سچی کہانی۔۔ قسط نمبر 4


۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭧ ﭼﻮﺳﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﺎﮎ ﭘﮑﮍ ﮐﮧ ﮨﻼﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﻧﯽ ﺍﺏ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮨﯽ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﺗﻢ ﮨﯽ ﺗﻮ ﮨﻮ ﻧﺎ۔ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﻦ ﮨﻠﮑﮯ ﮨﻠﮑﮯ ﺩﮬﮑﮯ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﻦ ﮐﻮ ﺍﺩﮬﮯ ﺳﮯﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﮭﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﯿﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺳﯿﮑﺲ ﮨﻢ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ ﺭﻭﺯ ﮨﯽ  ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺰﮮ ﺍﻭﺭ ﻟﻄﻒ ﮐﻮ ﺩﻭﺑﺎﻻ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﺳﻮﭺ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺍﺏ ﮐﮩﯿﮟ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺭﮦ ﮔﮯﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭼﯿﺖ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﻓﺮﯼ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﻣﺰﮦ ﺑﮭﯽ ﺁ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺣﻨﺎ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻠﮑﯽ ﮨﻠﮑﯽ ﺳﺴﮑﯿﺎﮞ ﻧﮑﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺍﻣﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺩﮬﮑﮯ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﮔﺎﻟﯽ ﺩﮮ ﮔﯽ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﺍﻣﯽ ﺍﻣﯽ ﻧﮑﻼ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﻣﺰﯾﺪ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﭘﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺟﮭﭩﮑﺎ ﻣﺎﺭﺍ ﺍﺱ ﺑﺎﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺁﮦ ﺁﮦ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﯿﭧ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﮟ ﻣﻄﻠﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﭩﻨﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﺳﮯ ﺟﺎ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻨﮧ ﺳﺨﺘﯽ ﺳﮯ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ۔۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺭﮎ ﮐﮧ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺟﺎﻧﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ۔۔ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺼﻨﻮﻋﯽ ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﭘﮭﺪﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﮐﺮﻭ ﻣﮕﺮ ﮔﺪﮬﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﻟﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﺎﺯﮎ ﭘﮭﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﮯ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﻣﺎﺭﺗﮯ ﮨﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺎﻟﯽ ﺳﻦ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﻋﺠﯿﺐ ﻟﮕﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ

ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺟﮭﭩﮑﺎ ﻣﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﺏ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﭘﮭﺪﯼ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﺭ ﺳﮑﺘﺎ ﺟﺎﻧﯽ ﺗﯿﺮﯼ ﮨﯽ ﻣﺎﺭﻭﮞ ﮔﺎ ﻧﺎ ﺯﺭﺍ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﯿﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮨﯽ ﺟﮭﭩﮑﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺸﯿﻦ ﭼﻼ ﺩﯼ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﺯﻭ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﺮﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﮧ ﻧﯿﭽﻼ ﺣﺼﮧ ﺍﻭﭘﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﺏ ﺩﻭ ﺟﻮﺍﻥ ﺟﺴﻢ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﺟﮑﮍ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﮔﻠﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﭧ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﮍ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺟﺴﻢ ﮐﻮ ﺩﺑﻮﭼﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ  ﻣﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﮐﻮ ﺩﺑﻮﭼﮯ ﺍﺳﮯ ﭼﻮﻣﺘﮯ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭼﻮﻣﺘﮯ ﺑﮯ ﻣﻌﻨﯽ

ﺳﺴﮑﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺟﺎ ﺟﺴﻢ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺍﮐﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯽ ﺍﻓﻔﻒ ﺑﮩﻦ ﭼﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﮩﻦ ﭼﻮﺩ ﮐﮩﻨﮯ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ملائکہ ﮐﺎ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﭼﮩﺮﮦ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﺑﻨﮉ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮔﮭﻮﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻦ ﺳﮯ ﻣﻨﯽ ﮐﯽ ﭘﭽﮑﺎﺭﯾﺎﮞ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺣﻨﺎ ﮐﯽ ﭘﮭﺪﯼ ﮐﻮ ﺑﮭﺮﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ملائکہ ﮐﯽ ﻣﻮﭨﯽ ﺑﻨﮉ ﭘﮧ ﮔﺮﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﺗﯽ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺣﻨﺎ ﮐﯽ ﭘﮭﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﮔﺮﺗﺎ ﮔﯿﺎ .

