تھا اس کے مڑنے سے بوکھلا گیا اور مجھے اس طرح بوکھلاتا دیکھ کہ وہ ہنس پڑی اور نچلے ہونٹ کو ایک سائیڈ سے دوسرے ہونٹ سے دبا کہ بولی جناب کھانا کون سا کھائیں گے پکا ہوا یا ہضم شدہ؟ میں نے جب دیکھا کہ وہ بار بار وہی بات کر رہی ہے تو میں نے بھی ایک کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کیا اور اس کی طرف بڑھتا چلا گیا مجھے یوں اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ بھی گھبرا سی گئی اور اس کے چہرے پہ پریشانی کے تھوڑے سے تاثرات ابھرے لیکن میں اس کی طرف بڑھتا گیا اور اس کے سامنے جا کہ رکا
میں اس کے سامنے جا کہ کھڑا ہوا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا ہاں تو کیا فرما رہی ہیں مس ملائکہ آپ اور کھانا کھلا بھی سکتی ہیں یا بس باتیں ہی ہیں ۔ میں نے بار بار اس کے ایک بات دہرانے سے تنگ ہو کہ یہ کہا کہ ایک ہی بار بلی تھیلے سے باہر آ جائے۔ اور میری ایک ہی بات نے اس کو کنفیوز کر دیا اس کے چہرے پہ بیک وقت شرمندگی اور کنفیوژن کے تاثرات ابھرے اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور پلکیں جھکا کہ بولی پکا ہوا کھانا کچن مین ہے اور ہضم شدہ باتھ میں ۔ جو بھی پسند ہے جا کر کھا لیں ۔ اور پلکیں جھکا کہ مسکرانے لگی۔ میں نے بدستور اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا جو شرم کے مارے سرخ ہو رہا تھا میں نے بھی تھوڑا کھل کہ بولنے کا فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر ایک لڑکی کھل کہ بول رہی ہے اب مجھے بھی کھل کہ ہی بولنا چاہیے اور جو بھی بات ہے اس کا سامنا اسی طرح ہو سکتا ہے ورنہ تو یہ مجھے دباتی ہی رہے گی۔ میں نے کہا کھانا تو مجھے ہضم شدہ ہے پسند ہے مگر دیگ میں سے خود نکالوں تو تب کی بات ہے ورنہ نہیں ۔ اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور بولی تو جناب کی دیگ اوپر کمرے میں انتظار کر رہی ہے ادھر جائیں دوسرے کے برتن جُوٹھے کرنا اچھی بات نہیں ہے اور پھر نظریں جھکا لیں ۔ میں بدستور اسے دیکھے جا رہا تھا اس کے چہرے کے تاثرات بہت عجیب تھے کبھی لگتا تھا اسے بہت برا لگا ہے اگلے ہی لمحے لگتا وہ مجھے تنگ کر کہ لطف لے رہی ہے اس چھوٹی سی موٹی گانڈ اور مموں والی بہن نے مجھے الجھا کہ رکھ دیا تھا جو عمر میں مجھ سے چھوٹی مگر باتوں اور سوچ میں مجھے بڑی لگنے لگ گئی تھی۔ اس سے پہلے کہ اسے میں جواب دیتا سیڑھیوں سے قدموں کی چاپ آئی اور ہم نے ادھر دیکھا تو ماہم اترتی ہوئی آ رہی تھی۔ ملائکہ نے اسے دیکھا پھر مجھے دیکھا اور اونچی آواز میں بولی چلیں کام آسان ہو گیا بھابھی ان کو دیگچی سے کھانا نکال کہ دو تط تک میں تیار ہو لوں موصوف کو بڑی بھوک لگی ہے کہتے ہیں دیگچی میں ہی دےدو پلیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ ماہم اس بات پہ ہنس پڑی اور میرے پاس پہنچ آئی اور اسے کہا تم باتیں کم کرو اور جلدی سے تیار ہو جاو ابھی تم نے کپڑے بھی نہیں پہنے ہوئے۔ میں نے اپنے سر پہ ہاتھ مارا اور افسردہ چہرہ بنا کہ کہا ہائے ری قسمت بہن تو پاگل تھی ہی اب بیوی بھی پاگل ہو گئی اس کو سامنے کپڑے پہنے ہوئی لڑکی کپڑوں کے بغیر لگ رہی ہے ۔ میری اس بات پہ دونوں ہنس پڑیں اور ملائکہ نے کہا کوئی حال نہیں ہے ان کا اور بھابھی لے کہ جاو انہیں ورنہ شام یہیں ہو جانی ہے اور کہتے ہوئے کمرے میں گھس گئی۔ اس کے کمرے میں جاتے ماہم نے مجھے دیکھا تو میں نے اسے اچارہ کیا کہ جناب آگے چلیں تو وہ ہنس کہ میرے بازو سے لگ گئی اور مجھے پکڑ کہ کچن کی طرف چلنے لگی۔ میں نے بھی پیار سے اسے کہا جانی تم بھی ساتھ چلو نا بازار اکھٹے جاتے ہیں۔ اس نے میری طرف دیکھا اور بولی یار جانی سمجھا کرو نا اب ملائکہ نے کہا ہے آپ کو تو میرا ساتھ جانا اچھا نہیں ہے اسے آپ پہلے بھی شاپنگ تو کراتےرہے ہو اس میں نئی بات کیا ہے؟ اب اگر میں جاوں تو شاید امی کو بھی عجیب لگے گا اور میں یہ سب نہیں چاہتی تو پلیز آپ اس کے ساتھ چلے جاو۔ مجھے ماہم کی بات سمجھ آ گئی اور مجھے ڈر بھی تھوڑا کم ہو چکا تھا اس لیے میں نے کہا چلو ٹھیک ہے میں اس لیے کہہ رہا تھا کہ تمہیں برا نہ لگے یہ باتیں کرتے ہوئے ہم کچن میں پہنچ چکے تھے۔ ماہم نے مجھے ساتھ لگتے ہوئے ایک کس کی اور بولی مجھے بالکل برا نہیں لگے گا جانی ۔ اور میرا اتنا خیال رکھنے کے لیے شکریہ۔ میں نے جوابا اسے کس کی اور پھر وہ میرے لیے کھانا نکالنے لگی۔ کھانا کھاتے بھی ہم باتیں کرتے رہے ۔ کھانا کھا کہ میں جب فری ہوا اور ہم باہر نکلے تو سامنے کمرے سے ملائکہ بھی نکل رہی تھی اسے دیکھ کہ میرا منہ کھل گیا کالے رنگ کے لباس میں انتہائی تنگ پاجامہ اور لمبے چاک والی قمیض جس کے چاک اس کی سائیڈ سے بہت اوپر تھے اور گلے میں ہلکا سا دوپٹہ تھا قمیض بالکل ایسی تھی جیسی کسی نے جسم کے ساتھ چپکا کہ سی ہوئی ہو۔ چہرے پہ میک اپ کے نام پہ آنکھوں میں ہلکا سا کاجل اور ہونٹوں پہ صرف لائنر لگائے کھلے بالوں کے ساتھ وہ کوئی حور پری لگ رہی تھی ۔ ماہم نے بھی اسے دیکھا اور بولی واہ جی ماشااللہ نظر نہ لگ جائے میری بہن کو اور آگے بڑھ کہ اس کے ماتھے پہ پیار دے دیا ۔ ماہم ہم دونوں کے اس طرح دیکھنے سے شرما سی گئی اور بولی کیا خیال ہے پھر چلیں ہم؟ اس سے پہلے میں کچھ کہتا تو ماہم بولی ابو نے کہا تھا گاڑی پہ جانا اور چابی مجھے دی تھی ۔ یہ بات سنتے تو میرے ارمانوں پہ منوں پانی پھر گیا میرا ارادہ تو تھا کہ بائیک پہ پیچھے بیٹھے گی تو جسم کا ٹچ مزہ دے گا لیکن یہاں تو معاملہ ہی خراب ہو گیا تھا۔ میں نے اپنے تاثرات کو چھپاتے ہوئے چابی لی اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔ وہ بھی گاڑی میں بیٹھی اور ہم گھر سے نکل آئے گاڑی میں مکمل خاموشی تھی
گاڑی گھر سے تھوڑا ہی آگے نکلی تھی
Comments
Post a Comment