صبح جب آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ ماہم (حنا کا اصل نام ماہم ہے گھر میں پیار سے حنا کہتے تھے)  واش روم میں نہا رہی تھی میں بھی اٹھا اور اس کے ساتھ شرارتیں کرتے ہوئے نہایا ہاتھ منہ دھویا اور وہ کچن کی طرف چل پڑی ( اگر میں ان سب باتوں کی تفصیل لکھوں گی تو کہانی بور اور غیر متعلقہ باتوں میں الجھ جائے گی اس لیے صرف وہی واقعات لکھے جائیں گے جو ایک بھائی کو بہن کی طرف لے گئے) میں بھی تھوڑی دیر بعد اٹھ کہ نیچے گیا ناشتہ کیا اور دفتر کی طرف نکل گیا۔ دفتر میں کام کرتے وقت کا پتہ ہی نہ چلا اور پھر دفتر سے چھٹی کر کہ میں دو بجے نکلا اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ میں نے گیٹ کھولا اور اندر داخل ہو گیا ہر گھر کے گیٹ میں اب یہ ہوتا ہے کہ چھوٹا گیٹ باہر سے کھول کہ اندر آ سکتے ہیں بہت گھروں کے گیٹس میں یہ ایک عرصہ تک سسٹم رہا ہے ۔ میں گیٹ ہمیشہ آہستہ آواز میں کھولتا تھا کہ گھر کے باقی لوگ ڈسٹرب نہ ہوں کیونکہ امی ابو بھی دوپہر کو آرام کرتے تھے اور یہ روز مرہ کی روٹین تھی ۔ میں نے آہستگی سے گیٹ کھولا اور گھر میں داخل ہوا اور گیٹ کو بند کر کہ گھر کی اندرونی طرف بڑھا ۔ میرا ارادہ یہی تھا کہ خاموشی سے اوپر جاتا ہوں جتنی دیر میں نہاوں گا ماہم کھانا بنا لے گی یا گرم کر لے گی اور یہی سوچتا میں لاونج سے گزر رہاتھا امی ابو کے کمرے کی طرف دیکھا تو دروازہ بند تھا جبکہ ملائکہ کے کمرے کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا جو کہ معمول کی بات تھی۔ میں ملائکہ کے کمرے کے باہر سے گزر رہا تھا کہ اندر کسی چیز کے گرنے کی ہلکی سی آواز آئی اور میرے بڑھتے قدم رک گئے۔ پہلے میں نے سوچا کہ چھوڑوجو بھی گرا ہے میں نہیں دیکھتا پھر خیال آیا کہ ایک نظر دیکھ لو کوئی ایسی چیز نہ گری ہو جس سے کوئی نقصان کا خطرہ ہو ۔ یہ سوچ زہہن میں آتے ہی میں ملائکہ کھ کمرے کی طرف بڑھا اور نیم وا دروازے کو کھول کہ اندر دیکھا میرا ارادہ تھا کہ زور سے باووو کی آواز نکالوں گا اور اسے ڈراوں گا اس لیے دروازہ کھولتے ہی میں نے سانس روک کر باووو کی آواز نکالنے کا منہ بنایا لیکن دروازہ کھلتے ہی جومنظر سامنے تھا میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ میں نے شائد یہ منظر پہلے بھی کئی بار دیکھا تھا لیکن اس میں مجھے تب کچھ عجیب یا نیا نہیں لگا تھا لیکن کیونکہ اب سوچ بدل چکی تھی تو یہ نظارہ بھی مجھے بہت اثر انگیز لگا ۔ سامنے پلنگ پہ ملائکہ کروٹ لیے لیٹی تھی اور اس نے ہلکے پیلے رنگ کی قمیض اور سفید رنگ کی کاٹن کی ٹراوزر نما شلوار پہن رکھی تھی اور اس کے پاس پلنگ کے قریب ایک کتاب پڑی ہوئی تھی شائد وہ کتاب گرنے کی آواز مجھے آئی تھی۔ اس کی قمیض کا پچھلا دامن کروٹ لینے کی وجہ سے اس کی وسیع و عریض گانڈ سے ہٹ چکا تھا اور سفید رنگ کی شلوار میں قید موٹی تازی گانڈ الگ ہی جوبن دکھا رہی تھی۔میرا منہ جو باوو کی آواز نکالنے کے لیے کھلا تھا کھلا ہی رہ گیا مجھے ایک سکتہ سا ہو گیا کہ جو نظارہ تھا شائد میری آنکھیں اس کی تاب نہ لا سکتی تھیں اس کے جسم کی اس ادا نے میرے ہوش اڑا دئیے تھے ۔ میرا لن اپنی ہی بہن کی گاند دیکھ کر جھٹکے کھا رہا تھا اور میرے خود کو لاکھ روکنے کوسنے کے باوجود بھی میری نظر وہاں سے نہیں ہٹ رہی تھی نظروں کی اس کمینگی کے بعد میں خود کو کوستے ہوئے کمرے میں داخل ہوا اور کتاب کو نیچے سے اٹھانے لگا میں نے جھک کہ کتاب اٹھائی اور اوپر اٹھتے ہوئے میری نظر ایک بار پھر سوئی ہوئی بہن کے جسم پہ پڑی اس بار کیونکہ میں زیادہ قریب سے دیکھ رہا تھا تو مجھے احساس ہوا کہ اس کی شلوار کافی نیچے تک باندھی ہوئی ہے کیونکہ شلوار کے نیفے سے گانڈ کی درمیانی گلی جدھر سے شروع ہو رہی تھی وہ جگہ واضح تھی یہ نظر پڑھتے ہی میرے لن نے ایک جھٹکا کھایا اور میں وہیں بیٹھتا چلا گیا میرا گلا خشک ہو گیا اور سانس جیسے گلے میں اٹک گئی اور آنکھیں بہن کی کمر اور گانڈ سے جیسے چپک گئیں ۔میں ٹکٹکی باندھے ملائکہ کی گانڈ کو دیکھنے لگ گیا کہ اس کی گانڈ کدھر سے شروع ہو رہی ہے اور اس کی بناوٹ کیا ہے ۔ شلوار اتنی باریک تھی کہ جہاں سے ٹائیٹ تھی وہاں سے جسم کا گورا رنگ چھلک رہا تھا مین دنیا سے بے خبر بہن کے جسم کو دیکھے جا رہا تھا کہ اچانک میری نظر کمرے کے کھلے دروازے پہ پڑی میں تیزی سے اٹھا اور دروازے کی طرف بڑھا کہ کھلے دروازے سے اگر کوئی مجھے دیکھ لے گا تو کیا سوچے گا مین اٹھ کر دروازے کے پاس پہنچا تو ایک انجانی طاقت نے مجھے پھر پیچھے مڑنے پہ مجبور کیا اور میں نے پیچھے مڑ کہ دیکھا تو میری بہن اسی طرح بے خبر سو رہی تھی میرے ضمیر نے مجھے بہت ملامت کرنا شروع کر دی کہ یہ کیا کمینگی کر رہے ہو گھر میں کوئی دیکھ لے تو کیا سوچے گا اگر وہ جاگ جائے تو پھر اسے کیا منہ دکھاو گے ابھی پہلی بات بھی پرانی نہیں ہوئی وہ یہی سوچے گی کہ تم نے جان کہ ہاتھ مارے تھے اس سوچ کے آتے ہی میں اس کے کمرے کے دروازے سے باہر نکلا اور اوپر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا اپنے کمرے کا دروازہ میں نے آہستگی سے کھولا تو دیکھا ماہم بھی بے سدھ سو رہی ہے میں نے بغیر کچھ سوچے کمرے کا دروازہ بند کر دیا اور وہی کمینی سوچ میرے زہہن میں ایک بار پھر اتر آئی کہ ماہم بھی سو رہی ہے امی ابو بھی کمرے میں ہیں تو کیوں نا زرا سا ملائکہ کو اور دیکھ لیا جائے۔ تھوڑا سا اس کا جلوہ دیکھ لینے میں کیا حرج ہے ۔۔ اس سوچ کے ساتھ ہی میں واپس مڑا لیکن ضمیر صاحب بھی بڑے فرض شناس تھے فورا بولے ارے کمینے تیری سگی چھوٹی بہن ہے اس کو دیکھنے چلا ہے کچھ تو غیرت کر لے ۔ لیکن دوسری سوچ بھی بڑی بھاری تھی فورا سے پہلے جواب آ گیا اچھا گانڈ دیکھنے سے کیا فرق پڑ جائے گا میں نے کون سا کچھ کرنا ہے بہن کے ساتھ صرف گانڈ ہی دیکھنی ہے زرا پاس بیٹھ کر ۔ پھر بھی یہ بہت غلط بات ہے ضمیر نے ایک بار پھر ٹوکا لیکن ہوس غالب رہی اور میں سیڑھیاں اتر کر نیچے آ گیا ۔ اپنے ہی گھر میں چوروں کی طرح گھومنا بہت عجیب لگ رہا تھا میرا چہرہ جل رہا تھا اور ہاتھ پاوں کانپ رہے تھے میں نے کھڑا ہو کہ زرا خود کو نارمل کیا اور کچن کی طرف بڑھ گیا کچن میں جا کہ ایک گلاس پانی پیا اس دوران بھی میرے دل و دناغ میں کشمکش جاری رہی لیکن آخری فتح ہوس کی ہوئی اور ایک بھائی ایک رشتہ بہن کی گانڈ کی پہاڑیوں کے پیچھے اوجھل ہو گیا اور بہن کی گانڈ کی کشش بھائی کو اس کے کمرے کے دروازے تک لے آئی ۔ میں بھی تب تک خود کو یہ سمجھا چکا تھا کہ بس تھوڑی دیر دیکھنا ہے اور کچھ بھی نہیں بس دیکھ کہ مڑ جانا ہے مین نے ایک گہری سانس لی اور اس کے کمرے میں داخل ہو کہ دروازہ بند کر دیا کمرے کی کھڑکی کے سامنے سے پردے ہٹے ہوئے تھے جس کی وجہ سے کمرے میں تاریکی نہ تھی

Comments

Popular posts from this blog

سچی کہانی۔۔ قسط نمبر 1

کوفت بھی مزہ بھی